لکھی ہوئی تقریر کے محاسن اپنی جگہ مگر وزیراعظم کو اطمینان نہیں ہوا؛ چنانچہ بہت سی باتیں فی البدیہہ بھی کہیں اور اچھی۔تاہم اس تمہید ی خطاب میں اگر چند شخصیات کا تذکرہ بطور خاص شامل ہو تا تو نئے سیاسی کلچر کے خدوخال مزید نمایاں ہو جاتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام اس تقریر کا حصہ نہیں بن سکا۔ واقعہ یہ ہے کہ جس جمہوریت کی برکت سے میاں صاحب پر وزاتِ عظمیٰ کے دروازے تیسری بار کھلے، اُسے بے نظیر نے اپنے لہو سے سینچا تھا۔ نواز شریف کی جلا وطنی اور خدمات یقیناً تاریخ کا حصہ ہیں اور ان کا بھی اعتراف ہونا چاہیے لیکن بے نظیر کا ذکر کیے بغیربھی،یہ داستان ادھوری ہے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف، جمہوریت نے 11 مئی کو جو آخری جنگ لڑی اور فتح مند رہی، اس کا پہلا معرکہ بے نظیر نے لڑا اور اس میں اپنی جان دے دی۔میاں صاحب ہمیشہ ان کے معترف رہے۔محترمہ کے جسدِ خاکی کے ساتھ راولپنڈی کے جنرل ہسپتال میں وہ اپنی آنکھوں میں جن آنسوؤں کو تھامے کھڑے تھے، وہ عوام کے دلوںپر گرے تھے۔ اُن لمحوں میں وہ سیاسی حریف نہیں، گوشت پوست کے انسان تھے جس کے سینے میں ایک دھڑکتا دل ہوتا ہے۔ سیاست کے سینے میں ہو نہ ہو، سیاست دان کے سینے میں تودل ہونا چاہیے۔بہت اچھا ہوتا اگر وہ اپنے تمہیدی خطاب میں محترمہ کا ذکر کرتے۔ اس کے بعد امین فہیم صاحب کی تقریر کا لب و لہجہ بھی شاید مختلف ہوتا اور اگر نہ ہوتا تو عوام کو ان سے شکایت ہوتی۔ میاں صاحب کی اخلاقی برتری مزید بڑھ جاتی۔ جاوید ہاشمی کا ذکر بھی لازم تھا ۔ مشرف صاحب کے عہدِ ستم میں اُن کا وجود بھی تختۂ مشق بنا تھا۔ جو زخم میاں صاحب کے دل پر لگے وہ جاوید ہاشمی کے جسم پر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلم لیگ نے اپنی روایت کے بر خلاف اگر عزیمت کا مظاہرہ کیا تو یہ جاوید ہاشمی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ میاں صاحب کی غیر حاضری میں مسلم لیگ نے ارتقا کے بہت سے مراحل طے کیے۔اگر وہ آمریت کی چھتری سے نکل کر عوام کے دلوں میں آ بسی تو اس کایا کلپ میں جن لوگوں کا بنیادی کردار ہے ان میں جاوید ہاشمی بھی ہیں۔ان کے لہجے میں تلخی ہے۔ وہ بھی اپنی افتاد طبع کے اسیر ہیں ورنہ آج کی تاریخ میں وہ ’’سابق طالب علم رہنما‘‘ کے سانچے سے نکل کر ایک مدبر کی شناخت کے ساتھ جیتے۔ اس کے باوصف اُن گزرے دنوں کو ہم اپنے حافظے سے کیسے کھرچ سکتے ہیں جب وہ مسلم لیگ کی جنگ لڑ رہے تھے۔ میاں صاحب پر درِ اقتدار نہ کھلتا، اگر جاوید ہاشمی اڈیالہ کی تنہایوں میں اپنے زخموں سے چراغاں نہ کرتے۔میں میاں صاحب کی زبان سے یہ جملہ سننا چاہتا تھا:’’جاوید ہاشمی آج بھی میرے دل میں بستا ہے۔‘‘ اچھاہوتااس تقریر میں اگربیگم کلثوم نواز کا بھی ذکر ہوتا۔مشکل دنوں میں وہ گھر سے نکلیں اور گلیوں بازاروں کو اپنے عزم سے منور کر دیا۔ایک مسلمان سماج میں کیسے ایک خاتون اپنی تہذیبی شناخت کی حفاظت کرتے ہوئے،میدان سیاست میں بروئے کار آتی ہے،وہ اس کا ایک اظہار ہیں۔جیسے ہی کام کے کچھ مرد نکلے،انہوں نے خود کو سمیٹا اور روایتی پاکستانی خاتون کی طرح گھر کی ہو رہیں۔یہ خواتین کی جد و جہد کا اعتراف ہوتا اگر میاں صاحب اپنی تقریر میں ان کی خدمات کا ذکر کرتے ۔آج خواتین کا ایک سماجی و سیاسی کردار ہے۔یہ روز افزوں ہے ۔اس کو کم کیا جا سکتا ہے نہ نظر انداز۔ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے ،اچھا ہوتا اگر میاں صاحب بیگم کلثوم نواز کی علامت کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کو دعوت عمل دیتے۔ عمران خان کا ذکر بھی اس تقریرمیںلازم تھا۔کاش میاں صاحب کہہ سکتے ! ’’آج میں اس ایوان میںعمران خان کی کمی محسوس کر رہا ہوں‘‘۔ ان کی علالت کے دوران میں میاں صاحب نے جس اخلاقی برتری کا مظاہرہ کیا ،اس نے نواز شریف صاحب کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے۔انسان اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے۔ اُس کا ارتقا یہی ہے کہ وہ اخلاق کے مدارج طے کرتا جائے۔ اخلاق کا صلہ اخلاق کے سوا کچھ نہیں الا یہ کہ کسی کی فطرت مسخ ہو جائے۔جو اس کے برخلاف راستہ اختیار کرتا ہے،وہ رسوائیوں کی گرد میںگم ہو جاتا ہے۔گزشتہ دنوں میں ،میاں صاحب نے زبانِ حال سے یہ بتایا ہے کہ وہ اخلاقی ارتقا پر یقین رکھتے ہیں اور اس راہ کے مسافر ہیں۔اگروہ عمران خان کا ذکر کرتے تو میرا خیال ہے کہ اخلاقی برتری کے ایک ایسے مقام سے اپنے سفر کا آغازکرتے،جہاں تک پہنچنے کے لیے دوسروں کو بہت محنت کرنا پڑتی۔اقلیتوں کا ذکر بھی ضروری تھا کہ وہ ہمارے قومی وجود کا حصہ ہیں۔ تقریر کوئی بھی ہو،یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ہر پہلو پر محیط ہو۔بہت سی باتیں کہہ دی جاتی ہیں اور کچھ نظر انداز بھی ہو جاتی ہیں۔تاہم بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کسی خاص موقع پر تقریر کاناگزیر حصہ بننا چاہیے۔عید کی تقریب میں اگر مبارک باد نہ ہو اور تعزیت کے اجتماع میں اگر دعائے مغفرت نہ ہو تو پھر اس کی کمی کَھلتی ہے۔ ورلڈ کپ جیتنے کے بعدعمران خان کی تقریراسی وجہ سے بحث کا موضوع رہی ہے ۔ میاں صاحب کی اس تقریر سے واضح تھا کہ وہ ایک ایسے قائد ایوان کے طور پر پارلیمانی تاریخ کے ایک دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں جس میں محاذآرائی اور مخالفت برائے مخالفت نہ ہو۔یہ پیغام اس وقت بہت موثر ہو جاتا جب بے نظیر بھٹو،جاوید ہاشمی اور عمران خان کا خصوصی ذکر کر دیا جاتا۔میرے لیے یہ اچنبھے کی بات نہیں ہو گی اگر جاوید ہاشمی ایک بار پھر ن لیگ کا حصہ ہوں۔فوزیہ قصوری جو کچھ کہہ رہی ہیں،وہ اگر صحیح ہے تویہ فضا جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کے لیے بھی تا دیر ساز گار نہیں ہو گی۔ تاہم اس کا بڑا انحصار ن لیگ پر ہے۔کیا اس جماعت میںہاشمی صاحب کے مخالفین بدستور بالا دست ہیں؟اگر ایسا ہے تو پھر یہ مشکل ہو جائے گا ۔لیکن اگر نواز شریف صاحب چاہیں تو اب بھی جاوید ہاشمی ایسے بہت سے لوگ ن لیگ میںشامل ہو سکتے ہیں۔اقبال نے کہا تھا۔ ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق میاں صاحب کے پہلے اہم خطاب میں اگر مرد خلیق کا تاثر مزیدنمایاں ہوتا تو ن لیگ کے مے خانے میں ہجوم بڑھ جاتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved