تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-08-2020

کسی حال میں نہیں !

اگر کبھی آپ غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ دنیا کا ہر آدمی اضطراب میں ہے۔ زیادہ تر لوگ یا توکسی نہ کسی غم میں ڈوبے ہوئے ہیں یا کسی نہ کسی خوف کا شکار ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے بچپن میں لوٹ جانا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ''میرے بچپن کے دن، کتنے اچھے تھے دن‘‘۔ کتنے اچھے تھے دن... جب ناک بہہ کر منہ میں جا رہی ہوتی تھی اور کوئی بندہ آپ کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتا تھا۔ حجام کی کرسی پر لکڑی کی پھٹی رکھ کر بٹھایا جاتا تھا۔ نائی کوسنے دیتا تھا کہ تمہارے بالوں میں جوئیں ہیں۔ اس کا بس نہیں چل رہا ہوتا تھا کہ زبردستی گنجا کر دے۔ قینچی سے بھی تقریباً وہ گنجا کرکے ہی چھوڑتا تھا۔ ان دنوں سب سے زیادہ انتظار اس با ت کا ہوتا تھا کہ بڑے کب ہوں گے ؟ ہر بچّے کو بیتابی سے اپنے بڑے ہونے کا انتظار ہوتاہے۔بچّے کی بات کو کون اہمیت دیتا ہے۔اہم تو صرف بڑے ہوتے ہیں۔ انہی کے پاس اختیارات ہوتے ہیں۔ 
دوسری طرف ہر بڑا بچپن کو یاد کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے بقول تب کوئی خوف ہوتا تھا اور نہ پریشانی۔ جہاں تک مجھے نظر آتا ہے، چھوٹی سی بات پہ بچّہ بلکنا شروع کر دیتاہے اور اس کے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ بڑے ہو کر تو کافی صبر آجاتاہے۔ بچوں میں چھوٹی سی بات پربھی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے۔ کچھ لوگ ساری زندگی بچّے ہی رہتے ہیں۔ 
آپ کہتے ہیں کہ آج ہر بندہ مضطرب ہے۔ پرانے زمانے اچھے ہوتے تھے۔ سو فیصد جھوٹ۔ دنیا جب سے بنی ہے، انسان ویسا کا ویسا ہی ہے۔آپ اس بندے کے بارے میں سوچیں، دنیا میں جس نے پہلا قتل کیا تھا۔ کیا وہ آج کے دور کا بندہ تھا؟اس کے سامنے کوئی مثال بھی نہیں تھی کہ قتل کیسے کیا جاتاہے۔ اس کے باوجود اس نے یہ کام کر دکھایا۔ جتنی سازشیں آپ آج دیکھ رہے ہیں، یہ ہر زمانے میں مختلف شکلوں میں اسی طرح جاری و ساری رہی ہیں۔فرق صرف ٹیکنالوجی کا ہے۔ پرانے زمانوں میں سازشیں پیدل چل کر دوسرے گھروں میں جا کر تشکیل دی جاتی تھیں۔ آج واٹس ایپ کے سٹیٹس پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 
جو غریب ہیں، انہیں اپنی غربت کا غم کھائے جاتا ہے۔ ان کے خیال میں اگر دولت آجائے تو زندگی سے لطف اندوز ہونا ممکن ہے۔ جن کے پاس دولت ہے، وہ ان سے بھی زیادہ مضطرب ہیں۔ سیاسی منظر نامے پر جو لوگ زیادہ متحرک ہیں، آپ ان کو دیکھ لیں۔ہر سیاسی شخصیت کا خواب یہ ہے کہ وہ وزیراعظم بن جائے۔ دوسری طرف آپ ان لوگوں کی فہرست بنا ئیں، جنہیں وزیراعظم بنے کا موقع ملا۔ کیا انہیں اطمینانِ قلب نصیب ہوگیا؟ وہ سب پہلے سے کہیں زیادہ مضطرب ہیں۔ میں نے کبھی کوئی ایسا بندہ نہیں دیکھا، جو غربت سے امارت میں آجانے کے بعد مکمل طور پر پُرسکون ہو گیا ہو۔ اس کے اہداف، اس کی خواہشات پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ جب ضروریات پوری ہو جاتی ہیں تو باقی ساری زندگی وہ دولت میں دن دگنے رات چوگنے اضافے کے خواب دیکھتا رہتاہے ؛حتیٰ کہ موت آجاتی ہے۔
ہر غریب شخص امیر ہونا چاہتاہے۔ ہر امیر شخص کاروبار کو وسیع کرنا چاہتاہے۔ کاروباری طور پر اپنے قدم جما لینے والا ہر شخص ایم این اے بننا چاہتاہے۔ ہر ایم این اے وزیراعظم بننا چاہتاہے۔ ہر وزیراعظم اپنے اقتدار کو طوالت دینا چاہتاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو شخص طویل اقتدار کے مزے لوٹ بھی لیتاہے، وہ بھی مضطرب ہی نظر آتاہے۔ اطمینان بھری مسکراہٹ کسی چہرے پر نہیں۔ 
اس کی وجہ جانتے ہیں آپ ؟ حیاتیاتی طور پر انسان کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ یہ دنیا میں اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ بنا ہی نہیں سکتا۔ آپ شوبز میں ہوں اور آپ کی شادی کا دن ہو۔دلہن دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو۔ آپ دنیا کا بہترین سگار منہ میں لے کر دنیا کے سب سے مہنگے صوفے پر براجمان ہوں۔دنیا بھر کی اہم شخصیات آپ کی شادی میں شریک ہوں۔ دنیا کا سب سے اچھا میوزک چل رہا ہو۔دنیا کا سب سے اچھا رقص پیش کیا جارہا ہو۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے سر میں مائیگرین کا درد شروع ہو جائے۔ آپ کا دل چاہے گا کہ دلہن سمیت سب پر تین حرف بھیج کر وہاں سے فرار ہو جائیں۔ اس وقت آپ کی واحد خواہش ایک خاموش تاریک کمرہ ہوگی۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ہم اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو نے کے لیے کس حد تک آزاد ہیں۔ 
کنواری لڑکیوں کو عمر بڑھنے اور شادی نہ ہونے کا غم کھائے جاتا ہے۔ ان پر خوف طاری ہوتاکہ سب کی شادی ہو جائے گی، میں رہ جائوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ جن کی شادی ہو جائے، انہیں مطمئن ہو جانا چاہئے۔ آپ نے شادی شدہ لوگوں میں سے کتنوں کو مطمئن دیکھا ہے۔ ان کے تو غم ہی ختم نہیں ہوتے۔ شوہر کی بے اعتنائی کا غم، سسرالیوں کے مظالم کا غم۔ غم، غم اور صرف غم۔
ایک لڑکی اپنی سہیلی کو بتاتی ہے کہ میرا شوہر میرے گورے رنگ کی تعریفیں کرتاہے۔ وہ دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچتی ہے کہ میں تو اس سے زیادہ حسین ہو ں۔میرے شوہر نے تو کبھی میری تعریف نہیں کی۔ 
بیویوں کو شوہروں کے غم ہیں اور شوہروں کو بیویوں کے۔ بیویوں کے غم نہ بھی ہوں تو کمائیوں کے غم۔ بچوں کو ماں باپ کی سختی کا غم۔ ماں باپ کو بچوں کا دوسرے بچوں کی نسبت کم عقل ہونے کا غم۔ جو ماں بیٹے کے لیے چاند سی دلہن ڈھونڈنے کی خواہش میں اتائولی ہوئی جا رہی ہوتی ہے، وہ اسی چاند چہرے کی طرف سے زبان کی تلوار چلائے جانے پر غمزدہ بیٹھی ہوتی ہے۔ 
جس بیٹے کی پیدائش پر آپ نے فقید المثال جشن منایا ہوتاہے، وہ جب اپنے چھوٹے بھائی کا حق غصب کرتاہے تو آپ کا دل غم سے پھٹ جاتاہے۔ جس اولاد کی پیدائش پر آپ خوشی سے بے حال ہو رہے تھے، وہ آپ کی موت کے انتظار میں، آپ کے جیتے جی ہی جائیداد پہ لڑنا شروع کر دیتی ہے۔ جو بے اولاد ہیں، انہیں کسی بھی طرح کی اولاد حاصل کرنے کی خواہش مارے جاتی ہے۔ جن کے ہاں بیٹے ہیں، ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ بن جاتی ہے کہ کاش ایک بیٹی بھی ہو۔ بیٹیوں والے کہتے ہیں،ایک بیٹا، صرف ایک۔جو بے اولاد ماں باپ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لڑکی یا لڑکا، خدا صرف ایک بچّہ عطا کر دے، پھر وہ بیٹی کی پیدائش پر سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ایک بیٹا بھی مل جائے تو کیا مزا آئے۔ 
آپ یہ سوچتے ہیں کہ دولت اگر مل جائے تو زندگی سے لطف اندوز ہوا جائے۔ دوسری طرف جب دولت ملتی ہے تو نہ آپ کے پیٹ میں آنت ہوتی ہے اور نہ منہ میں دانت۔ اب بیٹھ کر انجوائے کرو زندگی کو۔ آپ اس کا مطلب سمجھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو اضطراب ہے، یہ خواہش پوری ہونے سے ختم نہیں ہوگا بلکہ مزید بھڑک اٹھے گا۔ حدیث کے الفاظ میں اگر سونے کی ایک وادی یا ایک پہاڑ بھی انسان کو مل جائے تو وہ دوسری وادی‘ دوسرے پہاڑ کا خواب ہی دیکھتا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سمت ہی غلط ہے۔ ہم جتنی بھی دوڑ لگائیں گے، اپنی منزل سے اتنے ہی دور ہوتے چلے جائیں گے۔
مطمئن وہ ہے، جو لمحہ ٔ حاضر میں مطمئن ہے۔ لمحہ ٔحاضر میں مطمئن وہ ہے، جس کا خدا سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔جتنا زیادہ تعلق، اتنا زیادہ اطمینان۔ صرف عبادت پہ مشتمل تعلق نہیں، علمی تعلق بھی۔ جس کا ایمان اس بات پہ استوار ہے کہ جس حال میں اللہ رکھے، وہی حال اچھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان یا تو ہر حال میں خوش ہوتاہے یا کسی حال میں بھی نہیں۔ آج گنتی کے چند لوگوں کو چھوڑ کر ابنِ آدم کسی حال میں بھی تو خوش نہیں !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved