تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-08-2020

حکومت سوئی ہوئی ہے

سوچا کسی اور موضوع پر لکھنے کا تھا مگر شاہ جی سے ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد ارادہ بدل دیا۔ مسئلہ وہی پرانا اور گھسا پٹا ہے لیکن پیش رفت، بلکہ معکوس قسم کی پیش رفت کے باعث سوچا‘ پہلے یہ معاملہ نمٹا لوں۔ گزشتہ دنوں ملتان میں صحافیوں اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مابین ''پیچ‘‘ پڑ گیا تھا۔ ایک طرف صحافی تھے اور دوسری اکیلے شاہ محمود قریشی۔ دراصل وہ اکیلے نہیں تھے ان کے ہمراہ شہر سے دوسرے ایم این اے ملک عامر ڈوگر، تین عدد ایم پی اے ڈاکٹر اختر ملک، جاوید انصاری اور ندیم قریشی کے علاوہ چیئرمین ایم ڈی اے میاں جمیل اور ضلعی صدر تحریک انصاف خالد جاوید وڑائچ بھی تھے؛ تاہم باقی سب لوگ کسی مہمان اداکار سے بھی کم کے حصہ دار تھے۔ اب خدا جانے وہ ازخود خاموش تھے یا انہیں محترم وزیر خارجہ نے اپنی خداداد صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے خاموش رہنے کی ہدایت کی ہوئی تھی لیکن یہ طے ہے کہ صحافیوں کی توپوں کا سارا رخ بھی صرف اور صرف شاہ محمود قریشی کی طرف ہی تھا۔ کسی اور کی طرف نہ انہوں نے پلٹ کر دیکھا اور نہ ہی کسی سیاستدان نے مشکل وقت میں قریشی صاحب کا ساتھ دیا‘ بلکہ ایک ایم پی اے سلیم لابر تو پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد تب تشریف لائے جب سارا میلہ اجڑ چکا تھا۔ بقول شاہ جی یہ ان کی بہترین پلاننگ اور عمدہ منصوبہ بندی کا اعلیٰ نمونہ تھاکہ وہ ایسے مناسب وقت پر تشریف لائے۔
اس ساری پریس کانفرنس یا مکالمے، آپ جو بھی کہہ لیں‘ کا مرکزی نکتہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا معاملہ تھا۔ ملتان کی صحافی برادری اس سلسلے میں بڑی متحرک ہے اور وہ پانچ ہزار سالہ تاریخ کے حامل شہر ملتان میں اس سب سیکرٹریٹ کے قیام کے لیے نہ صرف یکسو ہیں بلکہ خاصے تپے ہوئے بھی ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے دفتر کے قیام کے لیے ویسی کوشش ہرگز نہیں کی جیسی خسرو بخیار اور خاص طور پر طارق بشیر چیمہ نے بہاولپور کے لیے کی اور وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ صحافیوں کا خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ شاہ محمود قریشی زبانی کلامی تو بڑے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور دیگر سولہ محکموں کے سیکرٹریز کے دفاتر کے بہاولپور میں قیام کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی ہیں اور اس کے لیے مکمل طور پر کمپرومائز بھی کر چکے ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں صحافی محض اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹی سرانجام نہیں دے رہے تھے بلکہ اپنے شہر کا مقدمہ لڑ رہے تھے‘ اس لیے تھوڑے ناراض بھی تھے اور لہجوں میں تلخی بھی لیے ہوئے تھے۔ ان کے سوالات خاصے تندوتیز تھے۔ شاہ محمود کے مقابل بیٹھے ہوئے صحافی‘ جن میں سید سجاد بخاری، ممتاز نیازی، عادل نظامی، عامر بھٹہ اور ملک شہادت کے علاوہ درجن بھر سے زیادہ صحافی شامل تھے‘ صرف سوالات نہیں کر رہے تھے بلکہ جنوبی پنجاب کے منظور شدہ سب سیکرٹریٹ کے ملتان میں قیام کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ وہ شاہ محمود قریشی سے سب سیکرٹریٹ کے مرکزی دفتر کے ملتان میں قائم ہونے کے بارے میں واضح یقین دہانی چاہتے تھے اور قریشی صاحب گول مول لفظوں میں انہیں پرچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک صحافی نے سوال کیا‘ سیکرٹریٹ کا اصل دفتر کہاں ہوگا‘ ملتان یا بہاولپور؟ جواب ملا ملتان اور بہاولپور۔ سوالات میں پوچھا گیا کہ جو سمری وزیراعلیٰ نے منظور کی ہے اس میں بھی اس کے لیے ملتان اور بہاولپور سیکرٹریٹ کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ لیکن اصل دفتر جو ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا ہے، وہ تو بہاولپور ہوگا‘ اور ایڈیشنل آئی جی پولیس ملتان ہوگا‘ اس ترتیب کو الٹا کر لیں یعنی ایڈیشنل آئی جی بہاولپور بٹھا دیں اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ملتان میں بیٹھ جائے۔ جواب ملا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور دیگر محکموں کے سیکرٹریز دونوں شہروں میں بیٹھیں گے یعنی ملتان اور بہاولپور۔ سوال ہوا کہ کیا یہ سب لوگ ہر دوسرے دن سارا سٹاف اور بوریا بستر اٹھا کر بہاولپور سے ملتان اور ہر دو دن بعد ملتان سے بہاولپور آتے جاتے رہیں گے؟ کام کب کریں گے؟ تو شاہ محمود قریشی صاحب نے جواباً فرمایا کہ آپ لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ اب ''پیپر لیس‘‘ دنیا وجود میں آ چکی ہے۔ دفتر یہاں ملتان میں ہو یا بہاولپور میں‘ کوئی فرق نہیں پڑتا‘ سب کچھ آن لائن ہو جاتا ہے‘ ہم آن لائن سسٹم بنا رہے ہیں‘ سب کچھ آن لائن ہو جایا کرے گا۔ ایک صحافی نے تپ کر سوال کیا: اگر ملتان اور بہاولپور کے درمیان آن لائن ہونے سے دفتار کی مادی حیثیت بے معنی ہو جاتی ہے تو پھر یہ تمام دفاتر لاہور میں ہی رہنے دیں اور وہاں سے سب کچھ آن لائن کر دیں‘ ملتان یا بہاولپور میں دفاتر بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اتنی فضول خرچی کی کیا پڑی ہے؟
ایک صحافی نے کہا: آخر آپ اس ابہام کو دور کیوں نہیں کرتے کہ سیکرٹریٹ کہاں بنے گا؟ اگر بہاولپور میں بننا ہے تو صاف بتا دیں‘ گومگو میں نہ رکھیں۔ ملتان کے سارے ایم این اے اور ایم پی اے کہہ رہے ہیں کہ سیکرٹریٹ ملتان میں بننا چاہیے لیکن بہاولپور والے کامیاب ہو گئے ہیں اور ملتان والے ناکام۔ سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے ملتان کا مقدمہ ٹھیک طریقے سے نہیں لڑا اور ملتان میں سیکرٹریٹ کے قیام کا معاملہ اوپر ٹھیک طریقے سے پیش نہیں کیا۔ ایک صحافی نے کہا: اگر آپ کہتے ہیں کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ملتان بیٹھے گا تو اس کا نوٹیفکیشن لائیں۔ ایک موقع پر خاصی تلخی ہو گئی۔ ایک صحافی نے کہا: ایک وقت تھا‘ آپ تب تک گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے جب تک ہم لوگ کیمرے لے کر آپ کے گھر کے باہر نہیں پہنچ جاتے تھے‘ ہم ملتان کے بیٹے ہیں‘ آپ کے ووٹر بھی ہیں اور سپورٹر بھی‘ ہم آپ سے سوال کر سکتے ہیں۔ اوپر سے کسی صحافی نے کہہ دیا کہ آپ نے اگلا الیکشن بھی یہیں سے لڑنا ہے۔ اس پر شاہ محمود قریشی گرمی کھا گئے اور کہنے لگے کہ مجھے پتا ہے‘ اپنا الیکشن میں خود لڑوں گا‘ آپ نے نہیں لڑنا‘ آپ فکر نہ کریں۔
یہ تو پریس کانفرنس کا احوال تھا۔ دوسری طرف احمد حسین ڈیئر کا کہنا ہے کہ پورے ملتان میں اپنی مرضی کی تقرریوں اور عہدوں کے حصول کے علاوہ میرے حلقہ این اے 154 میں تھانیدار اور پٹواری بھی شاہ محمود قریشی صاحب کی مرضی سے لگتے ہیں‘ وزیراعلیٰ میری بات نہیں سنتے تھے۔ میری وزیراعظم سے لاہور ملاقات ہوئی تو انہوں نے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ وہ ہر ماہ مجھ سے ملاقات کریں اور میرے حلقے کے مسائل حل کریں۔ احمد حسین ڈیئر نے ایک رازدار کو بتایا کہ وزیراعظم سے یہ واضح ہدایت سن کر وزیراعلیٰ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھ سے کہاکہ پہلے میں ملتان کے بارے میں صرف شاہ محمود قریشی کی بات ماننے پر مجبور تھا اب مجھے اس سلسلے میں آپ کا کہہ دیا گیا ہے‘ آپ دیکھیں کہ میں آپ کو کس طرح اکاموڈیٹ کرتا ہوں۔ اللہ جانے اس بات میں کتنی سچائی ہے، لیکن ایک واقفِ حال کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی بہاولپور اور اس کے آس پاس زمینیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنے کیونکہ اس سے ان کی زمینوں کی ویلیو زمین سے آسمان پر چلی جائے گی اور ان سب کی چاندی ہو جائے گی۔ یہ زمینوں وغیرہ کے معاملے بڑے لوگوں کا مسئلہ ہے۔ ہم جیسے معمولی لوگوں کو ان چیزوں سے کیا مطلب؟ بڑے لوگوں کی باتیں بڑے لوگ ہی جانتے ہیں۔ ہمیں تو یہ پتا ہے کہ آٹا ستر روپے کلو اور چینی سو روپے کلو مل رہی ہے اور حکومت سوئی ہوئی ہے۔
نوٹ: ایک باوثوق ذریعے نے بتایا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ڈیرہ غازی خان کے اللہ بخش کورائی کو سٹریٹیجک کمیٹی فار میڈیا پنجاب کا رکن بنانے پر پڑنے والے شوروغوغا کو کم کرنے کیلئے ایک مقامی ایم پی اے کو بمشکل راضی کرکے ایک سفارشی رقعہ اور بیان دلوا دیا ہے کہ موصوف کی تقرری ان کی سفارش پر کی گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved