وزیر اعلیٰ پنجاب کی نیب میں طلبی اچانک نہیں ہوئی‘ اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔
پنجاب کے وسیم اکرم پلس کی تعیناتی حیران کن تو تھی ہی لیکن ان کی کارکردگی نے سب کو ہی انگشت بدنداں کر دیا۔ ایک تو پہلے ہی دن سے ان کا تقابل شہباز سپیڈ سے کیا جانے لگا‘ اوپر سے وفاقی حکومت کی ناقص کارکردگی کا ملبہ بھی پنجاب پر گر رہا تھا۔ ایسے میں ہر جگہ سے عثمان بزدار کی تبدیلی کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں لیکن کپتان اپنے کھلاڑی کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے اور بڑے بڑے حلقوں کی فرمائش اور خواہش کو بالائے طاق رکھ دیا۔
عثمان بزدار کی تبدیلی چاہنے والوں کا مقدمہ دیکھیں تو اس میں مجھے جان نظر آتی ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے یعنی پنجاب اگر ملک ہوتا تو بلحاظ آبادی دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوتا۔ اب اتنے بڑے صوبے کو چلانے کے لئے جس قسم کی انتظامی اور سیاسی صلاحیتیں درکار ہیں ان کا مظاہرہ ابھی تک کیا نہیں جا سکا۔ وزیر اعلیٰ کی ناک کے نیچے آٹا سکینڈل ہو گیا اور اس پر بیانات کا پانی انڈیل کر سمجھا گیا کہ معاملہ ختم ہو گیا جبکہ چینی سکینڈل کی ایف آئی اے رپورٹ بھی ان کے لئے کوئی امید افزا خبر نہیں لائی۔ مجھے لگتا یہی ہے کہ ان کے لئے آنے والا وقت مزید مشکلات لے کر آئے گا کیونکہ اتحادیوں کے ساتھ معاملات اور نت نئے سکینڈلز ان کی تبدیلی کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے سردار عثمان بزدار کی نامزدگی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا تعلق پنجاب کے پسماندہ علاقے سے ہے جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی۔ آٹا اور چینی تو عوامی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں‘صوبائی سرکار کا اگلا ہدف پانی و بجلی ہی ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم کا اپنے وسیم اکرم پلس کے بارے میں کہنا تھا کہ پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باعث وہ غربت کو سمجھتے ہیں۔ دوسری سب سے اہم بات جو پنجاب کے عوام کو باور کرائی گئی یہ تھی کہ وہ ایماندار ہیں... اور اس کی گارنٹی وزیر اعظم نے خود دی تھی۔ عمران خان کو عوام نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا‘ لہٰذا اس انتخاب پر اعتماد کیا گیا۔ اگر کسی کو اعتماد نہیں تھا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی۔ ابتدائی مہینوں میں صوبائی سربراہ کو سات پردوں میں چھپا کر رکھا گی‘ کیونکہ میڈیا اور پنجاب کے عوام کو پچھلے دس برسوں سے شہباز شریف کی عادت ہو چکی تھی‘ لہٰذا یہ خاموش طبع شرمیلا وزیر اعلی میڈیا کو نہ بھایا اور جب نئے وزیر اعلی پنجاب کی میڈیا کے سامنے رونمائی ہوئی اور ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں تو ان کی اس بات کو مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا اور عوامی مباحث میں آڑے ہاتھوں لیا گیا‘ اور وزیر اعظم پر سخت تنقید کی گئی کہ انہوں نے کیسا وزیر اعلیٰ چنا ہے جو ابھی سیکھ رہا ہے۔ عمران خان نے جب تبدیلی کا نعرہ لگایا اور اس کے لیے جدوجہد کی تو ان کی اس 22 سالہ جدوجہد میں کہیں بھی عثمان بزدار کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وہ تو 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کا حصہ بنے، بلکہ کچھ واقفان حال نے یہ قصہ بھی سنایاکہ جب عثمان بزدار ایم پی اے کی سیٹ جیت کر لاہور پہنچے تو ان کا سب سے بڑا ہدف ایم پی اے ہاسٹل میں کمرہ حاصل کرنا تھا۔ اس کے لیے وہ سخت تگ و دو میں مصروف رہے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا‘ وزارت اعلیٰ کا ہما ان کے سر پر بیٹھ چکا تھا‘ لیکن ان کو کوئی خبر نہ تھی کہ ان کی جگہ ایم پی اے ہاسٹل نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس ہے۔ خیر یہ سب قسمت کے کھیل ہیں اور قسمت کیا کیا رنگ دکھاتی ہے یہ ہم سب نہیں جانتے۔ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد پنجاب کی روایتی سیاست شروع ہو گئی اور روایتی امیدوار‘ جن میں چوہدری برادران، شاہ محمود قریشی گروپ، جہانگیر ترین گروپ‘ جہلم چکوال گروپ شامل ہیں‘ سرگرم ہو گئے‘ تو ان سب سے بڑھ کر خود عمران خان پنجاب کے معاملے کو لے کر بہت حساس تھے۔ ان طاقتور گروپوں کی موجودگی میں کسی ایک گروپ کے سرپر دست شفقت رکھنا عمران خان کے لیے مشکل مرحلہ تھا‘ لہٰذا ایک بفرزون بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب میں تبدیلی کو بچانے کے لیے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے کارڈ کو استعمال کیا گیا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ ایسا شخص لایا جائے جو ان میں سے کسی گروپ کا نہ ہو۔ مرکز اور عمران خان کا تابع فرمان بھی ہو۔ ایسے میں روحانی مدد بھی آن پہنچی اور قرعہ فال ناتجربہ کار عثمان بزار کے نام نکلا۔ حکومت بننے کے کچھ عرصے بعد یہ خبریں سامنے آنے لگیں کہ انہیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے الگ کیا جا رہا ہے لیکن جب جب یہ خبریں سامنے آتیں‘ عمران خان لاہور یاترا کرتے اور پروپیگنڈا کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیتے کہ عثمان بزدار کا کلہ مضبوط ہے۔ ان کے کاموں کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے اور جاتے جاتے عمران خان عثمان بزدار سے کہتے مور پاور ٹو یو۔
پھر ناتجربہ کار، نادان اور ابھی سیکھنے کے مرحلے سے گزرنے والے شخص کا تاثر آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگا کچھ قصے کہانیاں زبان زد عام ہونے لگیں جہاں ان کے خاندان کے افراد کا نام لیا جانے لگا وہاں اپوزیشن نے ان کے نام کے ساتھ کرپشن کے الزامات بھی جوڑنا شروع کر دیے کیونکہ اپوزیشن کا تو کام ہی الزام لگانا ہے‘ لہذا اس بات کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔ لیکن چینی اور آٹا سکینڈلز میں وزیر اعلیٰ کا نام آیا تو واقفان حال نے بتایا کہ وہ اتنے بھولے نہیں ہیں جتنے کہ بتائے جاتے ہیں۔ اور اب نیب کی جانب سے ان کی شراب کیس میں طلبی نے جہاں ان کے مخالفین کو خوش کر دیا ہے وہاں ان لوگوں کو مایوس بھی کیا ہے جو وزیر اعلیٰ کی ناتجربہ کاری کے باوجود اس امید پر چیزوں کو دیکھ رہے تھے کہ یہ شخص ایماندار ہے کیونکہ اس کی گارنٹی عمران خان نے دی ہے۔
اب نیب کی طلبی کے بعد اپوزیشن کو ایک بار پھر موقع مل گیا۔ اپوزیشن کے رکن حسن مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ نیب کو چاہیے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو میگا کرپشن سکینڈلز میں طلب کریں‘ پنجاب میں چینی کی سبسڈی اور گندم غائب ہونے کے معاملات کی تحقیقات ہونی چاہیے اور اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو کلین چٹ ہرگز نہیں ملنی چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کو شراب کیس میں طلب کرنا تعجب خیز ہے‘ کیونکہ بات اپوزیشن کے الزامات سے بڑھ چکی ہے۔ نیب ملک میں احتساب کا ذمہ دار ادارہ ہے اور حکومت اس معاملے میں اس پر کئی بار اعتماد کا اظہار کر چکی ہے۔ اس ادارہ کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو انکوائری کے لئے طلب کرنا عمران خان کی گارنٹی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ احتساب کا اداہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے کیونکہ انکوائری پراسیس میں مسلم لیگ ن کے کئی راہنما کئی کئی ماہ تک نیب کی تحویل میں رہ چکے ہیں لیکن کیا عثمان بزدار صاحب کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کیا جائے گا؟ کیا وزیراعظم اس بار بھی ان کو بچانے آئیں گے یا پھر جہانگیر ترین کی طرح فاصلہ اختیار کر لیں گے؟ اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا اور اس معاملے کی تفتیش کا رخ یہ طے کرے گا کہ عثمان بزدار مزید وزیر اعلیٰ پنجاب رہیں گے یا نہیں؟
عثمان بزدار صاحب کا مستقبل صرف ان کی سیاست کا ہی نہیں وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست کا راستہ بھی متعین کرے گا۔