تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     09-08-2020

مرے وجود میں آبِ رواں ہے راوی کا

چشم تصور بھی کیا عجیب چیز ہے۔ خواب ہوں یا خدشات‘ دونوں بڑھا کر دکھاتی ہے۔ کچھ باکمال ہر دور میں خواب دکھاتے رہتے ہیں اور خواب دیکھنے والے بھی ہر دور میں موجود رہتے ہیں۔ جتنا لذیذ خواب‘ اتنے ہی زیادہ گاہک۔ سابق تجربات کے ڈسے ہوئے کچھ لوگ خدشات و خطرات ساتھ ملا کر خواب دیکھتے ہیں، لیکن کیا کیجیے ہر زمانے میں خوابوں کو پذیرائی لازماً ملتی ہے۔ خواب ہیں ہی ایسی چیز۔ 
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی 
جب ذکرِ بہار آیا، سمجھے کہ بہار آئی
کچھ دنوں سے میری چشم تصور بھی خواب اور خطرات ملا کر دیکھ رہی ہے۔ لاہور کے ساتھ راوی کے کناروں پر ایک بڑا اور نیا شہر بسانے کی باتیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ کچھ دن پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے راوی ریور فرنٹ اتھارٹی (RRFA)کے نام سے اس منصوبے کے لیے اپنی سربراہی میں ایک الگ ادارہ بنا دیا۔ اسی منصوبے کے لیے ایک پہلے سے قائم شدہ ادارہ راوی ریور اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ(RRUDP) موجود تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے اس الگ ادارے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ یہ ایک الگ سوال ہے۔ پنجاب اسمبلی سے اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے گی۔ پنجاب کیبنٹ رقم اور متعلقہ معاملات کی حتمی منظوری دے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ منصوبے کا اصل مقصد سوا کروڑ آبادی والے لاہور میں گھروں کی کمی، ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک کے ہجوم، اور صاف پانی کے کمی کے بڑھتے ہوئے مسائل کو حل کرنا ہے۔
یہ بہت بڑا پراجیکٹ ہے۔ 5 ٹریلین روپے کی لگ بھگ لاگت سے لاہور کے شمال میں ایک لاکھ ایکڑ پر راوی کے دونوں کناروں پر بسا ہوا ایک بالکل جدید شہر۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ شہر خدوخال، منصوبہ بندی، خوبصورتی اور سہولیات کے اعتبار سے دبئی سے آگے ہوگا۔ یہ بات 2003 کی ہے جب چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے یہ منصوبہ تخلیق کیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ شہر دریائے ٹیمز پر بسے شہر کنگسٹن کی طرز پر سوچا گیا تھا{ جو خود گریٹر لندن کا ایک حصہ ہے۔ اس دور میں اس منصوبے پر ابتدائی کام ہوا‘ پھر شہباز شریف کے دور میں‘ انہیں یہ منصوبہ پسند آیا۔ اس زمانے میں ایل ڈی اے اس منصوبے میں شامل تھا۔ اس وقت ریور راوی زون ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے نام سے کچھ کام بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ کچھ خبریں آئیں اور مجھے یاد ہے کہ راوی کنارے مجوزہ زمینوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی تھی‘ لیکن جو بہت بڑا سوال اٹھنے والی لاگت کا تھا، اس کا حل شہباز حکومت نہیں نکال سکی اور منصوبہ 2013 کے بعد سرد خانے میں چلا گیا۔ اب پنجاب حکومت اسے وہیں سے شروع کرنا چاہتی ہے جہاں پرویز الٰہی دور میں چھوڑا گیا تھا۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے پر ایک میٹنگ کی صدارت کی۔ یہ منصوبہ ان کی دلچسپی کا اس لیے بھی ہے کہ گھروں کی تعمیر کے انتخابی وعدے کو پورا کرتا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم کی اس پر توجہ ہے۔ ذرا اس منصوبے کے خوبصورت بنیادی خدوخال دیکھتے ہیں۔ اس پر خدشات اور سوالات کی بات ہم بعد میں کریں گے۔
یہ انتہائی جدید شہر لاہور اور شیخوپورہ کے ضلعوں میں واقع ہوگا۔ ایک بڑی جھیل، تین بیراجز، 14 رہائشی، تجارتی اور ملے جلے زون، میڈیکل سٹی، تعلیمی شہر، سیاحت اور کھیلوں کا شہر، ایک جنگل، اور مرکزی تجارتی علاقہ اس منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ 25 ہزار ایکڑ زمین سرمایہ کاروں کو فروخت کی جائے گی۔ منصوبے کے مطابق شہر میں 14 لاکھ رہائشی یونٹ ہوں گے۔ دریا پر نئی سڑکیں،گھاٹ، سیرگاہیں‘ سبزہ زار بنائے جائیں گے جن کی لمبائی لگ بھگ 100 کلومیٹر ہوگی۔ ایک انٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ دونوں کناروں پر لاہور سے شیخوپورہ تک 33کلومیٹر لمبی پختہ پٹی پر یہ شہر بسایا جائے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 70 فیصد حصہ درختوں کے لیے رکھا جائے گا۔ راوی کو صاف پانی فراہم کرنا اور گندے پانی کا متبادل نظام بنانا اس منصوبے کی بنیادی ضرورت ہے۔ ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے کئی پلانٹ لگائے جائیں گے‘ اور گندے پانی کو راوی سے الگ کرنے کا متبادل نظام بنایا جائے گا۔
2013 میں اس منصوبے کی امکانیت ((Feasibility report کا کام بین الاقوامی شہرت یافتہ انجینئرنگ فرم مین ہارٹ (Meinhardt) نے کیا تھا۔ اس رپورٹ میں منصوبے کے بہت سے مثبت اور کچھ منفی پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ مثبت پہلوؤں میں اس علاقے کی معاشی ترقی، ملک کو مجموعی معاشی فوائد، بلند تر معیار زندگی، شہری سہولیات کی بہتری، دریائے راوی کی بحالی، سیاحت، سیلاب کی روک تھام جیسے اہم پہلو شامل ہیں۔ منفی باتوں میں 76,684 ایکڑ زرعی زمین کی کمی، 65 آبادیوں یعنی 80 ہزار لوگوں کی منتقلی بھی شامل ہے۔ لیکن کہا گیا ہے کہ یہ عارضی مسائل ہوں گے جو بعد ازاں ختم یا بہت کم ہو جائیں گے۔ رپورٹ نے پبلک پرائیویٹ شراکت داری کی بنیاد پر منصوبہ بنانے اور چلانے کی تجویز بھی دی تھی۔
یہ تو ہوئے منصوبے کے خدوخال۔ اب وہ خدشات اور خطرات جو اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک بڑا سوال یہ کہ کیا یہ لاہور ہی کی توسیع شمار ہو گی یا ایک الگ شہر؟ کیا یہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرح جڑواں شہر ہوں گے؟ اور کیا اصل لاہور اس نئے شہر کے سائے میں رہنے پر مجبور ہوگا؟ وہ مافیاز اور گروہ جنہیں زمین کی خوشبو سب سے پہلے پہنچ جاتی ہے، کیا اس منصوبے پر بھی قابض ہوجائیں گے؟ کیا راوی اور اس کے ساحل تجارتی اشیا کی طرح کاروباری فائدے کے لیے فروخت ہوں گے اور دریا اور نئے شہر پر صرف پیسے والوں کا قبضہ ہوگا؟ یہ واضح نہیں ہورہا کہ یہ کوئی تجارتی منصوبہ ہے جس میں بلند عمارات، پلازے، بزنس سنٹرز وغیرہ ہوں گے یا یہ تجارتی فائدے سے ہٹ کر واقعی بنیادی طور پر لاہور کے مسائل کے حل کا منصوبہ ہے؟ اس نئے شہر سے لاہور کے پہلے سے مسائل میں کمی ہوگی یا اضافہ؟ بڑھتی ہوئی آبادی کا دبائو، ٹریفک کی قطاریں، ماحولیاتی آلودگی اور پینے کے صاف پانی کی کمی ان مسائل میں سے چند ایک ہیں۔ ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ ایک لاکھ ایکڑ پر اس شہر کو صاف پانی کہاں سے ملے گا؟ راوی میں اتنا پانی کہاں سے آئے گا جو اتنے بڑے علاقے کو خوبصورت بھی بنائے اور آبی حیات بھی بحال کرے۔ خاص طو ر پر سردیوں میں جب مرالہ راوی لنک نہر بھی بند رہتی ہے۔ پھر سارے شہر کا سیوریج نظام راوی میں گرتا ہے۔ ملیں، فیکٹریاں اپنا فضلہ راوی میں پھینکتی ہیں۔ لگ بھگ چھ لاکھ کیوسک سیوریج کا پانی راوی میں شامل ہوتا ہے۔ کیا ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اس کا سدباب کرسکیں گے؟ پھر یہ کہ راوی پر یہ میگا پراجیکٹ بننے سے لاہور شہر کا زیر زمین پانی کا لیول کتنا گرے گا؟ ایک اہم سوال یہ کہ لاہور کے اردگرد بغیر پلاننگ کے بڑھتی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے زرعی زمین نگل لی ہے۔ اب یہ ایک لاکھ ایکڑ زمین استعمال ہونے سے لاہور کے قریب زرعی زمین بالکل ختم ہو جائے گی۔ یہ منصوبہ کسی دور دراز علاقے میں نہیں لاہور کے بالکل قریب ہوگا تو لاہور پر اس کے مثبت یا منفی اثرات لازماً پڑیں گے۔ شاید وہ اثرات بھی جن کا پیشگی تصور اس مرحلے پر ممکن نہیں۔ اس منصوبے میں ایک نئے انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی وجہ بھی سمجھ نہیں آئی۔ لاہور میں نیا ائیر پورٹ بنے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور اب تک اس پر کام چلتا رہتا ہے۔ ائیرپورٹ پر بہت بڑی رقم خرچ آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے سے موجود ائیر پورٹ سے کام کیوں نہیں چلایا جا سکتا؟ بات دور نکل گئی۔ آپ بھی سوچیں گے کہ یہ میں نے کیا روایتیں اور حکایتیں بیان کرنا شروع کردیں۔ اب میں جواب میں کیا کہوں۔ سوائے اس کے کہ حضور! یہ بات ہی راوی کی ہے اور
روایتیں تو مرے خون میں رچی ہیں سعود 
مرے وجود میں آبِ رواں ہے راوی کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved