مٹی کی دیوار اونچی کرنے سے کھیت میں گڑھا بننے پر زمیندار نے نوکر کو اسے فوری بھرنے کا حکم دیا جس پر نوکر نے کدال پکڑکر اس گڑھے کو بھرنا شروع کر دیا ۔کوئی ایک گھنٹے کی محنت کے بعد اس نے گڑھا بھر کر برا بر کر دیا اور یہ سوچتے ہوئے اپنے کمرے کو چل دیا کہ صبح زمیندار آ کر جب اس گڑھے کو اچھی طرح بھرا ہوا دیکھے گا تو خوش ہو جائے گا۔ اگلے دن زمیندار کے آنے سے پہلے ہی وہ اس کے رستے میں کھڑا ہو گیا اور اسے ساتھ لئے خوشی خوشی کھیت کی طرف چل پڑا۔ زمیندار نے جب اچھی طرح سے بھرا ہوا گڑھا دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے نوکر کو شاباش دیتے ہوئے پوچھا کہ گڑھے کو بھرنے کیلئے اتنی ساری مٹی تم کہاں سے لے کر آئے ہو؟ نوکر نے جواب دیا:جناب ساتھ والے کھیت سے!زمیندار نے ساتھ والے کھیت کا گڑھا دیکھا تو سٹپٹاگیا اور غصے سے ملازم پر برستے ہوئے کہا: یہاں مٹی کھودنے سے جو گڑھا بن گیا ہے اسے اب کس طرح بھرو گے؟ نوکر سینہ تان کربولا : چوہدری صاحب اس سے کچھ آگے گڑھا کھود کر۔نوکر نے مالک کے سوال پر فٹ جواب دیا کہ وہ گڑھا ایک نیا گڑھا کھود کر بھر دیں گے اور پھر یوں ہوا کہ ایک گڑھا بھرنے کیلئے دوسرا گڑھا کھودا جانے لگا اس طرح پہلا گڑھابھرتے بھرتے جگہ جگہ گڑھے کھود دیئے گئے۔
راولپنڈی سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر جا بجا گڑھے کھدے ہوئے ہیں اور لاہو ر میں کہیں بھی آتے جاتے یا لاہور سے قصور اور وہاں سے کھڈیاں دیپالپور روڈ کا سفر درپیش ہو تو اندازہ ہوجائے گا کہ ان سڑکوں پر جابجا گڑھے آپ کے سفر اور گاڑی کوکس قدرتکلیف دہ بناتے ہیں۔ جی ٹی روڈ ‘ لاہور اور پھر وہاں سے قصور‘ کھڈیاں‘ دیپالپور تک کی سڑکوں کی تعمیر نہ جانے کس میٹریل سے کی گئی ہے کہ غریب کے لباس کی طرح جگہ جگہ اس پرچیتھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ کھڈیاں خاص کے پرانے اور نئے لاری اڈے تک کی ٹوٹی پھوٹی سڑک کی دوبارہ تعمیر کیلئے پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کی التجائیں اور دعائیں نہ جانے کون سنے گا؟ شاید ان دعائوں میں اب وہ اثر نہیں رہا یا بڑی بڑی گاڑیوں میں یہاں سے گزرنے والے منتخب نمائندوں‘ ضلع کے بڑے افسران اور مرکزی و صوبائی وزرا نے اپنی آنکھوں پر گہرے شیشوں کے چشمے لگا رکھے ہیں کہ انہیںکچھ دکھائی نہیں دیتا۔اگر کسی نے عوام کی فریاد سننے کیلئے چند منٹ دیے بھی تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جی ہمارے پاس تو فنڈز ہی نہیں ہیں۔منتخب ارکان کی جانب سے فنڈز نہ ہونے کا عذر بھی ٹال مٹول کا ایک ذریعہ ہے حالانکہ پنجاب حکومت کے فنڈز نہ ہونے کے عذر پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے تیسرے مہینے نہ جانے کس کے حکم پر قصبہ کھڈیاں کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے تبدیلی کا کوڑا برسانے کیلئے تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹال ٹیکس کے کیمپ لگادیئے گئے ‘جو ہر گزرنے والی کار ‘بس‘ ویگن‘ ٹرک اور ٹریکٹر ٹرالی سے پیسے بٹور رہے ہیں ۔ پنجا ب حکومت بتانا پسند کرے گی یہاں سے گزشتہ دو سالوں کے دوران جمع کیا گیا کروڑوں روپیہ کد ھر جا رہا ہے؟ اگر اس سڑک پر جگہ جگہ پڑے ہوئے گہرے ‘ خطرناک کھڈے بھرے نہیں جاسکتے تو پھر وزیر اعلیٰ پنجاب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں سے ٹوکن ٹیکس اور ٹال ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کیوں وصول کئے جا رہے ہیں؟
2018ء کے عام انتخابات سے پہلے قصور سمیت ہر ضلع کے ساتھ ساتھ لاہور کے جوہر ٹائون ‘گرین ٹائون ‘ ٹائون شپ اور شاہدرہ سمیت تمام حلقوں میں نئی سڑکوں کی تعمیر اور پہلے سے تعمیر شدہ سڑکوں کی تعمیرِ نو کا سلسلہ شروع کردیا گیا ‘لیکن ان سڑکوں کو تعمیر ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا مگر مناسب حفاظت اور بر وقت مرمت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سڑکیں اب خستہ حالی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ان سڑکوں کی حالت اس طرح ہو چکی ہے جیسے یہ سڑکیں لاوارث ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں پنجاب بھر کے ووٹروں کو اپنی جانب کھینچنے کیلئے اراکینِ اسمبلی کو اپنے حلقہ انتخاب میں نئی سڑکوں کی تعمیر کیلئے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی اپنی پسند کے ٹھیکیداروں کے ذریعے کام کروانے کی کھلی چھوٹ دے کر سڑکوں کی تعمیر کیلئے پچاس کروڑ سے ایک ارب روپے کے فنڈز حوالے کئے گئے تاکہ ووٹروں کو اپنے کانٹے میں پھنساسکیں ۔ مگر کرپشن زدہ نظام میں ٹھیکیداری قومی دولت کا سب سے بڑا ضیاع ہے۔ حکمران ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی کو فنڈز عطا کرتے ہیں اور وہ اپنے پسند کے ٹھیکیداروں میں گرانٹ تقسیم کرتے ہیں ۔ یہ نظام اوپر سے نیچے تک بدعنوانی سے آلودہ ہے۔ ٹھیکیداررشوت دے کر ٹھیکے حاصل کرتے ہیں اور ساری کسر منصوبوں کی گرانٹ سے پوری کرتے ہیں۔ جب تک تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکوں کے نظام میں شفافیت نہیں آتی قومی دولت یو نہی ضائع ہوتی رہے گی اور کرپٹ ٹھیکے دار اور بد عنوان افسران عوامی منصوبوں کا یونہی ستیا ناس کرتے رہیں گے۔آپ کو ایک سابق حکمران کا نام لیے بغیر بتاتے ہیں‘ جنہوں نے ہر محکمے اور وزارت کے دفاتر میں پڑی پرانی فائلوں کو دیکھنے کے بعد حکم جاری کیا کہ الماریوں میں رکھی ہوئی ہزاروں فائلوں کو نکال کر جلا دیاجائے لیکن جلانے سے پہلے ان کی ایک نقل تیار کر لیں ۔دنیا بھر میں ترقیاتی کام ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے‘ مگر اس کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن پاکستان غالباًدنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے حکمران اپنی مرضی اور سیا سی مفاد کو سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں جس کا خمیازہ آنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور یہی کچھ عمران خان اور عثمان بزدار کے دور میں بھی ہو رہاہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بے شک جدید ذرائعِ آمدو رفت کسی بھی ملک کی اہم ضروریات میں شامل ہیں اور دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے بہائو کیلئے نئی سڑکیں ‘پل ‘ میٹرو یا مونو ٹرین کی سہولتوں سے بھی انکار ممکن نہیں‘ لیکن ہر کام کسی قاعدے اور سلیقے سے کیا جائے تو وہ مفادِ عامہ کیلئے آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔تاہم ٹریفک میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے لاہور کی طرف بہنے والے ٹریفک کے بہائو میں رکاوٹیں دور کرنے کی جانب نہ اس صوبے میں دس برس تک بر سرِ اقتدار رہنے والے حکمرانوں کا دھیان جا سکا اور نہ ہی عثمان بزدار کا ۔لیکن جس نے پورے لاہور کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے نہ جانے کون ہے جو سب سے زیادہ انسانی ضرورت کی جانب دھیان ہی نہیں آ نے دے رہا۔ سمجھ نہیں آتی وہ کیا اسباب ہیں جو حکمرانوں کا دھیا ن شا ہدرہ چوک کی طرف جانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔پھر کہہ رہا ہوں کسی بھی ادارے سے عوامی سروے کرا کر دیکھ لیں شاہ کام اور فردوس مارکیٹ سے زیادہ تکلیف لوگوں کو شاہدرہ چوک میں برداشت کرنا پڑ رہی ہے‘ جہاں دن بھر کئی لاکھ افراد کو اس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ شاہدرہ چوک لاہور داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ فوری طور پر لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے بھرعوام کو جس انڈر پاس یا اوور ہیڈ پل کی سب سے زیا دہ ضرورت ہے اس کیلئے شاہدرہ چوک کا نام سب سے پہلے آنا چاہئے نہ کہ فردوس مارکیٹ یا شاہ کام چوک کا ۔ راوی پل سے شاہدرہ وہاں سے کوٹ عبد الماک یا امامیہ کالونی گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کی طرف جانے والوں اور شاہدرہ ‘ شاہدرہ ٹائون آنے جانے والی ہر سواری کو شاہدرہ چوک کے طویل ہجوم سے گزرنے کی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔گرمی ہو یا سردی ‘ دن ہو یا رات ‘یہاں سے اپنی اگلی کسی بھی منزل کی جانب بڑھنے کیلئے ان بسوں گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں اورٹرکوں کو اس چوک میں دھنسی ہوئی بے ترتیب ٹریفک کے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔