تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-08-2020

کہاں کے دانا ہیں‘ کس ہنر میں یکتا ہیں

ٹیکنا لوجی کی ترقی نے بہت سے معاملات کا حُسن غارت کردیا ہے۔ اب عید کارڈ ہی کی مثال لیجیے۔ ایک زمانہ تھا کہ عید کارڈ منتخب کرنے پر خاصی محنت کرنی پڑتی تھی۔ اور پھر عید کارڈ ڈاک سے روانہ کرنے کا مرحلہ ہوتا تھا۔ اب سب کچھ ڈیجیٹل ہوگیا ہے۔ خط کا معاملہ بھی تو کچھ ایسا ہی ہے۔ پہلے جب ڈاکیا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا تب اُسے دیکھ کر دل کی حالت عجیب ہو جایا کرتی تھی۔ خط کو دیکھ کر ذہن کچھ الجھ تو جاتا تھا مگر کسی حد تک پُرامید بھی ہو جایا کرتا تھا۔ اب خط لکھنے اور بھیجنے کی روایت ہی نہیں رہی۔ ہمیں کبھی کبھی ایسے ''برقی خطوط‘‘ موصول ہوتے ہیں جن کے حوالے سے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے ع
کس قیامت کے یہ نامے مِرے نام آتے ہیں 
بھائی عامر عباسی ضلع رحیم یار خان میں سکونت پذیر ہیں۔ ای میل کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی اطلاع دیتے ہیں اور کبھی کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ فرمائش وہ کم ہی کرتے ہیں۔ دو دن قبل اُن کی ایک ای میل ملی جس میں اُنہوں نے ایک ایسی فرمائش کا اظہار کیا کہ ہم تو مشکل میں پڑگئے۔ عامر عباسی نے لکھا ہے ''کچھ دنوں سے مصروف تھا یعنی 'ویلا مصروف‘ تھا یعنی مصروفیت بھی تھی اور کام بھی کچھ نہیں تھا‘‘۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ یہاں تو ایک زمانے سے یہی چلن ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جس طور کی زندگی ہم بسر کر رہے ہیں اُس کے بارے میں قدرے وثوق سے کہا جاسکتا ہے ؎ 
اس کاروبارِ شوق کا انجام کچھ نہیں 
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں 
بہت سوں کا یہ حال ہے کہ زندگی بھر یہی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کچھ نہ کرنا پڑے۔ کچھ نہ کرنے پر جتنی محنت یہ کرتے ہیں اُتنی محنت اگر یہ کچھ کرنے پر کریں تو من کی مراد پا جائیں! خیر‘ بات ہو رہی تھی عامر عباسی کی بھیجی ای میل کی۔ عامر عباسی مزید لکھتے ہیں ''مجھے لکھنے کا شوق ہے اور اکثر لکھتا بھی رہتا ہوں۔ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اچھا لکھاری بننے کے لیے کن کن مہارتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ تھوڑی بہت انگلش جانتا ہوں ۔ زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ آپ نے ڈائری لکھنے کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا۔ اسے پڑھنے کے بعد میں نے ڈائری لکھنا شروع کیا۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ تھوڑی رہنمائی کیجیے تاکہ مجھے آسانی ہو‘‘۔ 
لیجیے صاحب۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں۔ ایک زمانے سے ہم لکھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ اس کوشش میں جو تھوڑا بہت لکھ لیتے ہیں اُسی کو خاصا بڑا تیر مارنے سے تعبیر کرکے خوش ہو لیتے ہیں۔ جب لوگ سراہنے کے معاملے میں بُخل کا مظاہرہ کریں تو اپنے آپ پر فِدا ہونا ہی پڑتا ہے تاکہ سند رہے! ع
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں 
جب سے لکھ کر اُسے دوسروں تک پہنچانا آسان ہوا ہے یعنی ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے فروغ پایا ہے تب سے حالت یہ ہے کہ ہماری طرح کوئی بھی لکھنے بیٹھ جاتا ہے اور کچھ نہ کچھ لکھ ہی لیتا ہے۔ سوال صرف لکھ مارنے کا نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو الٹا سیدھا لکھ لیا جاتا ہے اُسے دوسروں تک پہنچانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے! 
ایک زمانہ تھا کہ کالم نگاری کے لیے خدا جانے کیا کیا جتن کرنا پڑتے تھے۔ عمر کا ایک بڑا حصہ تو زبان و بیان کی باریکیاں سیکھنے میں کھپ جاتا تھا۔ اس مرحلے سے گزرنے پر حقائق سے فیض یاب ہونے کا مرحلہ آتا تھا یعنی بہت کچھ پڑھنا پڑتا تھا تاکہ جو کچھ بھی لکھیے وہ مستند ٹھہرے۔ عمر کا ایک اور بڑا حصہ مطالعے کی نذر ہو جاتا تھا۔ اور جب انسان باضابطہ لکھنا شروع کرتا تھا تب احساس ہوتا تھا کہ وقت تو بہت کم رہ گیا ہے! آج کل جو کچھ لکھا جارہا ہے اُسے پڑھنے والے محسوس کرتے ہیں کہ اُن کا وقت بہت کم رہ گیا ہے! 
عامر عباسی نے پوچھا ہے کہ لکھاری بننے کے لیے کون کون سی مہارتیں درکار ہیں۔ لیجیے‘ خود ہی راز افشا کردیا۔ جب بھی کوئی ہم سے پوچھتا ہے کہ لکھاری بننے کے لیے انسان کو کن کن معاملات میں مہارت یقینی بنانا پڑتی ہے تو ہم دم بخود ہوکر اُس کا منہ تکنے لگتے ہیں ع
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا 
کسی بھی لکھنے والے سے پوچھ دیکھیے کہ بھائی! تم کیوں اور کیونکر لکھتے ہو تو جواب میں سنّاٹے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لکھنے کا عمل اتنا عجیب ہے کہ لکھنے والا بتا ہی نہیں پاتا۔ بتائے بھی کیسے؟ جو لکھنے کا شعور رکھتے ہیں وہ لکھ نہیں پاتے! اور جو لکھ لکھ کر ایک زمانے کو اپنا دیوانہ بناچکے ہیں اُنہیں آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اُن کی تحریر میں ایسا کیا ہے کہ اُس پر فِدا ہوا جائے! بیشتر لکھنے والوں پر ''اللہ مہربان تو گدھا پہلوان‘‘ والی کہاوت صادق آتی ہے! 
ہم ایک زمانے سے لکھتے آئے ہیں۔ کیوں کی بات تو خیر جانے ہی دیجیے۔ ہاں‘ اب تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ ہم کیونکر لکھ لیتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی بُھولا بھٹکا سراہتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر ایک فلمی گیت کا مکھڑا یاد آئے بغیر نہیں رہتا ؎ 
ہم میں کیا ہے جو ہمیں کوئی حسینہ چاہے 
صرف جذبات ہیں‘ جذبات میں کیا رکھا ہے! 
عامر عباسی کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ دنیا میں بعض ہنر ایسے بھی ہیں جن کا حُسن سیکھنے سے گہنا جاتا ہے! ہر شعبے میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سیکھنے کے مرحلے کو skip کرکے نام کماتے ہیں۔ شاہد آفریدی کو بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے! اُنہیں کچھ سکھانے کی کوشش کرنے والے ہر کوچ کو بعد میں اندازہ ہوا کہ اُن کی ہر کوشش گنّے کے پُھوس جیسی ہے! شاہد آفریدی نے کرکٹ کے مروّج طریقے یا تکنیک سیکھنے سے ہمیشہ گریز کیا اور کامیاب رہے۔ مگر خیر‘ یہ استثنائی معاملہ ہے۔ وہ قومی کرکٹ ٹیم کے لیے قدرت کا عطیہ تھے۔ جس نے بھی اُن کی نقّالی کی وہ بے موت مارا گیا۔ سیکھنے سے گریز کے باوجود بہت کچھ کر گزرنے کا کمال صرف شاہد آفریدی کو عطا کیا گیا! معاملہ کھیل سے کہیں بڑھ کر جی داری کا تھا۔ شاہد آفریدی ہمیشہ یہی سوچ کر میدان میں اترتے تھے کہ ؎ 
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ 
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا 
لکھنے کے میدان میں آ نکلیے تو یہاں قدم قدم پر شاہد آفریدی ملیں گے! حق تو یہ ہے کہ اب یہ ایسا شعبہ ہے جس میں سیکھنے سے بہت کچھ اَن سیکھا ہو جاتا ہے! عامر عباسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ لکھاری بننے کے لیے اب صرف ایک مہارت کافی ہے ... سوچے سمجھے بغیر شروع ہو جانا۔ قلم کو ٹرین سمجھ کر دوڑاتے جائیے۔ جہاں یہ سانس لینے کے لیے رکے وہی سٹیشن یعنی تحریر تیار۔ ہم نے تو اپنے 36 سالہ کیریئر میں یہی تماشا دیکھا ہے۔ اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی اور اطہر علی ہاشمی مرحوم نے ہمیں بہت کچھ سکھانا چاہا۔ ہم اپنی نالائقی کے قربان جائیں کہ اُن سے کچھ زیادہ نہ سیکھ سکے۔ سیکھ لیتے تو آج الجھن کے جال میں پھنسے تڑپ رہے ہوتے۔ لکھنے کے شعبے میں سیکھے ہوئے اب چلتے ہی کہاں ہیں! 
عامر عباسی نے کم پڑھے لکھے ہونے کا ذکر خاصے شرمسار انداز سے کیا ہے۔ ارے بھئی‘ یہ تو مقامِ ِشکر ہے! ہم نے ڈائری لکھنے کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا جس کا عامر عباسی نے ذکر کیا ہے۔ بہت سوں کا نام ڈائری لکھنے کی بنیاد پر زندہ رہ گیا ہے۔ اِن میں گاندھی جی کے سیکرٹری مہادیو بھائی ہری بھائی ڈیسائی بھی شامل ہیں جن کی لکھی ہوئی ڈائری کو گجراتی زبان کے ادب میں شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔ 
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ڈائری بھی اُس وقت جاندار ثابت ہوتی ہے جب شب و روز ڈھنگ کے ہوں۔ ہاں‘ کم پڑھا ہونا عامر عباسی کے حق میں جاتا ہے۔ فی زمانہ وہی لکھاری کامیاب ہیں جو تعلّم سے دور رہے ہوں۔ ایسے تمام لکھاریوں کی تحریروں میں عام آدمی کو اپنی بے بضاعتی کا عکس دکھائی دیتا ہے اور وہ پڑھ کر راحت محسوس کرتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved