سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں۔ حیرت زدہ سا بیٹھا ہوں۔ کوئی منطقی وجہ تلاش کر رہا ہوں جو مل نہیں رہی۔ کوئی مفروضہ قائم کرتا ہوں، دلیلیں ڈھونڈتا ہوں جو فراہم نہیں ہوتیں۔ کوئی اچھوتی سی وجہ تلاش کر رہا ہوں اور وہ ہاتھ نہیں آتی۔ اسباب اور علل و معلول کی اس دنیا میں ثواب ہو یا عذاب‘ اللہ نے یہ سب اسباب کے تحت رکھے ہیں تو پھر اس کا سبب کیا ہے۔ اور وہ ابھی ٹھیک سے سمجھ کیوں نہیں آ رہا؟
جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ اسد عمر صاحب کا بیان میرے سامنے ہے۔ جس میں انہوں نے سیاحتی مراکز‘ اپنی جگہوں پر کھلانے والی طعام گاہیں 10 اگست 2020ء سے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کیا ہے‘ خوش خبری ہے۔
کیسی طویل رات تھی تیرے بغیر روشنی!
صبح بخیر روشنی! صبح بخیر روشنی!
تو بس لوگوں کو کچھ ایسا ہی محسوس ہوا ہے۔ فروری سے کووڈ19 کا سایہ ملک پر پھیلنا شروع ہوا تھا۔ 26 فروری 2020ء کو کووڈ19کا پہلا مریض رپورٹ ہوا۔ مارچ میں نظر بندی اور سراسیمگی شامل ہوئی۔ اپریل، مئی جون میں سراسیمگی خوف میں بدلی اور خوف دہشت میں۔ پھر یہ خوف مسلسل ایک غلاف کی طرح پوری قوم کو ڈھانپے رہا۔ کتنے پیارے اس کی نذر ہوگئے اور کتنے کام ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ ملکی اور انفرادی معیشت کا حال پہلے ہی خراب تھا‘ اب لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ اس خوف نے بھی لوگوں کو ادھ مواکرکے رکھ دیا۔ اور پھر وہ بے یقینی جس میں یہ اندازہ بھی لگانا ممکن نہیں تھا کہ یہ صورتِ حال کب تک رہے گی۔ تیس چالیس دن پہلے تک ایک بڑی ہولناک لہر آنے کی باتیں کی جارہی تھیں جس میں بیس لاکھ سے بھی زائد پاکستانیوں کے وائرس میں مبتلا ہونے کا امکان بتایا جارہا تھا۔
تو اب آپ میری حیرت سمجھ سکتے ہیں۔ اب اگست کا پہلا عشرہ ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچے ہوئے نئے مریضوں اور سینکڑوں کی تعداد تک نئی اموات کے لرزہ خیز اعداد و شمار کو اچانک کسی نے جیسے بریک لگا دی ہے۔ عید قرباں بخیر و عافیت گزر چکی ہے۔ مویشی منڈیوں سے وائرس پھیلنے کا خطرہ ماضی کی بات ہوچکی ہے۔ بازار اور کاروبار کھل چکے ہیں اور سیاحت اور طعام گاہیں کھولنے کا اعلان ہوچکا ہے۔ آج کرونا کے 634نئے مریضوں اور وائرس کی بدولت8نئی اموات کے اعداد و شمار ہیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق پاکستان بھر میں اب تک کل2لاکھ 84ہزار 121 افراد وائرس کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ 2لاکھ 60ہزار 248 مریض مکمل صحت یاب ہوگئے۔ صحت یابی کا یہ تناسب 98فیصد بنتا ہے۔ کل 6082 افراد موت نے چھین لیے جن کا تناسب2.14فیصد بتایا گیا ہے جبکہ اس وقت 17771 مریض موجود ہیں۔ بڑے ہسپتال اور محکمہ صحت اعلان کر رہے ہیں کہ ان کے وارڈز مریضوں سے خالی ہورہے ہیں۔ یہی وہ ہسپتال اور محکمے تھے جو محض تیس چالیس دن پہلے بتا رہے تھے کہ ان کے پاس مزید مریضوں کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ 14 جون 2020ء کو انہی جلتی بجھتی سکرینوں نے اس ایک دن میں 6825 نئے مریضوں کی خوفناک خبر دی تھی؟ کیا آپ بھول گئے کہ انہی آئینوں نے 16 جون کو 111 نئی اموات کا بتایا تھا جو کووڈ19 کے سبب ایک دن میں سب سے زیادہ اموات کی تعداد تھی۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ اگست میں سب سے زیادہ پھیلاؤ کی خوفناک لہر کی اطلاع دی جا رہی تھی۔ وہ اطلاع جس کے تصور سے آنکھیں بند ہو جاتی تھیں۔
تو حیرانی کیسے نہ ہو۔ اب اگست کا پہلا عشرہ ہے۔ اور زندگی ستر‘ اسّی فیصد معمول پر آ گئی ہے ۔ میں اس حیرت انگیز اور غیر متوقع تبدیلی پر بہت خوش مگر حیران بیٹھا ہوں۔ اور حیرانی میں اکیلا ہی نہیں ہوں۔ ماہرین، وزراء اور ڈاکٹرز سب شامل ہیں۔ ملک کا ایک انگریزی اخبار سرخی لگاتا ہے کہ
Unexplained decline in COVID-19 in Pakistan puzzles health experts and policy makers.
(کووڈ۔ 19 کی پاکستان میںکمی نے، جس کی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی، صحت کے ماہرین اور پالیسی سازوں کو الجھن میں ڈال دیا ہے)
وبائی امراض کے ماہرین اور ڈاکٹرز اپنے تمام علم اور تجربے کے ساتھ اس شش و پنج میں ہیں کہ جولائی سے یہ مسلسل کمی کس وجہ یا کن وجوہات کی بنا پر ہے۔ وزیر اور حکم ران الگ پریشان ہیں کہ اس کمی کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں لیکن بات بن نہیں پاتی۔ اس میں تو کوئی شک کی بات ہی نہیں ہے کہ مریض صحت یاب ہوئے ہیں ۔ نئے ٹسٹوں میں پازیٹیو آنے کی شرح کم ہوئی ہے۔ جون میں یہ شرح 23فیصد تھی جو اب 10فیصد تک رہ گئی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ماہرین جو کچھ قیاس آرائی کر رہے ہیں اس کے بعد آخر میں یہی بات کہی جا رہی ہے کہ یقینی وجوہات نہیں معلوم؛ تحقیقات جاری ہیں۔
اور یہ قیاسات کیا ہیں؟ پاکستانیوں میں ایک نان سپیسفک امیونٹی (Non-specific immunity) بن چکی ہے جس کی وجہ سے وہ دیگر خطوں کے برعکس زیادہ محفوظ ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ پاکستانی شروع ہی سے بی سی جی ٹیکوں سمیت کئی ویکسینز لگواتے ہیں۔ ممکن ہے مون سون کے موسم میں ہوا میں زیادہ نمی اس کی وجہ ہو کہ ہوا بھاری ہو جاتی ہے اور وائرس کے حامل رطوبت کے ننھے قطرے زیادہ دور سفر نہیں کر پاتے۔ یا پھر شدید گرمی کے دنوں میں وائرس کی منتقلی کم ہو جاتی ہو ۔ تیز دھوپ بھی کمی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں آبادی کی اوسط عمر 22سال ہے۔ اس نوجوان اوسط کی بنا پر امیونٹی بھی زیادہ ہے۔ یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ یہ دور عارضی ہے یا مستقل۔ اور کیا دوسری لہر آئے گی یا نہیں؟
کووڈ19- کے بارے میں وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر فیصل سلطان بھی کسی حتمی جواب سے قاصر ہیں۔ ان کے مطابق شاید یہ نان- سپیسفک امیونٹی بہت سے عوامل کے ملاپ کی وجہ سے بن گئی ہے۔ اس بارے میں ہم کوئی بھی یقینی بات نہیں کہہ سکتے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ (NIH) سے تعلق رکھنے والے نامور وائرولوجسٹ ڈاکٹر محمد سلمان کے الفاظ میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وائرس کس طرح کا برتاؤ کر رہا ہے اور کیا کرے گا۔ ممکن ہے یہ وائرس اپنے تباہ کن اثرات کھو رہا ہو۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب وائرس بہت پھیل جائے تو اس کی تباہ کن صلاحیت کم ہونے لگتی ہے لیکن بہرحال یہ سب باتیں تحقیق طلب ہیں۔
ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اگر یہ برسات‘ شدید گرمی کی وجہ سے ہے تو ہندوستان میں یہ دونوں ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہاں آج کل بھی اتنی تیزی سے وائرس کیوں پھیل رہا ہے؟ اگر بہت پھیل جانے سے اس کے اثرات کم ہو جاتے ہیں تو دنیا بھر میں ایسا کیوں نہیں ہے‘ خاص طور پر ان ممالک میں جو سب سے زیادہ اس کی زد میں آئے ہیں؟ بی سی جی اور ابتدائی عمر کے ٹیکے کیا پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں نہیں لگائے جاتے؟ وہاں یہ نان- سپیسفک امیونٹی کیوں نہیں بنی؟ اور اگر اوسط عمر نوجوان ہونا اس کا سبب ہے تو یہ سبب تو مئی جون میں بھی موجود تھا۔ اس وقت اس اوسط عمر نے کام کیوں نہیں کیا؟ اگر یہ دنیا کے اس خطے کی خصوصیت ہے تو پاکستان کے دائیں بائیں ہندوستان اور ایران میں اس کے مہلک ترین اثرات کیسے بڑھ رہے ہیں؟ انڈیا میں تو اس وقت یہ لہر عروج پر ہے۔ آج کی تاریخ میں ہندوستان میںکل مریض21لاکھ 99ہزار 101 ہیں کل اموات 44ہزار 48 ہیں۔ ایران میںکل مریض 3لاکھ 26ہزار 712 ہیں، کل اموات 18ہزار 427 ہیں۔ آبادی اور بہت سی دیگر مماثلتوں کے باعث پاکستان کا موازنہ برازیل سے کیا جاتا رہا ہے۔ برازیل میں مریض 30لاکھ 13ہزار 369 تھے جبکہ وہاں 1لاکھ 543 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ایک پہلو حکومتی اقدامات ہیں۔ اس وقت وزیر اور فیصلہ ساز افراد اس کمی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سمارٹ لاک ڈاؤن اور ٹیسٹوں کے طریقہ کار میں تبدیلی بھی اس کامیابی کی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ لیکن سوال پھر یہی ہے کہ کیسے؟ اس کی تشریح فی الوقت کسی کے لیے ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ آوازیں بھی نچلے سروں میں ہیں۔ بتلا کے اس پورے دور میں جو ہنوز ختم نہیں ہوا، حکومت کے فیصلے اور ان کے نتائج کیا رہے۔ ذرا دیکھتے ہیں۔ (جاری)