جس طرف بھی نظر دوڑائیے، غیر معمولی محنت و مشقت کا بازار گرم ہے۔ جو زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں وہ کسی نہ کسی طور باعزت زندگی بسر کرنے کی منزل تک پہنچنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور جو دوسروں سے بہت آگے ہیں وہ اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ قصہ مختصر، کسی کو کسی صورت قرار نہیں‘ ایک دوڑ سی لگی ہے۔ بیشتر معاملات میں یہ سب کچھ فطری ہے یعنی جی چاہے کہ نہ چاہے، اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانا ہی پڑتا ہے۔
بھری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ملے گا جو ناکامی کو پسند کرتا ہو اور اُسے آپشن کے طور پر اپنانے کی بات کرے۔ جو لوگ کچھ نہیں کرنا چاہتے وہ بھی کامیاب ہونے کی خواہش کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ بہت سوں نے تو کامیابی کی خواہش کے اظہار ہی کو کامیابی سمجھ لیا ہے! کامیابی کا خواہشمند ہونا محض پہلا قدم ہے‘ کامیابی تو بہت آگے کی منزل ہے۔ کسی بھی شعبے میں کچھ کر دکھانے کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ فی زمانہ کسی بھی انسان کے لیے غیر معمولی کامیابی واقعی غیر معمولی معاملہ ہے۔ پورے وجود کو عمل کی بھٹی میں جھونکنا پڑتا ہے۔ ع
رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
ہر دور کی طرح آج کا انسان بھی گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے، طرح طرح کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے اپنے وجود کو پوری طرح بروئے کار لانا ہی پڑتا ہے۔ اِس کے سِوا کوئی آپشن نہیں۔ زندگی بھی اپنی قیمت ہم سے وصول کرکے رہتی ہے اور کامیابی بھی۔ ہاتھ پیر ہلائے بغیر کچھ بھی نہیں ملتا۔
بہت کچھ ہے جو انسان کو بہتر زندگی یقینی بنانے کے حوالے سے کچھ کرنے سے روکتا ہے۔ ناکامی کا خوف بھی ایک ایسی ہی حقیقت ہے۔ بہت سے لوگ اس خیال سے غیر معمولی محنت سے گریز کرتے ہیں کہ ناکام ہوگئے تو ساری کی ساری محنت اکارت جائے گی۔ عمومی سطح پر کامیاب انسانوں کو دیکھ کر ان سے کچھ سیکھنے کے بجائے ناکام انسانوں کو دیکھ کر خوف کا سامان کیا جاتا ہے۔ انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر کچھ سیکھنے اور آگے بڑھنے کی تحریک پانے کے بجائے ناکام انسانوں کی طرف دیکھ کر اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں اُس کا بھی ایسا ہی انجام نہ ہو۔
کامیابی کے لیے ذہن سازی اور ارادوں کو مضبوط بنانا پڑتا ہے، صلاحیتوں کا گراف بلند کرنا پڑتا ہے اور سکت میں بھی اضافہ ناگزیر ہوتا ہے۔ اتنا کچھ ہونے پر ہی کچھ کرنے کا سوچا جاسکتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ کچھ خاص تیاری کیے بغیر بہت کچھ کرنے نکل پڑتے ہیں۔ تیاری کے بغیر تو انسان چار قدم بھی ڈھنگ سے نہیں چل سکتا۔ ایسے میں بھرپور اور فقید المثال نوعیت کی کامیابی کا خواب کیونکر شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ غیر معمولی کامیابی کے لیے پہلے تو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے۔ منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی عمل کی منزل آتی ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ آج کا انسان سوچنے کے موڈ میں ہے نہ منصوبہ سازی کے۔ بے سوچے سمجھے کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان لی جاتی ہے اور ایسا کرنے کے نتیجے میں جو کچھ ہوا کرتا ہے‘ وہی تو ہوا کرتا ہے۔ تیاری کے بغیر اٹھائے جانے والے قدم منزل کی طرف نہیں لے جاتے، محض بھٹکاکر چھوڑ دیتے ہیں۔
اب آئیے اِس نکتے کی طرف کہ انسان کو کس بات کا خوف زیادہ ستاتا ہے۔ ناکامی کا یا ...کامیابی کا؟ جی ہاں، کامیابی کا؟ اِتنا بھولا تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں جو کامیابی کی قیمت نہ جانتا ہو۔ جو زندگی بھر ناکام لوگوں میں اور ناکام رہا ہو اُس سے بڑھ کر کون جانے گا کہ کامیابی کی حقیقی قیمت کیا ہوا کرتی ہے؟ دنیا کا ہر انسان اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے کہ اگر کچھ پانا ہے تو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ کچھ کیے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر کبھی قسمت کی یاوری سے کچھ حاصل ہو بھی جائے تو اُسے حقیقی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی وہی کچھ ہے جو ہم اپنی صلاحیت اور محنت سے پاتے ہیں۔ کوئی کچھ عنایت کرے تو وہ محض نوازش کے ذیل میں رہتا ہے، کامیابی نہیں کہلاتا۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے کہ باپ سے ترکے میں ملی ہوئی دولت انسان میں وہ اعتماد اور مسرّت پیدا نہیں کرتی جو اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ اصول ہر دور اور ہر معاشرے پر اطلاق پذیر ہے۔ بات ہو رہی ہے اس نکتے کی کہ کون سی چیز انسان کو زیادہ ڈراتی ہے... ناکامی کا خوف یا کامیابی کا؟ جی ہاں! ناکامی کی طرح کامیابی کا خوف بھی ہوتا ہے۔ یہ خوف زیادہ سخت جان ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کچھ کرنے کا سوچتے ہیں تو پہلے ہی مرحلے میں ہمت اس لیے ہار جاتے ہیں کہ کامیابی کو برقرار رکھنا بہت بڑا دردِ سر ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جس طور ناکامی کو پچھاڑنا خاصا دشوار ہوتا ہے بالکل اُسی طرح کامیابی کو برقرار رکھنا بھی چھوٹا موٹا دردِ سر نہیں ہوتا۔ ناکامی کے گڑھے سے نکلنے میں عمر کا بڑا حصہ صرف ہوتا ہے تو دوسری طرف کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی بہت کچھ صرف کرنا پڑتا ہے، اپنے پورے وجود کو نمایاں حد تک کھپانا پڑتا ہے۔
کامیابی ہر انسان کی محض خواہش نہیں، بنیادی ضرورت ہے۔ کامیابی ہی کے نتیجے میں انسان ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کا گراف چاہے کسی بھی حد تک بلند ہوا ہو، بلند ہونا چاہیے۔ جینے کا حقیقی لطف اُسی وقت محسوس کیا جاسکتا ہے جب انسان کسی بھی شعبے میں اپنے آپ کو ایک خاص حد تک بلند کرے، دوسروں سے نمایاں رہے۔ کامیابی کا حصول اور اُسے برقرار رکھنے کی جدوجہد ہی میں زندگی کا اصل حُسن پوشیدہ ہے۔ بہت سوں کو کامیابی سے اس لیے ڈر لگتا ہے کہ وہ اُس کے برقرار رکھنے کی قیمت ادا کرنے کی نفسی تیاری کے معاملے میں بُودے ثابت ہوتے ہیں۔ فی زمانہ کسی بھی شعبے میں کامیابی پانے یعنی دوسروں سے نمایاں ہونے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ غیر معمولی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ خوب محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔ محنت کی بغیر بات نہیں بنتی۔ ہر شعبہ بہت حد تک پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ تھوڑا سا نام بنانے کے لیے بھی خاصا زور لگانا پڑتا ہے۔ خیر، محنت کا صلہ مل جائے تو آنسو بھی پونچھ دیے جاتے ہیں۔ کامیابی کا اپنا ایک لطف ہے جس کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگایا جاسکتا ہے۔
یہ سب کچھ ذہنی تیاری کا طالب ہے۔ ذہن کو تیار کرنے کی صورت میں جسم کو بھی تیار کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ بھرپور کامیابی کے لیے جسم کو اُسی وقت بروئے کار لایا جاسکتا ہے جب ذہن کو پوری تیاری کی حالت میں لایا جاچکا ہو۔ ذہنی تیاری کی منزل سے گزرے بغیر ہم کچھ زیادہ کر نہیں پاتے۔ جو لوگ کسی بھی شعبے میں آگے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ ناکامی کے خوف کو ایک طرف ہٹانے کے ساتھ ساتھ کامیابی برقرار رکھنے پر کی جانے والی محنت کے لیے بھی خود کو ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں۔ یہ تال میل ہی فقید المثال نوعیت کی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کی خواہش پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ محض خواہش کرلینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہر شعبہ ایک خاص درجے کی محنت کا طالب ہوتا ہے۔ اور محنت سے بھی بہت پہلے ذہنی تیاری لازم ہے۔ اِس کے بعد صلاحیت کو پروان چڑھانے اور مہارت یقینی بنانے کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ تمام معاملات مل کر بڑی کامیابی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ دنیا اُس موڑ پر کھڑی ہے جہاں کسی بھی شعبے میں بڑی تو بڑی، چھوٹی سی کامیابی بھی پورا وجود مانگتی ہے۔ کچھ کرنے کی خواہش رکھنے والے ہر انسان کے لیے صرف ایک آپشن رہ گیا ہے ... تذبذب اور خوف کو ایک طرف ہٹائے اور جو کچھ بھی کرنا ہے کر گزرے۔