پاکستان اپنی آزادی کے تہترسالہ تجربات کی روشنی میں خارجہ پالیسی کو ازسرِ نوتشکیل دینے کی خاطر عالمی دنیا سے روابط اور تعلقات کار بڑھانے کے لیے نئی سوچ اور کھلے ذہن کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے اور روایتی پالیسی سے ہٹ کر خارجہ پالیسی کو قدرے لبرل بنانے کا خواہشمند ہے تاکہ بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورتحال میں تمام اقوام سے تعلقات میں توازن لایا جاسکے۔ گزشتہ تہتر برسوں کے عرصے میں بے رحم تھپیڑے کھا کر ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ خارجہ تعلقات میں کوئی مستقل دوست ہے نہ مستقل دشمن ‘ہر ملک خارجہ تعلقات میں صرف اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور جب اس کے مفادات کو ذرہ برابر بھی زِک پہنچنے کا اندیشہ ہو وہ تعلقات کو ختم کرنے اور یوٹرن لینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا۔ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پاکستانی اس معاملے میں بہت ہی سادہ ہیں اور پوری امتِ مسلمہ کا درد اپنے جگر میں جمع کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی مسلم کو ایک کانٹا بھی چْبھے تو پاکستانی شہری اپنی استطاعت کے مطابق ردعمل کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ ہمارے سادہ لوح عوام کو ہمارے اربابِ اختیار و اقتدار ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے ہوئے نظر آتے ہیں ‘ہماری خارجہ پالیسی قومی سوچ اور مفادات کے برعکس حکمرانوں کی ذاتی سوچ اور فکر و فلسفہ اور برسر اقتدار خاندانوں کے مالی و کاروباری مفادات کی اسیر رہی ہے‘ جس کی وجہ سے ہمارے ہاں حکومت سازی کے عمل میں بیرونی مداخلت بہت زیادہ رہتی ہے۔ بڑی طاقتوں کے ساتھ ساتھ برادر اور دوست ممالک اپنی پسند کی حکومتیں اور حکمرانوں کو برسرِ اقتدار لانے اور ہٹانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارا دفتر خارجہ محاذ آرائی کا اکھاڑہ رہا ہے‘ ایک لبرل عسکری حکمران ہوگا تو وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق داخلہ اور خارجہ پالیسی مرتب کرے گا اور اگر دائیں بازو کی سوچ کے حامل آجائیں تو وہ نئے سرے سے پالیسیاں مرتب کرے گا ‘یہی حال ہمارے سیاسی خاندانوں کا ہے ۔بھٹو خاندان اقتدار میں آئے گاتو ہمارے برادر اور دوست ممالک کون ہوں گے اور اگر شریف خاندان برسر اقتدار آئے گا تو ہمارے برادر اور دوست ممالک بدل جاتے ہیں اور یہ خاندان ببانگِ دہل اپنی اسی سوچ کے ساتھ خارجہ تعلقات ترتیب دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ان سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں کی آزادی ایک حد تک تو برداشت کی جاتی ہے‘ لیکن جیسے ہی یہ سیاسی اور غیر سیاسی حکمران سرخ لائن کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ڈِیپ سٹیٹ حرکت میں آتی ہے اور ایسے حکمرانوں کو رِنگ سے باہر کردیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی جڑیں چونکہ عوام میں موجود ہوتی ہیں اور کوئی تیسرا آپشن بھی عوام کے پاس نہیں تھا‘ اس لیے بادل نخواستہ یہ حکمران اپنی باریاں لیتے نظرآتے ہیں۔تاہم جنرل پرویز مشرف کے بعداسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچ تقویت پکڑ چکی ہے کہ اب براہ راست اقتدار نہیں سنبھالا جائے گا بلکہ صرف اپنا اِن پُٹ دیا جائے گا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے جنرل راحیل شریف اور اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک یہی سوچ نمایاں ہے اور ملٹری اپنے فیصلے پر قائم ہے ‘ورنہ ایسے کچھ سنجیدہ مواقع آئے کہ جب باآسانی اقتدار سنبھالا جاسکتا تھا۔ایک اور فیصلہ بھی کیا گیا کہ برادر دوست ملکوں کے اختلافات میں کسی ایک ملک کا ساتھ نہیں دیا جائے گا اور خاص طور پر کسی قسم کی عسکری مدد نہیں کی جائے گی۔ ایک اور فیصلہ بھی کیا گیا کہ پراکسیز کو بھی بتدریج سمیٹ دیا جائے گا اور داخلی طور پر اپنے آپ کو مضبوط کیاجائے گا ۔یہ فیصلے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے زمانے میں کیے گئے اور اب تک ان پالیسیوں میں تسلسل برقرار ہے ۔باقی رہی سہی کسر ایف اے ٹی ایف نے پوری کردی ۔ میاں نواز شریف کے زمانے میں یمن کے معاملے میں پہلی بار پالیسی شفٹ دیکھنے کو ملا جب پاکستان نے اپنی افوج یمن بھیجنے سے انکار کردیا اور پارلیمنٹ میں یہ معاملہ زیربحث آیا ۔اسی طرح پاکستان نے جب گوادر پورٹ کو فعال کرنے کی کوشش کی تو تمام برادرملکوں نے اس تعمیر وترقی اور پاکستان کی لائف لائن کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایسے ایسے رخنے ڈالے کہ خدا کی پناہ‘ اور اس معاملے میں تمام باہم دست وگریبان برادر ملک ایک پیج پر نظر آئے ۔ بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے میں بھی برادر اور غیر برادر ہم نوالہ و ہم پیالہ نظر آئے اور ایسا وقت بھی آیا کہ پاکستان کو براہ راست ایسے ممالک کو تنبیہ کرنا پڑی ۔پھر دہشت گردی کے نیٹ ورک بھی پکڑے گئے اور دشمن ملک کے افسر دوست ملکوں کی سرزمین استعمال کرتے بھی پکڑے گئے۔ خداخدا کرکے چین کے ساتھ سی پیک کا میگا منصوبہ شروع ہوا‘ جو کسی کے خلاف نہیں ہے‘ لیکن اس کو بھی سبوتاژ کرنے میں دشمنوں نے خوب حصہ ڈالا اور پیش پیش انڈیا تھا‘ جو فرنٹ مین کا کام کررہا تھا۔ اسی دوران مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں شب خون مارا اور پانچ اگست کا بڑا گھناؤنا اقدام کر ڈالا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انڈیااور کشمیر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں‘ کشمیر ہماری شہ رگ ہے جو 70 سال سے لہو لہان ہے اور اب اس کو ہمارے تن سے مکمل طور پر جدا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔پاکستان کو توقع تھی کہ او آئی سی متحرک ہوگی اور برادر آگے آئیں گے ‘لیکن ایک سال گزرنے پر بھی کچھ نہ کیاگیا ۔اسرائیل کوپاکستان نے براہ راست دشمن اس لیے بنایا کہ وہ ہمارے برادر ملکوں کا دشمن ہے اور ان کی سالمیت کا دشمن ہے‘ ہمارے جوانوں نے برادر ملکوں کے لیے خون دیا اور ہماری فضائیہ کے پائلٹس نے اپنی شناخت ختم کرکے گمنام بن کر جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کم وبیش سب نے اسرائیل کے سا تھ سفارتی و غیر سفارتی تعلقات قائم کر لیے اور کبھی پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
پاکستان اس وقت تمام برادر ممالک کے ساتھ برابری اور دوطرفہ احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے میں کوشاں ہے اور ستر برسوں میں اتنے تجربے کرچکا ہے اور اتنے گھاؤ کھا چکا ہے کہ اب وہ کسی ایک پلڑے میں رہ کر اور یک طرفہ مفاد میں پسنا نہیں چاہتا‘ بلکہ تمام برادر ملکوں کو بھی باہمی تنازعات ختم کرنے اور صلح کرنے کا پیغام دے رہا ہے‘ لیکن وطنِ عزیز سے ایسے مطالبات کیے جارہے ہیں کہ وہ اب ان کا وزن اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ رنجشیں ‘دکھ درد اور کرب بڑھ چکا ہے اور پاکستان کے تمام بلا معاوضہ کیے گئے احسانات بھلا کر اس سے حساب مانگا جاتا ہے‘ بلکہ اس کی نیت پرشک کیاجاتا ہے۔ اسے تحکمانہ لہجے میں ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ اس سے اِدھر یا اْدھر کا مطالبہ کیاجاتا ہے‘ لیکن پاکستان اب بڑا اور سمجھدار ہوچکا ہے۔ وہ بھی اپنے ازلی دشمنوں اور اپنی لہولہان شہ رگ بچانے کی ایک سال سے منت سماجت کررہا ہے‘ مسئلہ عوامی سطح کا نہیں ہے عوام ایک امت بن کر جُڑے ہوئے ہیں‘ معاملہ اشرافیہ کے درمیان بگڑا ہواہے جو اپنی ناک سے آگے دیکھنا نہیں چاہتے یا پھر ان کی بہت ہی بڑی مجبوریاں ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو معاملات سنجیدہ اور حساس ہیں‘ غلط فہمیاں دور کرنے اور زمینی حقائق کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے مفادات کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے زور دیا جارہا ہے‘ باہمی احترام کا احساس دلایا جارہا ہے‘ ہر ملک کو اپنی سلامتی عزیز ہے اور پاکستان کو تو سب سے زیادہ‘ کیونکہ پاکستان تو دولخت بھی ہوچکا ہے اور مزید سازشیں در پیش ہیں‘ اس لیے پاکستان اب مزید رسک لینے اور اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بیس برسوں میں پاکستانی قوم نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں‘ اب سکھ کا سانس لینے کا وقت آیا ہے تو اسے پھر پراکسیز کے کھیل میں دھکیلنے کی کوشش کے جارہی ہے‘ جس کے لیے وہ تیار نہیں ۔ نئی سوچ‘ مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا اس کا حق ہے۔