تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     11-08-2020

شاہ محمود قریشی کا برادرانہ شکوہ

1998ء میں جب بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کیے تو ساری اسلامی دنیا میں بالعموم اور سعودی عرب جیسے برادر ملک میں بالخصوص خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر امریکہ اور دیگر کئی مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان پر شدید نوعیت کی مالی و اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں جو پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹنے کے مترادف تھیں۔ اس مشکل مرحلے پر سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور مالی مدد بھی کی اور فراخدلی کے ساتھ مؤخر ادائیگیوں کی سہولت کے ساتھ تیل کی فراہمی بھی جاری رکھی۔ انہی دنوں ایک اخباری نمائندے نے پریس کانفرنس میں ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز سے پوچھا کہ آپ نے پاکستان کی کیا مدد کی؟ پرنس عبداللہ نے سوال سنتے ہی جواب دیا: ''وہی مدد کہ جو ایک بھائی دوسرے بھائی کی کرتا ہے۔ البتہ ہمیں تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ 
بدھ کے روز پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو کچھ کہا میرے نزدیک یہ وہی شکوہ ہے جو ایک بھائی دوسرے بھائی سے کرتا ہے۔ شاہ محمود قریشی قادرالکلام شخصیت ہیں۔ ایک بار میں نے براہِ راست اُن سے اسلام آباد میں پوچھا تھا کہ وہ سرائیکی ہوتے ہوئے اتنی شستہ اور شائستہ اردو کیسے بولتے ہیں تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا اس لیے کہ اُن کی والدہ صاحبہ صاف ستھری اور نہایت نکھری ہوئی اردو بولتی ہیں۔ اُن کی انگریزی بھی اچھی ہے۔ تاہم برادرانہ جذبات کی شدت کا اظہار کرتے ہوئے بھی شاہ صاحب کے منصب کا تقاضا تھا کہ وہ سفارتی لطافتوں اور نزاکتوں کو مدنظر رکھتے اور الفاظ کے انتخاب میں زیادہ احتیاط سے کام لیتے۔حسابِ دوستاں تو در دل ہوتا ہے مگر بھائیوں کے درمیان تو کوئی حساب کتاب ہوتا ہی نہیں۔ 1980ء کے اوائل سے لے کر اکیسویں صدی کے آغاز کے چند سالوں تک میرا سعودی عرب میں قیام رہا۔ اس دوران عرب کا حسنِ طبیعت دیکھنے کے بہت مواقع ملے۔ سعودی عوام اور حکام دونوں اہلِ پاکستان کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ ہمارے سعودی بھائیوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر ہو یا مزدور‘ پروفیسر ہو یا انجینئر غرضیکہ جس حیثیت سے بھی وہ سعودی عرب میں کام کر رہا ہو‘ دل و جان سے کام کرتا ہے اور دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین معیار کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد تو سعودی عرب اور عرب امارات میں اہلِ پاکستان کی قدرو منزلت بہت بڑھ گئی تھی۔1954ء میں شاہ سعود بن عبدالعزیز پہلے سعودی فرمانروا تھے جنہوں نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ اس موقعے پر شاہ سعود کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے کراچی کے عوام سڑکوں پر اُمڈ آئے تھے۔ وہ جہاں جہاں گئے اُن کا والہانہ استقبال ہوا۔ اُن کے بعد کنگ فیصل بن عبدالعزیز‘ خالد بن عبدالعزیز‘ کنگ عبداللہ بن عبدالعزیز اور 2019ء میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آئے تو ہر کسی کا تاریخی استقبال ہوا اور کسی کوشش اور مہم کے بغیر ہوا۔ 
1950ء اور 1960ء کی دہائی میں مصر کے فوجی حکمران جمال عبدالناصر عرب قومیت کے علمبردار بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے عرب دنیا کے بچے بچے کو نحن العرب کا سبق یاد کرا دیا۔ مگر جب 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے قائد مصر کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تو عرب نیشنل ازم کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اس موقعے پر عرب دنیا کے سب سے مدبر حکمران شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے مسجد اقصیٰ جلانے اور فلسطین کی مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے اسرائیل کی سازشوں کا قلع قمع کرنے اور عرب و عجم کے مسلمانوں کا دکھ درد بانٹنے کے لیے 1969ء میں اسلامی کانفرنس تنظیم قائم کی جس کا پہلا اجلاس مراکش کے شہر رباط میں ہوا۔یہ تنظیمO.I.C کے نام سے مشہور ہے اور اس کا مطلب ہے اسلامی تنظیم برائے تعاون۔
اب اگر مسلمانوں پر خنجر چل رہے ہوں اور او آئی سی خاموش ہو‘ اگر 80 لاکھ کشمیریوں کو ایک سال سے محصور کر دیا گیا ہو اور او آئی سی خاموش ہو‘ اگر ہزاروں کشمیریوں کو لاپتہ کر دیا گیا ہو اور او آئی سی خاموش ہو‘ اگر کشمیری نوجوانوں کو ہر روز قتل کیا جا رہا ہو اور او آئی سی خاموش ہو‘ اگر او آئی سی کے منشور میں لکھا ہو کہ دنیا کے سارے کلمہ گو مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اسی جسم کے بھارت میں ٹھڈوں اور ٹھوکروں سے چیتھڑے اُڑائے جا رہے ہوں اور او آئی سی خاموش ہو‘ بھارتی یونیورسٹیوں‘ مسجدوں اور محلوں میں آر ایس ایس کے غنڈے گھس کر مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتار رہے ہوں اور او آئی سی خاموش ہو‘ کورونا کے مسلمان مریضوں پر بھارتی ہسپتالوں کے دروازے بند کر دیئے جائیں اور او آئی سی خاموش ہو اور پھر سب سے بڑھ کر بابری مسجد کے انہدام کے بعد رام مندر کا سنگِ بنیاد خود بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی رکھ رہا ہو اور او آئی سی خاموش ہو تو کشمیری مسلمانوں اور پاکستانی قوم کے جذبات کا پاش پاش ہونا عین فطری ہے۔
کشمیری تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کے علاوہ کسی سے کوئی امید نہیں۔ کوئی ہماری امداد کو آتا ہے تو آئے‘ نہیں آتا تو نہ آئے‘ ہمیں پروا نہیں۔ البتہ پاکستانی حکام اور پاکستانی قوم بھائیوں کے ساتھ شکوہ کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ کبھی اُن کا شکوہ دل ہی دل میں رہ جاتا ہے اور کبھی نوکِ زباں پر آ جاتا ہے
خوگر ِحمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
1980ء کی دہائی میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کا سعودی مشائخ‘ سعودی حکمران اور سعودی عوام بے حد احترام کرتے تھے۔ سعودی حکمران ایران عراق جنگ میں جنرل صاحب کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتے تھے مگر جنرل صاحب اپنا الگ نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ سعودی حکمران بھائیوں کے دل میں قدرے رنجش اور جنرل صاحب کے دل میں شکوہ تھا۔ یہ دوطرفہ کیفیت تھوڑی مدت تک جاری رہی۔ پھر اُس وقت کے خادم الحرمین الشریفین نے جنرل صاحب کو سرکاری دورے پر بلا کر اور اُن کا بھرپور والہانہ استقبال کر کے سارا خاموش گلہ شکوہ دور کر دیا۔ تاہم مخدوم بہاء الدین زکریا ملتانی کے سجادہ نشین اپنے سینے میں شکوے کو تھام نہ سکے اور نوکِ زباں پر لے آئے۔
اب ہمیں چند اہم معاملات پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بنفسِ نفیس فرمایا کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے کہیں گے کہ اگر او آئی سی کشمیر پر وزرائے خارجہ کا اجلاس نہیں بلاتی تو پھر خود وزیر اعظم سعودی عرب کی شمولیت یا بغیر شمولیت کے اجلاس بلائیں۔ قریشی صاحب کی شدتِ جذبات کا یہ اظہار اُن کی سفارتی ناکامی کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ایک پیج پر موجود سارے ادارے اپنے سعودی بھائیوں کو کشمیری اور بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی علی الاعلان مذمت کے لیے آمادہ کر سکے اور نہ انہیں بھارت پر پس پردہ دبائو ڈالنے پر قائل کر سکے۔ اس سے پہلے وزیراعظم پاکستان ملائیشیا کی اسلامی کانفرنس کے موقع پر عین آخری مرحلے میں انکار کر کے اپنے اور پاکستان کے لیے سبکی کا اہتمام کر چکے ہیں۔ سفارت کاری اور ڈپلومیسی شیشہ گری جیسا نازک کام ہے۔اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے‘ پاکستان بڑی عسکری قوت ہے اور پاکستان ایک عددی قوت ہے پھر بھی ہماری بات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو چھوٹے چھوٹے ممالک کو دی جاتی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم ''جرمِ ضعیفی‘‘ کا شکار ہیں۔ موجودہ زمانے میں جرم ضعیفی سے مراد کمزور معیشت ہے۔ آج وہی ملک خودمختار ہے جو معاشی طور پر خودکفیل ہے۔ جو ملک کاسۂ گدائی لے کر در‘در پھرتا ہو وہ خودمختار نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اب اس خودمختاری کی طرف سب سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved