احمد حاطب صدیقی کو‘ یاد ہے سب ذرا ذرا...اخبار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ‘ جو ''ذاتی زندگی‘‘ میں خاصے نرم مزاج تھے لیکن دفتر میں ہمیشہ سنجیدہ (اور کبھی کبھار غصے کی کیفیت میں بھی) نظر آنا شاید دفتری نظم وضبط اور فرائض ِمنصبی کا تقاضا سمجھتے تھے۔ ایک دن انہیں ایک نوجوان سب ایڈیٹر کی چھٹی کی درخواست موصول ہوئی : ''3مئی1979 کو فدوی کی خالہ محترمہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی ہے‘ جس کے لیے عارض کو ایک ماہ کی رخصتِ استحقاقی مرحمت فرمائی جاوے‘‘۔ ایگزیکٹو ایڈیٹر نے درخواست گزار کو فی الفور دفتر طلب کیا اور مخصوص انداز میں باز پرس فرمائی''کیوں میاں صاحبزادے! اپنی خالہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی میں ایک مہینے تک آپ کیا کردار ادا فرمائیں گے‘‘؟ میاں صاحبزادے نے شرماکر‘ بڑی سعادت مندی اور متانت سے عرض کیا''دلہاکا‘‘۔ یہ صاحبزادے اطہر علی ہاشمی تھے۔ ان کی اس حددرجہ سنجیدگی اور متانت پر ایگزیکٹو ایڈیٹر بھی مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے۔ اسی روز اخبار کے نوٹس بورڈ پر یہ ''اطلاع ‘‘ بھی آویزاں تھی کہ آج اتنے بج کر اتنے منٹ پر جناب ایگزیکٹو ایڈیٹر مسکراتے ہوئے دیکھے گئے ہیں‘‘۔
اخبار کے ایڈیٹر صلاح الدین شہید ‘اپنے جونیئرز کی صلاحیتوں کو جانچ لینے‘ انہیں نکھارنے ‘ سنوارنے اور ان کے مطابق انہیں آگے بڑھانے کو اپنے ''ایڈیٹر انہ‘‘ فرائض کا حصہ سمجھتے تھے۔ نوجوان سب ایڈیٹر نیوز ڈیسک پر بھی ٹھیک جارہا تھا۔ صلاح الدین صاحب کو اس کے ذوقِ مزاح کا اندازہ ہوا‘تو اسے مزاحیہ / فکاہیہ کالم لکھنے کے لیے کہا۔ یہی معاملہ طاہر مسعود کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت نوجوان طاہر مسعود کراچی میں تھا اور پھر یہیں کا ہورہا۔ اس کا اپنا ذوق بھی تھا‘ اورکچھ گھریلو ماحول کا اثر بھی ‘ اس نے بھی اخبا ر نویسی کو روزگار بنایا...طاہر اور اطہر ہم عمر بھی تھے اور ہم ذوق بھی۔صلاح الدین ‘ طاہر کو بھی کالم نویسی کی طرف لے آئے۔ ان کے کالم کا نام ''دامِ خیال ‘‘ اور اطہر کے کالم کا نام ''بین السطور‘‘ صلاح الدین صاحب ہی نے تجویز کیا تھا۔ طاہر مسعود بعد میں جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغیات میں کل وقتی استاد ہوگئے اور ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ اب وہ ڈاکٹر طاہر مسعود ہیں۔
اطہر ہاشمی نائٹ شفٹ کے انچارج اور میگزین ایڈیٹر سمیت مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے‘ لیکن علمی وادبی اور سیاسی وصحافتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک مزاح نویس اور فکاہیہ نگار کی تھی۔ وہ سنجیدہ سیاسی مسائل کو بھی اس طرح موضوع بناتے کہ قاری مسکرائے بغیر نہ رہتا ۔وہ طنز بھی کرتے تو اس شائستگی کے ساتھ کہ ''زیرِ طنز ‘‘ شخص بھی لطف اٹھاتا۔ قلم سے دلوں کو زخمی کرنے کا کام تو انہیں آتا ہی نہ تھا۔
انگریزی اور عربیِ کے درجن بھر سے زائد جرائد نکالنے والے‘سعودی عرب کے ایک بڑے پبلشنگ ہائوس نے 1994میں جدہ‘ دمام اور ریاض سے اردو اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو اس کے سٹاف میں زیادہ تر لوگ پاکستان سے منتخب کیے گئے۔''سینئرز‘‘ میں اطہر ہاشمی اور نوجوانوں میں ہمارے ''حسبِ حال ‘‘ والے جنید سلیم بھی تھے۔ اطہر ہاشمی2000میں واپس آگئے۔ بیس سال گزر گئے۔بے پناہ مصروفیات کے اس دور میں‘ بیس سال بعد بھی جدہ والوں کو اطہر ہاشمی اسی طرح یاد تھے‘ جیسے یہ کل کی بات ہو۔ جدہ میں پاکستانی صحافیوں کی تنظیم ''پاکستان جرنلسٹس فورم‘‘ نے گزشتہ شب آن لائن تعزیتی اجلاس میں اطہر کویاد کیا‘ اور خوب یاد کیا کہ ان کے حسنِ اخلاق کے نقوش‘بیس سال گزر جانے کے بعد بھی تروتازہ تھے۔پاکستان جرنلسٹس فورم نے ہر سال پاکستان میں اردو کے بہترین صحافی کے لیے اطہر ہاشمی ایکسیلنس ایوارڈ کے اجرا کا اعلان کیا۔ ابتدا میں یہ ایک لاکھ روپے کا ہوگا‘ بعد میں رقم کے علاوہ کیٹیگریز میں اضافے پر بھی غور کیا جاسکتاہے۔
اطہر ہاشمی کچھ عرصہ قبل باریش ہوگئے۔ سرکے گھنے سفیدبالوں کے ساتھ‘ سفید مونچھیں اور خاص سٹائل میں ترشی ہوئی سفید داڑھی نے ان کے بڑھاپے کو زیادہ وجیہ اور شکیل بنادیا تھا۔ نماز روزے کے وہ لڑکپن سے ہی پابند تھے۔ اندر سے وہ اس وقت بھی ''صوفی ‘‘ تھے‘ جب جینز کی پینٹ اور شرٹ پہنا کرتے اور کبھی گریبان کا اوپر والا بٹن کھلا بھی چھوڑ دیتے ۔ شادی ابھی نئی نئی تھی۔ ایسے میں اخراجات بھی کچھ زیادہ ہی ہوجاتے ہیں: تب تنخواہ بینک اکائونٹ میں نہیں جاتی تھی‘ مہینے کی پہلی دوسری تاریخ کو نقد تھما دی جاتی۔ دفتر کے ایک بزرگ ساتھی نے اپنی ضرورت کا اظہار کچھ یوں کیا(غالباً بیٹی کی شادی کے لیے اخراجات کا معاملہ تھا) کہ اطہر نے میز کی دراز سے تنخواہ کا لفافہ نکالا اور اس کی نذر کردیا اور گھر آکر بیگم صاحبہ سے کہہ دیا‘ اس مہینے میری تنخواہ کے بغیر‘ گھر چلانا ہوگا۔
کہتے ہیں‘ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور بعض جوڑوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ انہیں فرصت میں‘ خاصے اہتمام کے ساتھ بنایا گیا ہوگا۔ اطہر اور نیلو فر بھی ایسا ہی جوڑا تھے۔ ہماری نیلو فر بھابی بھی اطہر والا مزاج ہی رکھتی تھیں ‘ کچھ کمی بیشی تھی تو اطہر کی صحبت اور رفاقت نے پوری کردی ۔ڈاکٹر نیلوفر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی سے فزیالوجی کی پروفیسر کے طورپر ریٹائر ہوئیں۔ ان دنوں لیاری میں شہید بے نظیر بھٹو ٹیچنگ ہسپتال میں اپنے شعبے کی سربراہ ہیں۔ ڈائو میں اور یہاں بھی‘ مرد اور خواتین رفقا میں بعض ان کے سابق شاگرد ہیں۔ معاشی خود انحصاری نے ملازمت پیشہ خاتون میں ایک خاص قسم کی خود اعتمادی پیدا کردی ہے‘ جس سے بعض گھرانوں میں ‘ میاں بیوی کے درمیان مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔جدہ سے واپس آ کر‘ وہ اسی اخبار کے ایڈیٹر انچیف ہو گئے جس میں انہوں نے سب ایڈیٹر کے طور پر کیرئیر کا آغاز کیا تھا ۔ وہ اپنے اخبار کے سنڈے میگزین میں ''آدھی بات‘‘ لکھتے۔ اپنے ادارے کے ہفت روزہ ''فرائڈے سپیشل‘‘ میں ''خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے زبان و بیان کی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔ اس میں انہیں خود اپنے ادارے کے اخبار اور رسالے میں زبان کی غلطیوں کی نشاندہی میں بھی عار نہ ہوتی۔ اصلاح کا یہ خشک کام وہ بڑے دلچسپ انداز میں کرتے۔ مثلاً: ''ہم پورا زور لگا چکے ‘یہ سمجھانے میں کہ ''عوام‘‘ جمع مذکر ہیں‘ واحد مؤنث نہیں لیکن بقول احمد فراز‘ شہر کا شہر ہی دشمن ہو تو کیا کی جے؟ ٹی وی چینلز کے بقراط اور مضمون نگار عوام کومؤ نث بنانے پر تلے ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ ہمارے اپنے گھر کے چراغ سنڈے میگزین کے کالم نگار بھی باز نہیں آتے۔ لکھتے ہیں: عوام سحر میں مبتلا ہو چکی تھی اور سوشل میڈیا پر اصرار کر رہی تھی۔ہماری مرضی ہم عوام کو مذکر کریں یا مؤ نث‘ ہم تو ''علاوہ‘‘ اور ''سوا‘‘ میں تفریق نہیں کر پاتے‘ ایک بڑے استاد کا شعر ہے ؎
در کتنے ہی کھلتے رہے اک در کے علاوہ
اک درد بھری سن کے صدا تیری گلی میں
معذرت کے ساتھ یہاں ''علاوہ‘‘ کے بجائے ''سوا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ''علاوہ‘‘ کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ در بھی کھل گیا‘ جس کے کھلنے کی آس تھی۔
ایک صاف ستھری اور مطمئن زندگی نے اطہر کو کسی بھی طبی عارضے سے محفوظ رکھا(سگریٹ نوشی میں البتہ مبتلا رہے)۔البتہ ڈیڑھ دو سال سے دل کی دھڑکن بے ترتیب سی رہنے لگی۔ سگریٹ نوشی سے زیادہ اس کا سبب عمر بھر کی ساتھی کو درپیش کینسر کے عارضے کا دکھ تھا۔ عید کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو سوموار کو دفتر میں پوری ''ڈیوٹی‘‘ دی۔ منگل ‘بدھ کو طبیعت مضمحل رہی۔ جمعرات کو فجر سے کچھ پہلے‘ سوتے میں ہی آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ یہ آسمانوں پر تاروں کے ڈوبنے کا وقت تھا ۔ اِدھر آسمانِ صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ بھی غروب ہو گیا۔