ترکی کا شہر استنبول ترکی زبان میں اسلامبول ہے، یعنی اسلام آباد۔ اس شہر کی عظیم تاریخ ہے۔ بازنطینی سلطنت میں اسے بڑے بڑے بادشاہوں نے بنایا اور سنوارا۔ آیا صوفیہ ایک عیسائی گرجا گھر بھی تھا اور رومی و بازنطینی سلطنت کا سیاسی و عسکری مرکز بھی۔ اسی گرجا گھر کے مرکز میں ہر نئے بادشاہ کی رسمِ تاج پوشی منعقد ہوتی تھی۔ یہیں سے فوجیں مختلف علاقوں کی طرف تاخت و تاراج کے لیے بھیجی جاتی تھیں۔ نبی اکرمﷺ اس شہر کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت کی جو فوج قسطنطنیہ کو فتح کرے گی اس کا سپہ سالار اور ہر سپاہی جنتی ہو گا۔ اسی بشارت کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی تک دس سے زیادہ مرتبہ قسطنطنیہ پر حملے ہوئے، مگر فتح کا یہ اعزاز اللہ نے ترک خلیفہ سلطان محمد کو بخشا۔ ترکی کی تاریخ میں سلطان محمد فاتح کم عمر ترین خلیفہ تھا۔ وہ 1432ء میں پیدا ہوا اور اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد 1444ء میں تخت نشین ہوا۔ اس وقت اس کی عمر محض 12 سال تھی۔ جب اس نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا تو اس وقت وہ 21 سال کا تھا ؎
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی!
اس فتح میں سلطان محمد کی فوجی قوت و مہارت کے ساتھ عسکری حکمت عملی کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ 21 سالہ خلیفہ نے جب اس شہر کو 29 مئی 1453ء کو فتح کر لیا، تو یہاں کے تاریخی گرجا آیا صوفیہ پر بھی اسلامی فوج کا قبضہ ہو گیا۔ رومیوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ سلطان محمد فاتح نے آیا صوفیہ کے گرجا گھر کو عیسائیوں سے قیمتاً خرید لیا۔ یہ قیمت انہوں نے اپنی جیب سے ادا کی تھی یا شاہی خزانے سے؟ اس معاملے میں مختلف آرا ہیں، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گرجا خریدا گیا تھا۔ اسے خریدنے کے بعد اس میں کچھ مزید تعمیری اضافہ کر کے اسے مسجد قرار دیا گیا۔ خرید و فروخت کے تمام کاغذات و دستاویزات عثمانی خلافت کے پاس محفوظ تھے‘ جو آج بھی موجود ہیں۔
خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹنا مغربی قوتوں کا دیرینہ خواب تھا۔ عالمی طاقتوں نے مصطفی کمال پاشا کو نہایت شاطرانہ انداز میں ترکی پر مسلط کیا۔ اس نے خلافت کا خاتمہ کر دیا اور برسر اقتدار آنے کے بعد ترکی کو مکمل طور پر سیکولر ریاست بنا کر رکھ دیا۔ اس کے ذہن میں یہ خناس تھا کہ اسلام اور عربی زبان ترکی کی قومی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ سیکولر نظام اور لاطینی رسم الخط کے نفاذ سے ترک ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو جائیں گے۔ اقبالؒ نے اسی موقع پر فرمایا تھا:
لادینی و لاطینی! کس پیچ میں اُلجھا تو!
دارو ہے ضعیفوں کا لَا غَالِبَ اِلَّا ھُو
مصطفی کمال نے اذان پر پابندی، حج اور پردہ ممنوع، عربی رسم الخط متروک اور دستور میں فوج کو بے پناہ اختیارات دے کر ایک نیا ملک مغرب کو تحفتاً پیش کر دیا۔ خلافت کی بساط لپیٹ کر اس نے خوشی سے اعلان کیا کہ ہم نے عربی استعمار کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ہمارا عربی زبان اور عرب ممالک سے کوئی رشتہ اور تعلق نہیں۔ خلافت ہمارے اوپر بوجھ تھا جو اپنے سر سے اتار پھینکا ہے۔ اِدھر مصطفی کمال ایسے بیانات جاری کر رہا تھا، اُدھر ترک مسلمان بدترین آمریت کے شکنجے میں آنے کے بعد اپنے دکھ کا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے تحریکِ خلافت سالہا سال چلائی۔ مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر اہلِ فکر نے اس کے لیے یادگار جدوجہد کی، مگر انہونی ہو کر رہی اور اسلام دشمن قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئیں۔ برصغیر کے مسلمان انتہائی غمزدہ تھے۔ اسی موقع پر دردِ دل کے ساتھ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
مسجد آیا صوفیہ جو صدیوں تک ترک مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کے سجدوں سے مزّین ہوتی رہی، کمال پاشا کے دور میں 1935ء میں میوزیم میں تبدیل کر دی گئی۔ ڈکٹیٹرشپ کی وجہ سے اس جرم پر کوئی بول سکا نہ کوئی احتجاج ہوا۔ ترکی میں 1950ء میں برسر اقتدار آنے والے وزیراعظم جناب عدنان میندریسؒ نے کچھ ناروا پابندیاں مثلاً حج اور پردے کی ممنوعیت اور عربی میں اذان پر پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو فوجی انقلاب برپا ہو گیا اور ظالم ڈکٹیٹر جمال گرسل نے 1961ء میں وزیراعظم کو پھانسی دے کر شہید کر دیا۔
صدر رجب طیب اردوان برسر اقتدار آئے تو انہوں نے حکمت کے ساتھ ترک فوج کے لامحدود اختیارات کو کنٹرول کیا۔ ان کے خلاف 2016ء میں ترک فوج کے ایک دستے نے بغاوت کی تو نہتے عوام الناس کے سمندر نے مسلح لشکر کو بے بس کر دیا۔ ایسے افراد کو آئندہ ایسی مہم جوئی سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ صدر اردوان نے اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بھی اسی طرح حکمت کے ساتھ پُرعزم اقدام کیے۔ ان میں سے ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ آیا صوفیہ کو پھر سے مسجد میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس کے لیے صدر اردوان نے کوئی صدارتی آرڈر جاری نہیں کیا بلکہ عدالت عالیہ میں کیس دائر کیا جس میں تمام دستاویزات پیش کی گئیں کہ مسجد کی جگہ غاصبانہ نہیں بلکہ یہ قیمتاً خریدی گئی تھی۔ عدالت عالیہ نے فل بینچ کے ساتھ کیس کی سماعت کی۔ دلائل اور پھر شواہد کی بنیاد پر یہ تاریخی فیصلہ دیا کہ آیا صوفیہ مسجد ہے اور اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
24جولائی 2020ء بروز جمعہ تاریخی دن بن گیا۔ اس دن آیا صوفیہ کی تاریخی مسجد میں لاکھوں اہلِ ایمان ترکوں نے اپنے صدر کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کی۔ کروڑوں مسلمان اس نمازِ جمعہ کو دنیا بھر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خوشی منا رہے تھے۔ خطبۂ جمعہ وزیر برائے مذہبی امور جناب علی ارباس نے دیا۔ صدر اردوان نے جب یہ فرمایا کہ آیا صوفیہ کے بعد اگلی منزل القدس ہے‘ تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔ القدس منتظر ہے کسی صلاح الدین ایوبی کی! سیکولر ذہن رکھنے والے لوگوں کا معاملہ مگر عجیب ہے۔ وہ کسی بھی اسلامی اقدام کو ٹھنڈے پیٹوں کبھی برداشت نہیں کرتے۔ اگر وہ بھی دلائل کی بنیاد پر سوچیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس عدالتی فیصلے اور عمل درآمد پر زہریلا پروپیگنڈا جاری رکھیں۔
جن لوگوں نے یورپ، امریکا اور کینیڈا کا سفر بقائمی ہوش و حواس کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان تمام ممالک میں درجنوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں ایسی مساجد آج موجود ہیں جو کبھی گرجا گھر تھے۔ ان گرجا گھروں میں مساجد کیسے بنیں؟ کیا یہاں کسی سلطان محمد فاتح نے بزور قوت گرجا گھر کو مسجد میں بدل دیا؟ نہیں! ان ممالک میں طاقتور عیسائی یا سیکولر حکومتیں قائم ہیں، وہاں کوئی سلطان محمد فاتح یا محمود غزنوی و اورنگ زیب نہیں داخل ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں کی عیسائی آبادی نے گرجا گھروں کو برباد و غیر آباد چھوڑ رکھا تھا۔ ان سے نہ کسی کو دلچسپی تھی نہ کوئی عبادت کے لیے وہاں آتا تھا۔ یہ تمام گرجا گھر مختلف غیر مسلم لوگوں نے خرید کر یا تو شراب خانے بنا دیے یا کلب۔ پھر مسلمانوں کی آبادی بڑھی تو انھوں نے انہیں خریدا اور ان کی مرمت اور عمارت میں مناسب ترمیم کر کے اسلامی مراکز و مساجد میں بدل دیا۔ برطانیہ، اٹلی، جرمنی، ڈنمارک، سپین، امریکا اور کینیڈا میںایسی بہت سی مساجد میں اس فقیر کو خود نماز پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا اور خطاب کرنے کے مواقع بھی کئی بار ملتے رہے۔
ان مواقع پر دوستوں نے پوری تاریخ بیان کی کہ کس طرح چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ ایسے ہر موقع پر میری زبان سے ہمیشہ بے ساختہ نکلا سبحان اللہ! جس طرح انسان مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں، اللہ کی قدرت ہے کہ گرجا گھر بھی مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ اگر یہ تمام گرجا گھر کفر کے گڑھ سے مسجدوں میں بدل سکتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، تو آیا صوفیہ کی مسجد جو باقاعدہ قیمت ادا کر کے خریدی گئی تھی، کیوں سیکولر اور نام نہاد آزاد منش لوگوں کوکھلتی ہے؟ اللہ کا ارشاد ہے ''اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اُس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو گئے‘‘۔ (سورۃ الجن:18تا 19)
آج بھی سیکولر قوتیں اور تو کچھ نہیںکر سکتیں ،مسجد آیا صوفیہ میں اللہ کے نام کی کبریائی پر اللہ کے بندے کے خلاف زبان و قلم سے اپنی بے نتیجہ و بے ہدف توپیں داغ رہی ہیںمگر بقول عرفیؔ ؎
عرفیؔ تو میندیش زغوغائے رقیباں
کہ آوازِ سگاں کم نہ کند رزق گدارا
اردوان مردِ مومن ہے۔ ساری دنیا بھی مخالفت کرے‘ تو وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اسے ٹیپو سلطان کی طرح وہ دل عطا کیا گیا ہے جو عقل کا غلام نہیں۔ اے کاش! اس غیرت مند ترک کی طرح دنیا میں کچھ اور مسلمان حکمران بھی میدان میں موجود ہوتے۔ آج صورت حال پھر وہی ہے جو علامہ اقبال نے نہایت دردِ دل کے ساتھ بیان کی تھی ؎
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش!