تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     11-08-2020

پیراڈائم شفٹ

کورونا وبا کی پُراسرار لہر نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری غیر محدود پراکسی جنگوں کی جس آگ کو عارضی طور پہ بجھا دیا تھا، بیروت میں امونیم نائٹریٹ دھماکوں نے اسی دم توڑتی کشمکش کو از سر نو زندہ کرکے مڈل ایسٹ کے بحران کو زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بیروت کی بندرگاہ کے قریب واقع ویئر ہائوس میں سات سال سے پڑا 2750 ٹن کیمیکل‘ مولڈووا کے کارگو بحری جہاز ایم وی روسس میں لایا گیا، جو روس کی ملکیت تھا۔ جارجیا سے روانہ ہونے والے اس جہاز کو موزمبیق جانا تھا لیکن فنی خرابی کی وجہ سے جہاز کو بیروت کی بندگاہ پہ روک لیا گیا۔ بعد ازاں چند قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے لبنانی گورنمنٹ نے اسے تحویل میں لے لیا؛ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کیمیکل مواد میں وہ تباہ کن دھماکا کیسے ہوا جس نے 154 افراد کی جان لینے کے علاوہ چھ ہزار سے زیادہ لوگوںکو زخمی اور تین لاکھ مکینوں کو بے گھر کر دیا۔ ہرچند کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ تیل کی دولت سے مالامال اور تین براعظموں، یورپ، ایشیا اورافریقہ کے درمیان رابطے کے پل کی حیثیت رکھنے والے مڈل ایسٹ کو متحارب عالمی طاقتیں اُس وقت تک اِن غیر مختتم خانہ جنگیوں کے آشوب سے باہر نہیں نکلنے دیں گی جب تک ساری عرب مملکتیں پوری طرح مضمحل نہیں ہو جاتیں۔ لیکن اب چین اور ایران کے درمیان غیر معمولی اقتصادی معاہدوں کے بعد مڈل ایسٹ میں امریکی اسٹرٹیجک پالیسی کی ناکامی اس خطے میں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک خاص حکمت عملی کے نتیجہ میں ابھاری گئی مسلح مزاحمتی تحریکوں کے قلع قمع کے لئے بنائی گئی عالمی حکمت عملی اپنے پوشیدہ مقاصد کے حصول میں تو پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی لیکن اسی جدلیات کے مضمرات امریکی لیڈرشپ کے طرزِ عمل میں گہری تبدیلیوں کا وسیلہ ضرور بن رہے ہیں۔ امریکی مقتدرہ سے شاید عرب سماج کی مزاحمتی طاقت کا درست اندازہ لگانے میں کوتاہی اور استبدادی حکومتوں کے ذریعے مسلم معاشروں کو کنٹرول کرنے کوشش کے دوران کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز مشرقِ وسطیٰ میں امریکی افواج بھیجنے کے فیصلے کو ملکی تاریخ کی واحد سب سے بڑی غلطی تسلیم کیا۔ ایگزیو نیوز ویب سائٹ کے لئے آسٹریلوی صحافی جوناتھن سوان کو دیے گئے انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے جہاں کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے وضع کیے گئے طریقہ کار کا دفاع کیا، وہاں انہوں نے مڈل ایسٹ میں فوج بھیجنے کے فیصلے کی مذمت بھی کر ڈالی؛ تاہم صدر ٹرمپ نے اصرار کیاکہ ان کی انتظامیہ کو اس ضمن میں کچھ کامیابیاں بھی ملی ہیں، ''ہم نے کھوج لگا کے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کو ہلاک کر دیا‘‘۔ حال ہی میں امریکی ملٹری اکیڈمی کی گریجویشن کلاس سے ملاقات میں بھی صدر ٹرمپ نے اپنے اسی عزم کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں کے عہد کا اختتام چاہتے ہیں کیونکہ دور دراز علاقوں میں قدیم تنازعات کو نمٹانا امریکی فوج کا کام نہیں ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ امریکی مقتدرہ مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان سے فوجیں نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں لیکن ان کی بدلتی ہوئی سوچیں اس امر کی غمازی کر رہی ہیں کہ جنگ اور تشدد کے رجحانات کی آبیاری کرنے والی استعماری ریاستیں اب تھک چکی ہیں اور تیسری دنیا کے وسائل پہ پلنے والی مغربی تہذیب کی روح افسردہ ہے۔
امریکی لیڈر شپ کی ذہنی پسپائی کے اشارے عالمی لیڈروں کی گفتگو سے بھی ملتے ہیں۔ابھی چند دن پہلے ہفتۂ انسدادِ دہشت گردی منانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے شکوہ کیا کہ کورونا وبا کے دوران‘ دہشت گردی کے چیلنجز سے نمٹنے کے ''عملی حل‘‘ تلاش کرنے کیلئے کثیر الجہتی طاقت کو بروئے کار نہیں لایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ داعش، القاعدہ اور 'نئے نازیوں‘ سمیت دیگر نفرت انگیز گروہ اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کی خاطر سماجی تقسیم اور مقامی تنازعات کو بڑھاوا دینے کے علاوہ حکومتی ناکامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یو این او کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ امریکی دانشوروں کا ایک وسیع حلقہ بھی کورونا وبا کے دوران دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے میں امریکی لیڈرشپ کے تساہل اور داعش کے خلاف بنائے گئے اتحاد میں شامل استبدادی حکومتوں کی من مانی توجیہات کو ہدفِ تنقید بنا رہا ہے۔ اس کے خیال میں کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جو اگرچہ کم نظر آتے ہیں لیکن وہ زیادہ نقصان دہ ہیں، جن میں گلوبل مسائل کو نمٹانے میں امریکی لیڈرشپ کی عدم دلچسپی اور اصولی تلویث کا فقدان سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اس طبقے کی نظر میں حالیہ برسوں میں امریکہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی فنڈنگ روک کے دنیا بھر میں بنیادی حقوقِ انسانی کے تحفظ اور قیامِ امن کی کوششوں کو ضعف پہنچایا، امریکی مالی امداد کی بندش سے تحدید آبادی، فلسطینی مہاجرین کی بحالی اور گلوبل وارمنگ کے علاوہ ترقی کے پائیدار عمل منصوبے کے حصولی مقاصد بھی شدید متاثر ہوئے اور ان سے بھی بڑھ کر مڈل ایسٹ میںداعش کو کچلنے کی خاطر بنائے گئے اتحاد کی وجہ سے ایسا سیاسی خلا پیدا ہوا جسے ان استبدادی قوتوں نے پُر کر لیا جو اس کثیر الجہتی نظام کی مدد سے اپنے طرزِ عمل اور ترجیحات کی جائزیت چاہتی تھیں۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عہدیداروں اور مغربی دانشوروں کی تنقید سے یہی تاثر ملتا ہے کہ امریکی اب انسدادِ دہشت گردی مہم کی قیادت میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ انسانی فلاح کے مصنوعی منصوبوں کی دسیسہ کاری کو جاری رکھنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی پوری توجہ مڈل ایسٹ میں فوجی مداخلت کے مضمرات سے پیچھا چھڑانے کی تگ و دو پہ مرتکز ہو چکی ہے۔ دریں اثنا ترکی میں نشاۃ ثانیہ کی وہ پُرجوش تحریک بھی نئی جنگوں کو بھڑکانے کا محرک بن سکتی ہے جو نہایت تیزی کے ساتھ القاعدہ اور داعش جیسی عسکری تحریکوں کے بکھرے ہوئے وابستگان کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ اگر ترکی کے حمایت یافتہ گروہوں نے لیبیا اور تیونس میں غلبہ حاصل کر لیا تو مسلم امہ کو دوبارہ ایک پلیٹ فارم میسر آ سکتا ہے۔ چنانچہ مڈل ایسٹ میں ابھرنے والی یہی پیچیدہ کشمکش تیزی کے ساتھ صورتیں بدل کے یورپ کے دروازے پہ دستک دینے والی ہے، اس لئے یورپ کی فضائوں پہ گہرا جمود طاری ہے۔ 
مغرب کی سیاسی اشرافیہ بھی امریکی پالیسیوں کے مہلک اثرات سے دامن بچانے اور اس پیراڈائم شفٹ کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے جو طاقت کے توازن کو مشرق کی جانب جھکاتی نظر آتی ہے۔ یورپی ممالک کی سرد مہری بھی امریکی مقتدرہ کی مبینہ دہشت گردی کے خلاف اجتماعی مساعی کی قیادت سے غیر علانیہ دستبرداری کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں ہم جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی تزویرات کا مشاہدہ کریں تو ہمیں سی پیک منصوبہ کی معاشی اور اسٹرٹیجک اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ یہ میگا پروجیکٹ نہ صرف ہماری اقتصادی ضروریات کو پورا کرے گا بلکہ یہی عظیم منصوبہ پاکستان کے دفاع کی ضمانت بھی بن چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں لداخ میں سی پیک روٹ سے متعلق کچھ فیصلوں پہ انڈین آرمی کی غیر معمولی نقل و حمل کے خلاف چینی فوج کا کوئیک رسپانس عالمی سیاست کی اسی حرکیات اور مستقبل کی نئی صف بندی کا پتا دیتا ہے۔ عالمی قواعد و ضوابط پہ قائم وہ مواصلاتی نظام، جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل دیا گیا تھا‘ کسی بھی مملکت کو بین الاقوامی زمینی و ہوائی روٹس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سی پیک بھی مسلمہ بین الاقوامی تجارتی روٹ ہے، جس کے راستہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ اسی لئے چینی کمانڈر نے انڈین آرمی کے جنرل پہ واضح کر دیا کہ سی پیک کی راہ میں رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر بلوچستان میں بھی شرپسندوں نے سی پیک کی راہ روکنے کی کوشش کی تو انہیں منہ توڑ جواب ملے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved