لندن سے صفدر عباس بھائی کا میسج تھا ‘ لکھا: اپنے ریسرچر سے پاکستان میں امونیم نائٹریٹ کھاد فیکٹریوں اور دیگر جگہوں پر سٹوریج اور حفاظتی اقدامات پر تحقیق کریں کیونکہ خیر سے پاکستان میں حفاظتی اقدام کو کچھ نہیں سمجھا جاتا ۔ کچھ نہیں تو بیروت کی تباہی سے ہی سیکھ لیں جہاں ستائیس سو ٹن کیمیکل نے شہر کو لمحوں میں تباہ کر دیا ۔
بیروت دھماکے کی شروع میں کئی وجوہات بتائی گئیں۔ پہلے کہا گیا کہ اسرائیل نے حملہ کرایا تھا ‘ کسی نے کہا کہ حزب اللہ کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ‘کوئی بولا کہ راکٹ کا حملہ ہوا ۔ کسی نے دھماکے کے بعد آسمان پر دھویں کی چھتری بنتے دیکھ کر اسے ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں سے تشبیہ دی تو کسی نے پاکستان کے اوجڑی کیمپ کو یاد کیا جب 1988 ء میں اسلحہ ڈپو میں دھماکوں کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد پر میزائلوں کی بارش ہوئی تھی۔دراصل حالیہ تباہی کھاد بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکل امونیم نائٹریٹ کی وجہ سے ہوئی تھی جو بیروت پورٹ پر سات برس سے گوداموں میں پڑا تھا ۔ پورٹ پر آگ لگی تو پھیل کر ستائیس سو ٹن امونیم نائٹریٹ کو لگ گئی اور یہ ایٹمی دھماکے کی طرح پھٹ گیا اور چند لمحوں میں شہر کو اڑا کر رکھ دیا ۔ سینکڑوں لوگ مارے گئے اور ہنستا بستا بیروت ویرانے کا منظر پیش کرنے لگا ۔
اب جو باتیں سامنے آرہی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں کہ کیسے ماضی میں کی گئی غلطیوں کا خمیازہ انسان کو اپنی جان دے کر بھگتنا پڑتا ہے ۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جب کسی معاشرے میں گروہ آپس میں برسرپیکار ہوں‘ کرپشن بڑھ جائے اورکسی کو احتساب کا ڈر نہ ہو تو تباہیاں آتی ہیں۔ کہانی کچھ یوں نکلی ہے کہ 2013 ء میں ایک بحری جہاز جس پر ستائیس سو ٹن امونیم نائٹریٹ لدا تھا‘ بیروت کی بندرگاہ پر رکا جہاں سے اس نے مزید کارگو اٹھانا تھا لیکن پورٹ پر اس جہاز کے عملے کا لبنانی کسٹمز افسران سے قانونی پھڈا ہوگیا ۔ بحری جہاز کی کمپنی مقروض تھی اور حکام چاہتے تھے کہ پہلے پیسے کلیئر کیے جائیں پھر پورٹ چھوڑنے کی اجازت ملے گی۔ یوں سات برس قبل اس پھڈے میں ستائیس سو ٹن امونیم نائٹریٹ‘ جو موزمبیق جارہا تھا‘ کو ضبط کر کے جہاز سے اتار لیا گیا اور اسے پورٹ میں سٹور کر دیا گیا ۔ پورٹ کے کسٹمز ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اس نے کئی دفعہ خبردار کیا کہ پورٹ پر خطرناک کیمیکل پڑے ہیں جو تباہی مچا سکتے ہیں ‘ مگرکسی نے نہ سنی ۔ اس دھماکے کے بعد کسٹم حکام کو بھی گرفتا رکر لیا گیا ہے۔ اس سے پہلے لبنان میں گلیاں کوڑے اور گند گی سے بھر گئی تھیں۔ وہاں بھی کنٹریکٹ لینے کیلئے طاقتور طبقات میں لڑائیاں شروع ہوگئیں کیونکہ اس میں بہت پیسہ ہے ۔ اس پر مظاہرین نے ایک تحریک شروع کی جس کا نام ''You Stink‘‘رکھا گیا۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب حکومت نے بھاری قرضہ لے لیا اور معاشی بدانتظامی سے پورا سسٹم بیٹھ گیا ۔ لبنان کی خوش حال مڈل کلاس کی حالت بُری ہوتی گئی اور زندہ رہنے کیلئے انہوں نے اپنی چیزیں بیچنا شروع کر دیں۔ کچھ کسر رہ گی تھی تو بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پوری کر دی ۔ اس دوران لبنان کی کرنسی کی ویلیو اسی فیصد کم ہوگئی ۔ حکومت کے پاس آئل خریدنے کے پیسے تک نہ رہے۔ اس پر لبنان میں پچھلے سال مظاہرے شروع ہوگئے اور لوگوں نے حکومت کی برطرفی کا مطالبہ شروع کر دیا ۔
اب سوال یہ ہے اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ دراصل ذمہ داری مختلف گروپس پر آتی ہے۔1990 ء کی سول وار ختم ہونے کے بعد جو ڈیل ہمسایہ ملک شام نے کرائی تھی‘ اس کے مطابق ملک کا صدر کرسچئن‘ وزیراعظم سنی اور پارلیمنٹ کا سپیکر شیعہ ہوگا ۔ لبنان میں مختلف گروہ ہر وقت مخلوط حکومت میں پوزیشن اور سٹیٹس برقرار رکھنے کیلئے لڑتے رہتے ہیں تاکہ وہ پاور میں رہیں ۔ ان گروہوں میں چند ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو وار لارڈز تھے اور انہیں یہ بھی خوف ہے اگر حکومت یا سسٹم بدل گیا تو انہیں اپنے جرائم کی سزا مل سکتی ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ‘ جس نے 2006 ء کی جنگ میں اسرائیل کو شکست دی تھی ‘کے پاس لبنان کی آرمی کے برابر فائر پاور ہے۔ حزب اللہ ملک کے ائیرپورٹس کو کنٹرول کرتی ہے ‘ اسے مختلف کاروباری گروپس مالی امداد دیتے ہیں‘ایران سے بھی اسے سپورٹ ملتی ہے۔ ان حالات میں لبنان میں بھان متی کے کنبے کی طرح اکٹھی کی گئی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اب ان دھماکوں کے بعد ملک کی اشرافیہ نے ایک دوسرے پر الزامات لگانا شروع کر دیے ہیں۔ وزارت پبلک ورکس اور پورٹ حکام کہتے ہیں کہ اس دھماکے کی ذمہ دار عدلیہ ہے جس نے بار بار درخواستوں کے باوجود اس خطرناک کارگو کو ریلیز کرنے کی اجازت نہ دی اور بیروت تباہ ہوگیا ۔ عدلیہ کہتی ہے کہ جو انکوائری کمیشن بنایا گیا ہے وہ غیرجانبدار نہیں ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے حامی سیاستدانوں اور سکیورٹی حکام کا وفادار ہے اور اس سے منصفانہ انکوائری کی امید نہیں۔ لبنانی اشرافیہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے بیروت پورٹ کے ساتھ بہت سے مفادات وابستہ ہیں کیونکہ ملک کی زیادہ تر امپورٹ یہیں سے ہوتی ہے۔ عام لبنانی کو اپنی حکومت پر اعتبار ہے نہ ایلیٹ اور افسر شاہی پر۔ وہ انہیں کرپٹ سمجھتے ہیں اور کورونا سے پہلے وہ سیاسی ایلیٹ کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے‘ اب بیروت کی تباہی بربادی کے اس تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ہے۔ یہ ایک شہادت ہے کہ کیسے سیاستدان‘ سول سکیورٹی اور اشرافیہ کرپشن اور نااہلی سے ایک خوبصورت ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ جو حکمران‘ بیوروکریٹس اور عدلیہ سات سال تک ستائیس سو ٹن بارود پر بیٹھے رہے ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اندازہ کریں‘ جو کارگوموزمبیق جارہا تھا اسے بیروت پورٹ پر اتار لیا گیا اور وہ سات سال پھٹنے کا انتظار کرتا رہا۔ عدلیہ‘کسٹمز حکام اور سیاستدان سات برس تک فیصلہ نہ کرسکے کہ پورٹ پر سٹور میں رکھے ستائیس سو ٹن کے ٹائم بم کا کیا کرنا ہے‘ جب تک اس نے خود پھٹنے کا فیصلہ نہ کر لیا ۔ کیا ایسا نہیں لگتا جیسے آپ نے یہ کہانی پہلے بھی سن رکھی ہو؟
ان حالات میں صفدر بھائی کہتے ہیں ہم کچھ بیروت کی بربادی سے سیکھ لیں۔ہم پہلے کچھ سیکھے ہیں کہ اب سیکھیں گے ؟ ہاں! ہماری قوم اتنا سیکھی ہے کہ اگر میڈیا کرپٹ سیاسی ایلیٹ اور افسر شاہی کے کرتوت سامنے لاتا ہے تو یہی عوام اسی میڈیا پر پل پڑتے ہیں کہ تم لوگ ہمارے پسندیدہ لیڈروں کی شان میں گستاخی کرتے ہو۔ لبنان کی اس تباہی میں ایک ہی سبق پوشیدہ ہے کہ جب تک عوام سیاستدانوں اور افسر شاہی سے اپنا رومانس ختم نہیں کریں گے اور انہیں فرشتوں کی جگہ عام انسان نہیں سمجھیں گے تو سات سال بعد بھی اسی حکمران طبقے کی بے حسی‘ غلط فیصلے یا Damn Care Attitude ایک لمحے میں پورے شہر کو تباہ کرسکتے ہیں‘ جیسے بیروت میں ہوا ۔
ہم پاکستانی کیا سبق سیکھیں؟ یہاں تو ہر پارٹی ورکر عمران خان‘ نواز شریف‘ زرداری کے ذاتی وفاداری کے رتبے پر فائز ہے۔ وہ کچھ بھی کر لیں‘ یہ سب ان کا دفاع کریں گے۔ ان حکمرانوں کے اپنے اپنے وفادار ورکرز اور سوشل میڈیا پر حامی ہیں جو حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کی سزا خود بھگتنے کو تیار ہیں لیکن اپنے لاڈلوں کی نالائقیوں‘کرپشن اور غفلت پر تنقید سننے کو تیار نہیں۔ جس معاشرے میں حکمران اور اشرافیہ کو احتساب کا ڈر نہیں ہوتا وہ معاشرے بیروت کی طرح لمحوں میں برباد ہوتے ہیں ۔ بیروت کی تباہی کا یہی سبق ہے کہ اپنے حکمرانوں اور سول بیوروکریسی کو شک کا فائدہ نہ دیں ‘ورنہ آپ بچوں سمیت اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے مارے جائیں گے۔