تعلیم، صحت کیلئے پیسہ نہیں چلے ہیں نیا شہر بسانے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''تعلیم، صحت کے لیے پیسہ نہیں، چلے ہیں نیا شہر بسانے‘‘ ان سے تو میں ہی اچھا ہوں کہ پبلک کی طرف سے کوئی رد عمل آئے بغیر اپنی باتیں کیے چلا جا رہا ہوں اور دیکھوں گا کہ عوام آخر کب تک میری مساعیٔ جمیلہ کو نظر انداز کرتے ہیں اور یہ دیکھنے کے بعد دوبارہ دیکھنا شروع کر دوں گا کیونکہ ایک ہی بار کا دیکھا ہوا کافی نہیں ہوتا، اگرچہ دوسری دفعہ دیکھنے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن فرق نہ پڑنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ورنہ میں اپنی روزانہ کی تقریروں کا سلسلہ بند کر کے کوئی اورکام شروع کر چکا ہوتا، اگرچہ اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ آپ اگلے روز لاہو میں ایک مقام پر خطاب کر رہے تھے۔
ہمارے خلاف منظم پروپیگنڈا بند کیا جائے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہمارے خلاف منظم پروپیگنڈا بند کیا جائے‘‘ کیونکہ جب غیر منظم پروپیگنڈے کی پوری پوری گنجائش موجود ہے تو اسے منظم کرنے کا تکلف اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس طرح یہ لوگ ہماری عادتیں بھی خراب کر رہے ہیں کیونکہ ہمارا سارا کام ہی غیر منظم ہے اور اس طرح دیکھا دیکھی ہمیں بھی منظم طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جس کی نہ ہمیں عادت ہے اور نہ ہی یہ ہمارے مزاج کے مطابق ہے، ہم اپنے مزاج کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے اور نہ ہی ہمارا مزاج اس کی اجازت دیتا ہے کیونکہ اپنے مزاج پر ہمارا اتنا ہی اختیار ہے جتنا بیورو کریسی پر۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دعائے صحت کی اپیل
اردو دنیا کے بہت بڑے ادیب اور ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی کچھ عرصے سے اپنے شہر الٰہ آباد میں صاحبِ فراش ہیں۔ اگلے روز میں نے فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ بینائی نصف کے قریب ختم ہو چکی ہے، دل کے معاملات بھی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کی شکایت بھی۔ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بند ہو جانے پر خاصے فکر مند تھے جس پر میں نے کہا کہ آپ نے جتنا لکھ پڑھ لیا ہے، یاد گار رکھنے کے لیے وہی کافی ہے اس لیے آپ اس فکر مندی میں مبتلا ہونے کے بجائے مکمل آرام کریں اور ساری توجہ اپنی صحت پر دیں۔ قارئین سے ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اپیل ہے!
''ادبِ لطیف‘‘ از سرِ نو
کم و بیش 84 برس سے جاری ادبی جریدے ''ادبِ لطیف‘‘ جو کچھ عرصہ اپنے ایڈیٹر ناصر زیدی کے انتقال کے بعد موقوف رہنے کے بعد اب اپنی نئی زندگی کا آغاز کر رہا ہے جس کی ادارت کی ذمہ داری ہمارے ممتاز ادیب حسین مجروح نے سنبھال لی ہے جبکہ میجر (ر) شہزاد نیّر جو کہ ایک معروف شاعر بھی ہیں، ان کے معاون ہوں گے۔ کل یہ دونوں حضرات پلاک کی ڈائریکٹر جنرل محترمہ صغرا صدف کے ہمراہ تشریف لائے اور پرچے کے بارے میں اپنے عزائم اور منصوبہ بندی سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر صغرا صدف نے اپنی پنجابی کہانیوں کا مجموعہ ''برہا مچّ مچایا‘‘ بھی عنایت کیا۔
اطلاعِ مرگ دینے کا طریقہ
ایک خاتون گھر پر اپنی بیمار اور معمر والدہ اور محبوب بلی کو چھوڑ کر چند ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک گئی اور اور اپنے ملازم کو تاکید کی کہ ان دونوں کا خاص خیال رکھے۔ کوئی ایک ڈیڑھ ہفتے بعد اس نے فون پر گھر کا حال چال دریافت کیا تو ملازم نے بتایا کہ بلی چھت سے گر کر انتقال کر گئی ہے۔ ''بیوقوف! موت کی اطلاع اس طرح دیتے ہیں؟ تم نے پہلے دن بتانا تھا کہ وہ چھت پر کھیل رہی ہے اور دوسرے دن یہ بتاتے کہ وہ چھت سے گر کر زخمی ہو گئی ہے اور تیسرے دن بتاتے کہ علاج معالجہ کے باوجود وہ جانبر نہیں ہو سکی۔ اچھا خیر میری والدہ کا بتائو؟‘‘اس پر نوکر نے بتایا کہ وہ چھت پر کھیل رہی ہیں!
احتیاط
ایک خاتون جو اپنے شوہر کے کردار کے بارے شاکی رہا کرتی تھی۔ ایک بار اسے کچھ دنوں کے لیے بیرونِ ملک جانا پڑا۔ جانے سے پہلے اس نے کچن سے سٹیل کا بڑا دیگچہ منگوایا اور اپنے شوہر کے سامنے اسے کسی چیز سے کھڑکایا جس سے ایک مخصوص آواز نکلتی تھی۔ خاتون نے اسے بتایا کہ وہ خیر خبر دریافت کرنے کے لیے بالعموم رات کو فون کیا کریں گی جس پر تم یہ دیگچہ کھڑکا دیا کرنا تا کہ مجھے یقین ہو کہ تم باہر آوارہ گردی کے بجائے گھر پر موجود ہو۔ کچھ دنوں کے بعد انہوں نے اپنے ملازم کو فون کر کے پوچھا کہ ان کے میاں کہیں رات کو گھر سے باہر تو نہیں جاتے؟ جس پر ملازم بولا: وہ تو کبھی رات کو گھر پر ٹکے ہی نہیں بلکہ ساری ساری رات اپنے دوستوں کے ہمراہ گھر سے باہر رہتے ہیں البتہ جاتے وقت وہ سٹیل والا دیگچہ ضرور ساتھ لے جاتے ہیں۔
بھوت
ایک لڑکی جو بھوتوں کے بارے میں تحقیق کر رہی تھی‘ ایک بار ایک قدیم قَلعے کو دیکھنے کے لیے گئی جس کے بارے مشہور تھا کہ اس میں بھوتوں کا بسیرا ہے۔ وہ گائیڈ کے ہمراہ قلعے کا چکر لگا کر آئی تو گائیڈ سے بولی: مجھے تو یہاں کوئی بھوت وغیرہ نظر نہیں آیا، کیا تم نے یہاں کبھی کوئی بھوت دیکھا ہے؟ ''نہیں! میں نے بھی آج تک یہاں کوئی بھوت نہیں دیکھا‘‘ گائیڈ نے جواب دیا۔ تم یہاں کب سے ملازم ہو؟ لڑکی نے پوچھا۔ ''یہی کوئی تین سو سال سے‘‘ گائیڈ نے جواب دیا۔
اور‘ اب آخر میں قاسم یعقوب کی شاعری
بچھڑ گیا تو دوبارہ نہیں قبول کیا
کبھی کسی کو بھی سارا نہیں قبول کیا
کچھ اس لیے کہ اسے بزدلی سمجھتے تھے
محبتوں میں خسارا نہیں قبول کیا
درِ جہاں، درِ محبوب بھی کھلا تھا مگر
کسی طرف کا اشارا نہیں قبول کیا
بس ایک جگنو کو ہمراہ کر لیا ہم نے
کوئی چراغ، ستارا نہیں قبول کیا
بھٹکتے پھرتے ہیں رستوں کی دھول میں قاسمؔ
جنہوں نے ساتھ ہمارا نہیں قبول کیا
آسمان کے نہ زمین کے ہوتے
کاش ہم اور کہیں کے ہوتے
عشق معراجِ جنوں پر ہوتا
داغ دامن میں جبیں کے ہوتے
ان کی تصویر مکمل ہوتی
رنگ فردوسِ بریں کے ہوتے
اپنے انکار کا چرچا ہوتا
تذکرے اپنی نہیں کے ہوتے
خلد ہوتی یہی دنیا‘ قاسمؔ
حُور غلماں یہیں کے ہوتے
آج کا مطلع
جھوٹ سچ کو دیکھ لیتے‘ یہ تمھارا کام تھا
بات سن لیتے کبھی اتنا ہی سارا کام تھا