تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-08-2020

دعوے اور حقیقت

''منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا اور میاں نواز شریف کی صورت میں ایک اور منتخب وزیراعظم نے اس ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر پاکستان کو نا قابل تسخیر بنا دیا۔ میاں نواز شریف کو امریکی صدر بل کلنٹن نے پانچ فون کیے کہ ایٹمی دھماکے نہ کرو‘ جو مانگو گے دیں گے لیکن نواز شریف نے بل کلنٹن کی فون پر پانچ ارب ڈالر دینے کی پیشکش کو پائوں کی ٹھوکر سے ٹھکراتے ہوئے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو نا قابل تسخیر بنا دیا‘‘۔ اپنے اس کالم میں کچھ ثبوت اپنے قارئین کے سامنے رکھتے ہوئے واضح کروں گا کہ 6 اگست کو آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے‘ کیا گیا مذکورہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔اُس دن جب پوری قوم کشمیریوں کے حق میں بھارت کے خلاف سراپا احتجاج دنیا بھر میں مظاہرے کر رہی تھی‘ شہباز شریف نے ملکی اداروں کو اپنا ہدفِ تنقید بنائے رکھا، اپنی اس تقریر میں دو منتخب وزرائے اعظم کا حوالہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ ایک ایٹم بم کا خالق اور دوسرا اس کے دھماکے کرنے والا تھا لیکن ان کے ساتھ کئے گئے سلوک کی بات کرتے ہوئے بلا واسطہ جو کچھ کہا، وہ باشعور لوگ سمجھ چکے ہیں اوران کی اس تقریر نے اُن حلقوں کی غلط فہمیاں بھی دور کر دی ہوں گی۔
سب سے پہلے آتے ہیں بل کلنٹن کے حوالے سے کئے گئے اس دعوے پر کہ فون پر میاں نواز شریف کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر پانچ ارب ڈالر مفت میں دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بل کلنٹن نے نہیں بلکہ 22 مئی کی رات 10 بجے میاں نواز شریف نے خود ان کو فون کیا تھا، اس لئے پہلی غلطی درست کر لیں کہ کلنٹن نے فون کال کی تھی۔ میاں نواز شریف نے اپنی اس فون کال میں کلنٹن سے کہا تھا ''جناب صدر! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دیے گئے ایجنڈے پر ہوبہو عمل کیا جائے تو اس کے لئے میرا پاکستان میں وزیراعظم رہنا بہت ہی ضروری ہے لیکن یہاں پاکستان میں بے نظیر بھٹو میرے لئے بہت سی مشکلات پیدا کرنے کے علا وہ میرے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔ اپنی وزارت عظمیٰ کی گارنٹی اور بے نظیر کو خاموش کرانے کی درخواست سن کر بل کلنٹن نے نواز شریف سے کہا ''کچھ چیزیں جن کے بارے میں ہم نے آج بات کی ہے‘ آپ کو اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے ساتھ بات کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی‘‘۔ (بحوالہ 'غدار کون، نواز شریف کی کہانی ان کی زبانی‘، صفحہ 439)
گفتگو کا یہ حصہ سننے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ کلنٹن کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی گارنٹی مانگنے والا کوئی بھی شخص اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے؟ اب ذرا اس دعوے کی بات کرتے ہیں کہ نواز شریف نے امریکی صدر بل کلنٹن کی فون پر پانچ ارب ڈالر کے بدلے میں ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی پیشکش کو ٹھوکر ماری تھی۔ اپنا یہ مضمون اس دعوے کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں کہ بل کلنٹن اور نواز شریف کی گفتگو کی یکارڈنگ جسے احاطہ تحریر میں لا رہا ہوں‘ اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔
22 مئی 1998ء کی رات دس بجے امریکی صدر بل کلنٹن نے میاں نواز شریف سے یہ الفاظ کہے تھے ''اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کرتے تو مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی سب سے بڑی سکیورٹی کا انحصار اس کی مضبوط معیشت پر ہو گا،میں نے اپنے محکمہ خزانہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں، اسی طرح ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے رابطہ کر کے اگلے تین برس کے لئے تین سے پانچ بلین ڈالر سرمائے کی اقتصادی معاونت آپ تک پہنچ سکتی ہے‘‘۔ اگر آپ پریسلر ترمیم کی منسوخی کی بات کریں گے تو یہ درخواست سینیٹ سے گزر کر منسوخ ہو بھی گئی تو کانگرس میں اس کی کامیابی کی میں گارنٹی نہیں دے سکتا‘‘۔
''پریسلر ترمیم‘‘ جس نے پاکستان کو عرصے سے باندھ کر رکھا ہوا تھا، وہ تو صدر کلنٹن ختم کرا نہیں سکتے تو پانچ ارب ڈالر کہاں سے دیتے؟ اگر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ ہی دلوانا تھا تو فائدہ؟ کہ قرض تو واپس ہی کرنا پڑتا۔ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے پانچ ارب ڈالر دینے کے کھوکھلے اور جھوٹے دعووں کی حقیقت افشا ہونے کے بعد اب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اصل وارثوں کا ریکارڈ ملاحظہ کیجئے: ''1976 میں جی ایچ کیو سے 5th کور کوئٹہ کے بریگیڈیئر سرفراز کو پیغام ملا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ڈاکٹر اشفاق احمد اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند پر مشتمل سائنس دانوں کی ایک ٹیم بلوچستان کے کچھ حصوں کا سروے کرنے کیلئے کوئٹہ پہنچ رہی ہے، ان کے لئے ہیلی کاپٹر اور سکیورٹی کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ اس ٹیم نے ایٹمی تجربات کے لئے زیر زمین سرنگیں کھودنے کیلئے مناسب جگہ کی نشاندہی کرنے کیلئے تین دن کئی کئی گھنٹے‘ بغیر آرام کیے آواران، خضدار اور خاران کا زمینی اور فضائی جائزہ لیا اور بالآخر چاغی کے کوہِ راس میں 185 میٹر بلند گرینائٹ کے پہاڑوں میں جگہ کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر اشفاق کی ٹیم کا دوسرا ٹاسک اس علاقے کا Verticle سروے تھا جس پر ایک سال لگ گیا، اب سرنگ کھودنے کے لئے ایسے پہاڑی سلسلے کا انتخاب درپیش تھا جو کم ازکم 700 فٹ تک بلند پہاڑ ہو کیونکہ 20 کلو ٹن ایٹمی مواد کا دھماکا کیا جانا تھا۔
افواجِ پاکستان کے مایہ ناز انجینئرز 1979ء میں اس مقصد کے لئے 3325 فٹ طویل Fish hook سے مشابہ سرنگ کھودنے میں کامیاب ہو گئے جو 8 فٹ ڈائیا میٹر کی تھی جبکہ خاران میں جو دوسری سرنگ کھودی گئی وہ 200x300 فٹ کی L شکل میں تھی۔ اب یہ سب کام جنرل ضیاء الحق کی نگرانی میں پاک فوج کا ایک ''سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس‘‘ یونٹ کر رہا تھا جس کے ذمہ پہاڑوں میں زیر زمین عمودی اور افقی دو اقسام کی ٹیسٹ سائٹس تیار کرنا تھا، جنہیں صرف سات دن کے نوٹس پر ایٹمی دھماکوں کیلئے استعمال کیا جا سکے‘‘۔ (بحوالہ ڈیفنس نوٹس‘ تحریر: رائے محمد صالح اعظم)
بہت سی باتیں ایسی ہیں‘ جو احاطہ تحریر میں نہیں لا سکتا، وگرنہ وہ بھی آئینے کی صورت میں شہباز شریف کے سامنے رکھ دیتا تاکہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے آئے روز ایٹم بم کی تیاری کے حوالے سے کیے جانے والے بے بنیاد دعووں کے پول کھول سکتا۔ اگر وہ پھر بھی بضد ہیں تو بس اتنا سنتے جائیں کہ مارچ 1984ء میں جب ''آمر اور جمہوریت دشمن جنرل ضیاء الحق‘‘ کی حکومت تھی، پاکستان ایٹمی دھماکوں کا ایک کولڈ ٹیسٹ کر چکا تھا۔
جناب شہباز شریف نے چھ اگست کو آزاد کشمیر اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے حکومتی وزراء کی معیت میں کھڑے ہو کر بھارت کی دلجوئی کی خاطر اپنے مخصوص انداز میں میز پر ہمیشہ کی طرح ایک زبردست مکا مارتے ہوئے کہا کہ ''جادو ٹونے اور لمبی لمبی چھوڑنے سے کشمیر آزاد نہیں ہو تا‘‘ بالکل درست فرمایا ہے کیونکہ 1985ء سے 2018ء تک آپ نے کشمیر کی آزادی کے لئے لمبی لمبی چھوڑنے کے بجائے ہمیشہ کے لئے یہ قصہ تمام کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کو فقط لکیر کا نام دیا۔ آپ نے تو کہہ دیا کہ ہم میں اور ''ان‘‘ میں کوئی فرق ہی نہیں... تو جناب فرق کیوں نہیں؟ ہم گائے کا گوشت کھانے والے ہیں اور وہ گائو موتر پینے والے۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے گائے کا گوشت کھانے والے اور اس کا موتر پینے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved