تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     13-08-2020

مریم نواز اور لیگی سیاست

مریم نواز نے گھر سے باہر قدم رکھا تو سیاست کے جامد پانی میں ارتعاش پیدا ہو گیا۔ قیادت اِسی کا نام ہے۔ مضمحل اور منفعل لوگ، اسی لیے موقع ملنے کے باوجود لیڈر نہیں بن سکتے کہ حرکت کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔
زندگی کی فقہ میں دو ہی مسلک ہیں جو اقبال نے بیان کر دیے:
یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل/یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
نون لیگ ایک جوہڑ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست جمادات و نباتات کا مذہب نہیں۔ یہ رواں پانی کا نام ہے۔ سیاست اصولوں کی ہو یا اقتدار کی، حرکت سے عبارت نہ ہو تو موت ہے۔ سیاست اسی لیے فلسفیوں یا عالموں کا کام نہیں۔ فلسفہ و علم غور و تدبر کا تقاضا کرتے ہیں۔ یوں فلسفی و عالم خلوت کے متلاشی رہتے ہیں۔ سیاست جلوت پسند ہے۔ یہ اسی طبیعت کو سازگار ہے جو عوام میں جیتی ہو۔ اس لیے وہی لوگ سیاست کے لیے موزوں ہوتے ہیں جو مجلس آرا ہوں۔ جو خود بھی حرکت میں رہیں اور دوسروں کو بھی متحرک کر سکیں۔
علامہ اقبال نے اس راز کو پا لیا تھا، صرف شعر کی حد تک نہیں، ایک لائحہ عمل کے طور پربھی۔ چند دن کوچۂ سیاست میں گزارے اور جان لیا کہ وہ اس کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ انہیں کسی متحرک شخصیت کی تلاش رہی۔ یہاں تک کہ اقبال نے محمد علی جناح کو پہچان لیا کہ اُنہوں نے آنے والے وقت میں قائد اعظم بننا ہے۔ یہ فکروعمل کا امتزاج تھا جس نے قیامِ پاکستان کو واقعہ بنا دیا۔ سیاسی تبدیلی کے لیے قیادت کرنا تو دور کی بات، اقبال کے لیے کپڑے تبدیل کرنا ایک آزمائش سے کم نہیں تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ انہوں نے بچپن میں اقبال کو دو بار گھر میں کپڑے بدلتے دیکھا۔ ایک دفعہ عید پر اور ایک اُس وقت جب قائد اعظم ان سے ملنے تشریف لائے۔ عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ایک بنیان اور ایک تہبند میں گزاردیا۔ دوسری طرف، قائد اعظم، دنیا کے سب سے خوش لباس سیاسی رہنماؤں میں شامل تھے۔ فلسفی اور لیڈر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ ایک خلوت پسند، ایک جلوہ آرا۔
شہباز شریف صاحب نے نون لیگ کو جوہڑ میں بدل ڈالا۔ برسوں سیاست میں گزارنے کے باوصف، وہ اس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ سیاست ہمیشہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ سیاست کا فطری راستہ وہی ہے جہاں گلی کوچے ہیں۔ زندان ہیں اور دار و رسن بھی۔ سیاست جب فطری راستے سے ہٹ گئی تو ڈرائنگ روم میں آگئی۔ فیصلے کا حق عوام سے چھین کر خواص کو دے دیا گیا۔ اب اگر کوئی چاہے کہ سیاست کی گاڑی پھر فطری راستے پر چل نکلے تو اسے کانٹا بدلنا ہوگا۔ یہ آسان نہیں۔ ایسے آدمی کوخواص کی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ ووٹ کو عزت اسی وقت ملے گی جب کوئی اس فطری راستے پر چلنے والا راہنما ہو گا۔
بطور منتظم، شہباز شریف صاحب کی خوبیوں کا تذکرہ ہوتا رہے گا تاوقتیکہ پنجاب کو ان سے بہتر حکمران مل جائے۔ بطور وزیر اعلیٰ ان کی دیانت داری کی مثالیں بھی دی جاتی رہیں گی۔ اِس وقت اُن پر زیادہ ترجو مقدمات ہیں، وہ بحیثیت تاجر ہیں۔ بطور منتظمِ اعلیٰ، ان پر کرپشن کا کوئی مقدمہ ثابت نہیں ہوا؛ تاہم لیڈر وہ نہیں بن سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آج بھی سیاست کو ڈرائنگ روم کے تنگنائے میں قید دیکھتے ہیں۔ وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اقتدارکے فیصلے عوام نہیں، خواص کی مجلس میں ہوتے ہیں۔ امرِ واقعہ ہونے کے باوجود ایک لیڈر کویہ قبول نہیں ہونا چاہیے۔
نوازشریف نے اس جوہڑ کو آبِ رواں میں بدلنا چاہا۔ اس کی قیمت ادا کی۔ مریم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور جیل جا پہنچیں۔ جیل سے زبان بندی تک کا سفر بھی اس راہ کی ایک مسافت ہے۔ وہ خاموش ہوئیں تو نون لیگ پھر جوہڑ بننے لگی۔ اس نے نون لیگ ہی میں نہیں، عوام کے وسیع حلقے میں اضطراب پیدا کر دیاکہ ان کے پاس متبادل کیا ہے؟ اِس حکومت سے نجات ملی تو پھر کہاں جائیں؟ اس سوال کا کوئی جواب سیاست کے پاس نہیں تھا۔ مریم نے گھر سے باہر قدم رکھا تو لوگوں کو محسوس ہواکہ انہیں جواب مل سکتا ہے۔ سیاست میں تقابل ہوتا ہے۔ یہ تقابل فرشتوں اور شیطانوں کے مابین نہیں، انسانوں کے درمیان ہے۔ یہاں ترجیح دی جاتی ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ لوگ اب تک نون لیگ ہی کو متبادل قیادت سمجھتے ہیں۔ حکومت کو اِس وقت صرف مریم نواز کا خوف ہے۔ وہ بارہا ثابت کر چکیں کہ عوام ان کے نام پر متحرک ہوتے ہیں اور نون لیگ کے کارکن جوش میں آتے ہیں۔ نوازشریف کی عصبیت ان کو منتقل ہو چکی۔
یہ حکومت کاامتحان ہے۔ خان صاحب کا مزاج جمہوری نہیں ہے۔ وہ اپنے لیے دھرنے اور سول نافرمانی کو بھی جائز سمجھتے ہیں مگر نون لیگ کو احتجاج کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کو سیاست میں جو اصل چیلنج درپیش ہے، اس کا نام مریم نواز ہے۔ اس لیے اس بات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ان کے باب میں جمہوری اصولوں سے وابستگی کا مظاہرہ کریں گے۔ وہ سختی کرنا چاہیں گے، اس مفروضے کی بنیاد پر کہ نون لیگ میں احتجاج کی صلاحیت نہیں۔ حکومتیں اسی غلط فہمی میں ماری جاتی ہیں۔ سیاسی حرکیات سے ناواقف مشیر بھی یہی مشورہ دیں گے۔ اگر مریم نواز نے متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا تو میرا تجزیہ ہے کہ سختی حکومت کیلئے خودکشی ہوگی۔
سیاسی کارکنوں کو فسادی قرار دینے کی بات بھی ہونے لگی ہے۔ یہ فسطائی سوچ کا اظہار ہے۔ ہماری سیاست ابھی آداب کے سانچے میں نہیں ڈھلی۔ احتجاج ہمارے ہاں اسی طرح ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے طاہرالقادری صاحب کے دھرنے کو گوارا کیا۔ نوازشریف حکومت نے عمران خان کے دھرنے کو مہینوں برداشت کیا۔ عمران حکومت نے بھی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ نرمی کامعاملہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتیں وہی کامیاب ہوتی ہیں جو سیاسی مخالفین کے لیے اپنا ظرف بڑا رکھتی ہیں۔ سیاسی مخالفین کی زبان بندی یا ان کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنا فسطائیت ہے اور اس کا انجام بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔
کہا جاتا ہے‘ شہباز شریف اب ایک اور محاذ پر متحرک ہیں۔ یہ سفارتکاری اور رابطوں کا محاذ ہے۔ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے راہنماؤں کے ساتھ انہوں نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ چین اور ترکی کے سفرا سے ملاقاتیں کیں۔ کیا مریم نواز اور شہباز شریف کا تحرک ایک ہی حکمتِ عملی کے دو حصے ہیں؟ میں نہیں جانتا‘ لیکن اگر ایسا ہے تویہ نون لیگ کیلئے نیک شگون ہوگا۔
نوازشریف کابیانیہ اورشہباز شریف کی سیاست، کیاایک ساتھ چل سکتے ہیں؟ آج نون لیگ کو اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔ طے ہے کہ بطور سیاسی جماعت انہیں عوامی سطح پر متحرک ہونا ہوگا۔ اس وقت نون لیگ کو چاہیے کہ اس کی قیادت مریم نواز کے حوالے کریں اور ان کی سرپرستی کیلئے مجلسِ بزرگان (Board of Elders) بنادیں۔ اس میں نوازشریف، شہبازشریف، راجہ ظفرالحق، مہتاب عباسی، پرویز رشید اور چند دوسری شخصیات ہوں۔ مریم کی سربراہی میں ایک متحرک ٹیم کام کرے جس میں رانا ثنااللہ، احسن اقبال، سعدرفیق، حمزہ شریف جیسے سیاسی رہنما ہوں۔
سیاست اگر متحرک ہو گی اس کا ایک اور فائدہ سیاسی عمل کی تطہیر کی صورت میں سامنے آئے گا۔ آزاد میڈیا اور سیاسی سرگرمیوں میں عوام کی شرکت اصلاح اور ارتقا کو آسان اور ممکن بنا دے گی۔ سیاسی عمل کو روکنے سے سیاست جوہڑ میں بدل جاتی ہے جس طرح نون لیگ کی سیاست غیرمتحرک ہونے سے جوہڑ بن رہی ہے۔ مریم نواز نے اس جوہڑ میں پتھر پھینکا ہے۔ اسے آبِ رواں میں بدلنے کے لیے اسے ایک مسلسل عمل میں بدلنا ہوگا۔ یہ تحرک اور تسلسل ہی زندگی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ تکبیرِ مسلسل ہی مردانِ خود آگاہ و خدا مست کا مذہب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved