یہ ساون کا مہینہ ہے جب ہر طرف بارش نے ڈیرے جما رکھے ہوتے ہیں‘ کہیں رم جھم تو کہیں موسلادھار۔ جیٹھ اور ہاڑ میں تو مٹی سوکھی اور پیڑ ایسے لگتے ہیں‘ جیسے برسوں سے پانی کو ترس رہے ہوں۔ دھوپ اتنی شدید ہوتی ہے کہ سورج چڑھتے ہی پودوں اور درختوں کے پتے کملا جاتے ہیں۔ سارا دن نڈھال رہتے ہیں۔ شام ڈھلنے پہ کچھ ہوش آتا ہے تو صبح تک دم لینے کی سکت پیدا کر لیتے ہیں۔ اور پودے ہی کیا‘ چرند پرند‘ انسان سبھی تیز دھوپ سے بچتے پھرتے ہیں۔ پاکستان کے موسم بھی کمال کے ہیں کہ گرمیاں شروع ہو جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ شاید جاڑا یہاں کبھی آتا ہی نہیں اور جب جاڑے ٹھنڈ کو ہڈیوں میں اتار دینے والی یخ بستہ ہوائوں کی لپیٹ میں ہوتے ہیں تو تب بھی لمبی راتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ دل یہ چاہتا ہے کہ جلدی سے صبح ہو جائے اور دھوپ سینک کر جسم کو کچھ حرارت پہنچائی جائے۔ سردیوں سے پہلے پت جھڑ کا مختصر دور آتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں پوٹھوہار سے لے کر گلگت بلتستان اور کشمیر تک درختوں کی بہت سی قسمیں رنگ تبدیل کرتی ہیں‘ گلابی‘ بھورے‘ پیلے اور خاکی۔ شمال میں تو سنا ہے کہ پت جھڑ کسی بہار سے بھی زیادہ خوبصورت نظارے پیش کرتا ہے۔ ہر طرف رنگ ہی رنگ نظر آتے ہیں‘ جو شدید سردیوں کی آمد سے پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔ پھر یہی رنگ شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی صورت خاک میں مل جاتے ہیں اور اگلے موسمِ بہار کے لئے زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں لوگوں کو بہت سی شکایات ہیں۔ جس کو دیکھو شکایتوں کی بھاری ٹوکری سر پر اٹھائے بوجھل قدموں کے ساتھ گھومتا پھرتا نظر آتا ہے۔ ان میں سے کچھ کو یہ بھی شکایت ہے کہ بہار کچھ زیادہ دیر نہیں ٹکتی۔ جلتے سورج اور شدت اختیار کرتی دھوپ کی تمازت میں جلد رخصت ہو جاتی ہے۔ اِدھر آئی‘ اُدھر گئی والا معاملہ ہوتا ہے۔ کس کی خواہش نہیں کہ ہمیشہ بہاریں ہوں‘ رنگ ہوں اور ان کے درمیان زندگی کی گاڑی اپنی رفتار سے چلتی رہے۔ بہاریں آتی تو ہیں‘ اور جلد کچھ علاقوں سے رخت سفر باندھ لیتی ہیں تو پھر ان میں آدمی بس کھو ہی جائے کہ کوئی لمحہ ضائع نہ جائے۔ سارے خوبصورت لمحوں اور سارے شوخ رنگوں کو آنکھوں میں بھر لیا جائے‘ لیکن شکایتوں کے بوجھ میں دبے انسانوں کو شاید وہ فرصت کے لمحے‘ وہ انہماک اور کچھ خود سوزی نصیب نہ ہو سکے کہ وہ بہار کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
بادِ بہار ریگستانوں اور چٹیل میدانوں میں سے گزر کر ہر ذی روح کو شاد تو ضرور کرتی ہے‘ مگر جہاں درخت‘ سبزہ‘ جھاڑیاں اور جنگلات نہ ہوں‘ وہاں زندگی گزر تو جاتی ہے‘ لیکن ظاہر ہے کہ خوشی سے نہیں‘ آسانی سے نہیں‘ بوجھل بوجھل۔ درخت نہ ہوں تو بہار کیسی؟ اور درخت نہ لگائیں تو پھر بہار کی امیدیں کیونکر باندھیں۔ درخت ہیں تو بہار ہے۔ فطرت کے رنگ دیکھنے ہوں یا فطرت کے ساتھ ہم آہنگی مقصود ہو تو کبھی درختوں کے کسی جھنڈ میں‘ کسی جنگل میں یا کسی باغ میں کچھ وقت گزار کر دیکھ لیں‘ ذہن سے ہر طرح کا بوجھ اتر جائے گا‘ روح میں تازگی‘ طبیعت میں بشاشت اور آنکھوں میں تراوت نمایاں ہو گی۔ بحث کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی بضد ہو تو اپنی مقامی تاریخ‘ ثقافت اور روایات سے پہاڑوں سے بھی بلند ثبوت پیش کر سکتا ہوں کہ ہم جنگلات میں رہتے تھے اور وہی جنگلات انسانوں کی آبادیوں‘ چرند پرند اور مال مویشیوں کی کفالت کرتے تھے۔ رہن سہن کے طریقے قبائلی تھے‘ مگر اپنے طور پر اور اس وقت کی زندگی کے معیار کے مطابق ہمارے آبائواجداد صحت مند‘ خوش حال اور آج کے دور کی فکرمندیوں سے مکمل آزاد زندگیاں بسر کرتے تھے‘ قدرت کی رعنائیوں کے قریب‘ فطرت کی تقاضوں کے مطابق؛ البتہ ہر دور کے اپنے مسائل ہوتے ہیں‘ اور کسی بھی دور میں انسان ان سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکا۔
ہمارے انگریز بادشاہ آئے تو انہوں نے حکم دیا کہ کاٹو یہ سب جنگلات‘ کیوں زرخیز زمینوں کو خالی رکھا ہوا ہے۔ جدید زراعت کی طرف آئو‘ ترقی کرو۔ مقصد مقامی آبادی کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ سامرانی لوٹ کھسوٹ تھا۔ نہریں کھدوائیں گئیں‘ جنگل‘ درخت ختم کئے گئے اور سامراجی معیشت کے لئے اناج اور دیگر اجناس پیدا ہونے لگیں۔ انگریز نے اپنی منصوبہ بندی میں کچھ حصہ جنگلات میں چھوڑا اور کچھ زمینوں کو مقامی آبادی کی ملکیت قرار دیا تاکہ وہ چراگاہیں رہیں اور سوختن لکڑی کا ذریعہ بھی ہوں۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر جنگلات انگریز حکومت کے دور سے چلے آ رہے ہیں‘ مگر آزادی کے بعد ہم ایسے آزاد ہوئے کہ بس جس کا بس چلا‘ اس نے قیمتی لکڑی کو کاٹ کر بازار میں بیچا‘ اور خود بھی بے دریغ استعمال کیا۔ یوں جنگلات کی تباہی کا آغاز ہوا۔ اگر اس زمانے میں آپ نے لاہور اور ملتان کے درمیان ٹرین کا سفر کیا ہے تو آپ کو یاد ہو گا کہ جب خانیوال سے گزرتے تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پتا دیتے تھے کہ اب ہم اس علاقے سے گزر رہے ہیں۔ قومی املاک کی تباہی ایسے ہی نہیں ہوتی۔ نظام بگاڑا جاتا ہے کہ کرپٹ حکمرانوں اور افسروں کے لئے لوٹ کھسوٹ کی گنجائش پیدا کی جائے۔ جنگلات کے معاملات میں تو جو اس کے مقامی رکھوالے تھے‘ اور افسرانِ بالا سب مل کر کھا گئے۔
کپتان نے درخت لگانے‘ جنگلات اگانے‘ ان کے تحفظ‘ ان کی بحالی اور ماحول کو کثافت سے بچانے کے لئے جو تحریک اقتدار میں آنے سے پہلے شروع کی تھی‘ اس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پہلی حکومت کے دوران ایک ارب درخت لگانے کا صرف منصوبہ یا ماضی کی طرح محض کاغذی کارروائی نہ تھی بلکہ اس کی تصدیق عالمی ادارے بھی کر رہے ہیں کہ یہ کارنامہ سرانجام دیا گیا۔ موسم اس کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ بہت اعلیٰ حکمتِ عملی تھی کہ مقامی آبادیوں کو نرسریاں اگانے کی ترغیب دی جائے اور انہی میں سے لگائے گئے درختوں کے راکھے مقرر کئے جائیں۔ خیبر پختونخوا کے کامیاب تجربے کے بعد اب گزشتہ دو برسوں سے یہ عمل پنجاب میں بھی جاری ہے۔ چھانگا مانگا جو کئی دہائیوں سے سیاسی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا‘ اب سنا ہے کہ بہت زیادہ رقبے پر پھیل چکا ہے۔ ایک جنگل کا اپنے ہی ضلع میں مشاہدہ کیا کہ وہ سڑک پر واقع ہے‘ اور وہاں ہزاروں نئے درخت تیزی سے بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ سفیدے کے درخت دیکھ کر کچھ دکھ ہوا‘ سوچا ان کو لگانے کی کیا ضرورت تھی‘ مگر دور سے بیری کے درختوں کے جھنڈ نظر آئے تو احساس ہوا کہ دیسی اور مقامی درخت بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اس مرتبہ شجر کاری کا جس انداز میں کپتان نے آغاز کیا‘ اس سے پاکستان کو اور ایک مرتبہ پھر سے اپنے علاقوں کو سرسبز دیکھنے کے خواہش مندوں کے دلوں میں امید پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے کہ ہم شہروں‘ دیہاتوں اور ہر خالی جگہ پر درخت لگا سکتے ہیں۔ یہ بھی مشاہدہ ہے کہ سیاسی وفاداریوں سے بالا‘ ہر خیال کے پاکستانی اور ہر عمر کے لوگ شجر کاری میں مصروف ہیں۔ یہ تو ایسا شغل ہے کہ اگر انسان اس میں پڑ جائے تو پھر اسے عشق ہی سمجھیں کہ اس سے رہائی ممکن ہی نہیں ہوتی‘ اور ہو بھی کیونکر‘ درخت ہوں گے تو بہاریں ہوں گی‘ رنگ بکھریں گے‘ تروتازگی ہو گی۔
حکومت کا یہ فیصلہ بھی قابلِ تحسین ہے کہ وسیع رقبوں پر قومی پارک بنائے جائیں۔ لاکھوں ایکڑ زمین پر یہ پارک بنا کر جنگلات کا چھاتہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ جو پہلے سے موجود ہیں ان کو قبضہ مافیا سے بچانا ہر شہری اور حکومت کے ہر ادارے کا فرض ہے کیونکہ لالچ کے مارے کسی نہ کسی بہانے ہماری اور آنے والی نسلوں کی بہاریں‘ رنگ‘ امیدیں اور خوشیاں چرانے کے درپے ہیں۔