شاید یہ کہانی کوئی قلم کار کبھی لکّھے۔ حیرتوں کے ہزار جہان اس پر طلوع ہوں گے۔ ان حیرتوں کو وہ مجسّم کر سکا تو کیا عجب ہے کہ صدیوں تک یہ تصویر باقی رہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی داستانِ حیات عجیب ہے۔ ہر آدمی کی ایک کہانی ہوتی ہے۔ کوئی نکتہ شناس مل سکے تو لکھی اور بیان کی جا سکتی ہے۔ انگلیوں کے نشانات‘ چہروں اور آوازوں کی طرح آدم کے ہر فرزند کی حیات دوسروں سے جدا ہوتی ہے۔ خالقِ کائنات نے زندگی کو بے حساب تنوع میں پیدا کیا اور ہمیشہ وہ ایسی ہی رہے گی۔ کچھ لوگ مگر زیادہ کڑے امتحان سے گزارے جاتے ہیں اور ا س طرح کہ زمین ہی نہیں‘ آسمان بھی نامہرباں نظر آتا ہے۔ آخر کو مگر سبھی کے ساتھ انصاف کیا جاتا ہے۔ کوئی ساعت رائیگاں ہے اور نہ بدقسمتی نام کی کوئی چیز۔ یہ اندازِ فکر و نظر کی بات ہے اور یہ بھید کم ہی لوگوں پر کھلتا ہے۔ کھل جائے تو راستے کچھ روشن سے ہو جاتے ہیں اور ایک قرار سا پھوٹنے لگتا ہے۔ 1991ء کے موسم بہار کی وہ صبحیں اور شامیں تمام تر تفصیلات کے ساتھ حافظے پر نقش ہیں‘ جب میرے محترم دوست گلبدین حکمت یار نو ہزار فٹ کی بلندی پر پاک افغان سرحد پر اپنے دفتر میں لے گئے‘ کچّے کمرے! تین دن تک مسلسل میں ان سے گفتگو کرتا رہا‘ جس کے بعض حصّے اب بھی لکھے نہیں جا سکے۔ ایک امتحان کے بعد دوسرا امتحان اور دوسرے کے بعد تیسرا۔ دریائے آمو کے کنارے ’’امام صاحب‘‘ نام کے قصبے میں ایک خانہ بدوش خاندان کے فرزند نے آنکھ کھولی تو زمانہ ایک سفاک بھیڑیے کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس بھیڑیے کے منہ میں اس نے ہاتھ ڈالے اور نبرد آزما ہوا۔ آج تک یہ جنگ جاری ہے۔ پے در پے حادثات‘ بے وفائی اور غداری کے سانحے۔ یا للعجب‘ مگر اسی ہولناکی میں جواں ہمت باغی نے آزمائش کو مشغلہ بنا ڈالا۔ رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں افغانستان کی خوں ریز جنگ میں حکمت یار کا کبھی ایک مرکزی کردار تھا۔ اب بھی کچھ کم نہیں۔ شاید جنگجو کی آخری سانس تک جاری رہے۔ ایران کا کئی سالہ قیام بھی امتحان ہی رہا۔ ان کے ایک عزیز نے اس کشاکش کے چند واقعات کبھی سنائے تھے‘ جو پناہ دینے والوں اور ہجرت کے مہ و سال بتانے والے کے درمیان رفاقت کے باوصف جاری رہی۔ جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں وہ جو زہر خند سلام تھے‘ مجھے کھا گئے گلبدین حکمت یار سے پوچھا گیا تھا: کیا آپ امام خمینی کے راستے پر ہیں؟ ان کا جواب یہ تھا: امام اور میں دونوں اسلام کے راستے پہ ہیں۔ جنرل کیانی کی کہانی بالکل ہی مختلف ہے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے حکمت یار کے باطن کا باغی سنبھالے نہ سنبھلتا تھا۔ جواں سال محمد اشفاق پرویز ایک باوقار ملازمت کے سوا‘ ریاضت سے‘ جہاں آدمی ترقی کا زینہ طے کرتا رہے‘ کسی اور چیز کے آرزو مند ہرگز نہ تھے۔ شان و شوکت کے تو قطعی نہیں۔ پھر مگر حادثہ ہوا اور حادثہ بھی ایسا کہ پائوں کے نیچے زمین اور سر پہ آسمان نہ رہا۔ خورشید میں نے نصفِ نہارِ شباب پر کھولی جو آنکھ‘ بُرجِ کہولت میں آ گیا اپنے چار بھائیوں کی ذمہ داری پاک فوج کے اس کپتان پر آ پڑی۔ مختصر سی تنخواہ کے سوا‘ جس کا کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا۔ اس ایک واقعے نے زندگی کا رخ متعین کیا اور ہمیشہ کے لیے کرڈالا۔ بقا کی وہ قدیم اور طاقتور انسانی جبلت اب عجیب انداز سے بروئے کار آئی۔ زندگی اس کے تقاضوں میں ڈھلنے لگی اور ڈھلتی گئی۔ بعض اعتبار سے وہ ابھی تک کیپٹن کیانی ہیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ ہمہ وقت اپنے ماضی کے ساتھ وہ جیتے ہیں اور خیال و فکر کی دنیا میں بھی اس سے جدا نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی کا ایک ادھورا سا مطالعہ کرنے والے طالب علم کی حیثیت سے میرا احساس یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کے احساس کو انہیں خیرباد کہہ دینا چاہیے۔ عمر بھر کی تشنگی کے غم سے بڑھ کے ہے یہ غم میرے حصّے میں جو آیا وہ سبو میرا نہ تھا ذاتی زندگی میں مداخلت اگر جرم نہیں تو کمال بدذوقی ضرور ہے۔ کبھی مگر جسارت کرنا پڑتی ہے۔ تھوڑی سی معلومات اور معلومات سے زیادہ ان لوگوں کے عزائم کے ادراک کی بنا پر‘ جو کبھی پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے‘ ایک مشورے کی گستاخی! دو ماہ ہوتے ہیں‘ ٹی وی کے ایک پروگرام میں‘ جو میرے خیال میں موزوں تھا۔ میزبان قومی سلامتی کے تقاضوں کا شعور رکھتے ہیں‘ ایک گزارش کی تھی: سبکدوشی سے قبل‘ اب میں کبھی جنرل صاحب کا وقت ضائع نہ کروں گا۔ اس کے اسباب تھے اور جنرل کیانی ان کا تعیّن کر سکتے ہیں۔ حاسدوں کی نہیں‘ میں سازشیوں کی بات کر رہا ہوں کہ حسد تو ہر صاحبِ نعمت کے حصّے میں آتا ہے۔ رفتہ رفتہ ہم ان کے عادی ہو جاتے ہیں‘ جن کا ذہنی اور اخلاقی افلاس عمر بھر انہیں ماتم کناں رکھتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے اور اس اندیشے کے شواہد ہیں کہ جنرل کی کمائی برباد کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ جو ان کے غیر معمولی صبر کا ثمر ہے۔ اس نیک نامی کو تحلیل کرنے کی تمنا جو تھڑ دلوں کو ہراساں کرتی ہے‘ بغض و عناد کے سوا جو کوئی اثاثہ نہیں رکھتے۔ حاسد ہزار قسم کے ہوتے ہیں اور کشکول بردار بھی۔ ایسے بھی جسے نادر العصر اقبالؔ کی آنکھ ہی پہچان سکی۔ میکدے میں ایک دن‘ اک رندِ زیرک نے کہا ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے رنگیں قبا اس کے آب لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے‘ اس کی کیمیا اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی دینے والا کون ہے؟ مرد غریب و بے نوا جنرل کیانی جانتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت کے باب میں کب کب انہوں نے کیا فیصلہ کیا؟ وہ پتھرسا جنرل پیٹریاس‘ زعم کی ماری ہیلری کلنٹن اور عناد پالنے والے جنرل مائیکل ملن کے ساتھ اپنی گفتگوئیں‘ ظاہر ہے کہ خوب انہیں یاد ہوں گی۔ حافظہ ان کا اچھا ہے۔ یادداشت مگر طرزِ احساس کے تابع ہوا کرتی ہے۔ گاہے اپنی پسند کو وہ یاد رکھتی اور کبھی ناخوشگوار کو طاقِ فراموشی پہ آویزاں کرنے کی کوشش کیا کرتی ہے۔وہ انہیں ہرگز معاف نہ کریں گے ، جو پاکستان اور اس کے نتیجے میں افواج پاکستان کے دشمن ہیں۔کوئی اور جانے یا نہ جانے ، مسلح افواج کے سربراہ ان دانشوروں اور انسانی حقوق کے ان پاسبانوں کو ضرور پہچانتے ہوں گے، جو دہلی اور دبئی ، کابل اور لندن ، واشنگٹن اور نیویارک میں داد وصول کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے ترقی کے مرحلے اس تیزی سے طے کئے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ غلام وہ ہوتے ہیں جو آقائوں کی خوشنودی کے لیے کچھ بھی کرگزریں۔ خریدے ہوئے آدمی کا رزق پستی اور دلدل میں ہوتا ہے‘ خود وہ اس میں بستا اور دوسروں کو اسی میں گھسیٹ لانے کی کوشش کرتا ہے۔ تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں سبکدوشی کا وقت آئے تو‘ کسی طرح کی کوئی بھی پیشکش انہیں قبول نہ کرنی چاہیے۔ فرصت پا لیں تو انشاء اللہ امکانات کے ہزار دروازے ان پر کھلیں گے۔ ایک کتاب انہیں لکھنی چاہیے ، پھر دوسری اور تیسری۔پاک امریکہ تعلقات کا رازدار ان سے زیادہ کوئی نہیں ، کتنے صدور ، وزرائے خارجہ ، جنرلوں اور سی آئی اے کے سربراہوں کو انہوں نے نمٹایاہے ۔ایک کتاب پاک بھارت مراسم کے پس منظر میں اور اگر اللہ توفیق دے تو ایک خود پاک فوج کی تشکیل و تعمیر اور انداز کار کے باب میں۔ عوام ہی نہیں‘ دانشوروں کی اکثریت بھی اس ادارے کی حقیقت سے بے خبر ہے۔ آدمی اپنا جج نہیں ہوتا، لوگ خود کو بڑھا بڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ کچھ دوسرے اپنی صلاحیت کا ادراک نہیں کرپاتے‘ حتیٰ کہ انکسار کم مائیگی کا احساس بننے لگتا ہے ۔پھر ایک وقت آتا ہے کہ ہزار سمت بکھری حیات آئینے کی طرح مقابل آن کھڑی ہوتی ہے اور فیصلہ صادر ہوجاتا ہے۔اللہ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔گمان یہ ہے کہ جنرل کے لیے وہ وقت آیا چاہتا ہے ، روشنی کا پیامبر! اللہ کے قانون عجیب ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ حیات بالآخر اپنا قرض ادا کر دیتی ہے اور دامن بھردیتی ہے۔ وہ آفتاب مطلع پر ابھرتے ہیں ، جو ان دیکھے اور فراموش رہے‘ حتیٰ کہ آسودہ باطن پکار اٹھتا ہے ؎ ہم سہل طلب کون سے فرہاد ہیں لیکن اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے شاید یہ کہانی کوئی قلم کار کبھی لکّھے۔ حیرتوں کے ہزار جہان اس پر طلوع ہوں گے۔ ان حیرتوں کو وہ مجسّم کر سکا تو کیا عجب ہے کہ صدیوں تک یہ تصویر باقی رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved