ساون حبس لے کر آتا ہے۔ ایسا حبس اور ایسی گھٹن کہ سانس لینا محال لگتا ہے۔ ملکی سیاست میں اپوزیشن بھی ایک عرصہ سے گھٹن کا شکار تھی‘ لیکن پھر مریم نواز کی نیب میں آمد کے موقع پر متوالے سیاسی گھٹن کے مقابلے کے لیے یوں نکلے کہ منظر ہی بدلتا نظر آیا۔ نیب کے دفتر کے باہر ہنگامے کے بعد مریم نواز کی للکار اور پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس میں حکومت کے خلاف چارج شیٹ تبدیلی کے دور میں ایسا منظر تھا جس نے بہت سوں کو حیران کر دیا۔ مریم نواز کی تقریروں اور پریس کانفرنسز کو سینسر کی حد تک احتیاط کے ساتھ نشر کرنے والے چینلز بھی اس نئے منظر سے اس قدر حیران ہوئے کہ مریم کی تقریر نما پریس کانفرنس دکھاتے ہوئے خود اختیاری سینسر شپ بھی بھول گئے۔ یوں لگا‘ جن کے ڈر سے خود اختیاری سینسر شپ اپنائی گئی تھی، انہوں نے بھی اس منظر کو براہ راست دکھانے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ''خاموش‘‘ تائید کی۔ مریم نواز کی تقریر کی گھن گرج نے ساون کے بادلوں کی کڑک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ پنجاب حکومت کے ترجمان جوابی پریس کانفرنس کے لیے طویل انتظار پر مجبور ہوئے اور مریم نواز کی پریس کانفرنس کو روک کر حکومتی پریس کانفرنس چلوانے کا اہتمام بھی نہ ہوا۔
اچانک کیا ہوا کہ مسلسل چپ سادھ کر منظر سے گم رہنے والی مسلم لیگ نواز کی ساری قیادت نا صرف سامنے آ گئی بلکہ جی ٹی روڈ والا بیانیہ بھی جھاڑ پونچھ کر دوبارہ لے آئی۔ اس سوال کا جواب تو فوری طور پر شاید کسی کے پاس بھی نہیں‘ لیکن پس پردہ سرگرمیاں آہستہ آہستہ سامنے ضرور آئیں گی۔ نیب کے دفتر کے باہر جو کچھ بھی ہوا اس سے مریم نواز ایک بار پھر مسلم لیگ نواز کے ووٹر کی امید بن گئیں۔ مریم نواز جو بیانیہ لے کر چل رہی ہیں‘ ان کے چچا میاں شہباز شریف اس سے ایک سو اسی ڈگری زاویے پر ہیں۔ ایک رپورٹر نے مریم نواز سے جب سوال کیا کہ کیا پارٹی کے دونوں کیمپ ان کے بیانیے سے متفق ہیں؟ تو ان کا واضح جواب تھا کہ میاں محمد نواز شریف کی رائے کے ساتھ سب متفق ہیں یعنی جو بیانیہ ان کا ہے وہی ان کے والد کا ہے اور پارٹی نواز شریف کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کا بے حد احترام کرتے ہیں لیکن جس بیانیے کی وجہ سے میاں صاحب جیل پہنچے اس پر کمپرومائز کرکے ہی وہ لندن میں بیٹھے ہیں۔ اس دوران آرمی ایکٹ، بجٹ اور ایف اے ٹی ایف بل پر حکومت سے بے لوث تعاون ن لیگ کے اندر اور باہر بہت سے سوال کھڑے کرچکا تھا۔ اب پارٹی کارکن مایوس ہونے لگے تو ایک بار پھر مریم نواز حکومت کو چارج شیٹ کرتی نظر آئیں، اس بار کی گھن گرج کے پیچھے نظریات ہیں یا پھر ووٹر اور ناقدین کے لیے فریب نظر؟ سیاست کے بازار میں کبھی بھی کچھ بھی ممکن ہے۔ رائٹ انڈیکیٹر دے کر لیفٹ مڑ جانے کے روایت پرانی ہے اور اگر ن لیگ کی پچھلی دو سال کی سیاست دیکھیں تو گڈ رائٹ اور ویل لیفٹ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاست کا محور و مرکز پنجاب کی سیاست ہے۔ حکومت، اتحادی، اپوزیشن سب پنجاب کی سیاست بچانے میں مصروف ہیں کیونکہ آنے والا بلدیاتی معرکہ، 2023ء کے الیکشن کی گیم سیٹ کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس وقت حکومت‘ اور یہاں حکومت سے مراد کپتان ہیں، کی مشکل یہ ہے کہ وہ بزدار صاحب سے کام چلانا چاہتے ہیں جبکہ پنجاب پرفارمنس کا متقاضی ہے۔ ایک ایسا سپہ سالار جو سب کو کنٹرول کر سکے اور پنجاب کے بلدیاتی انتخاب کا معرکہ سر کر سکتا ہو۔ تحریک انصاف میں علیم خان، میاں اسلم اقبال، اتحادیوں میں پرویز الٰہی اور راجہ بشارت تجربہ کار کھلاڑی ہیں لیکن وہ اس معرکے کو جیتنے کی حقیقی کوشش کیوں کریں گے؟ ایسی کسی بھی کامیابی کا کریڈٹ تو عثمان بزدار کو جائے گا، انہیں کیا ملے گا؟ یہی وہ سوال ہے جو پارٹی اورحکومتی اتحاد کے اندر تجربہ کار کھلاڑیوں کو درپیش ہے۔ اسی لیے معمول کا تعاون تو ہو رہا ہے لیکن کسی بڑی گیم کیلئے پنجاب میں کپتان کی تبدیلی کیلئے دباؤ ہے۔ عثمان بزدار صاحب کو نہ ہٹائے جانے میں بھی اپوزیشن اور کپتان کے اتحادی خود رکاوٹ ہیں۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ پنجاب میں یہی حالات رہیں اور اس کارکردگی کی بنیاد پر تحریک انصاف اگلا معرکہ لڑے۔ اتحادی اور پارٹی ارکان عثمان بزدار صاحب کے متبادل پر متفق نہیں ہو پا رہے کیونکہ بزدار کے جانے کی صورت میں ہر اہم کھلاڑی خود اس عہدے کا دعویدار ہے۔ جب بھی کوئی نام سامنے آتا ہے تو جماعت میں اس پر اعتراضات اٹھ جاتے ہیں اور ایسی صورت میں کہا جاتا ہے کہ عثمان بزدار کو ہی چلنے دیا جائے۔ جماعت کے اندر عثمان بزدار کے کسی بھی متبادل سے پوچھا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کسے بنائیں، وہ کہتا ہے: مجھے بنا دیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کے علاوہ کون، تو وہ کہتا ہے کہ کوئی نہیں، پھر تو عثمان بزدار ہی ٹھیک ہیں۔ مقتدر حلقے بھی وسیم اکرم پلس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں‘ اور ان کا خدشہ ہے کہ عثمان بزدار اگر باقی ماندہ مدت میں بھی وزیر اعلیٰ رہے اور یہی کارکردگی رہی تو تین سال بعد ن لیگ پھر پنجاب سے سویپ کر سکتی ہے۔
ہر سیاستدان چاہتا ہے کہ وہ اپنے حلقے میں خود ترقیاتی کام کروائے تاکہ اس کا سیاسی اثر و رسوخ قائم رہے؛ تاہم پنجاب کے کئی علاقوں میں ایسا نہیں ہو رہا اور خصوصاً جنوبی پنجاب میں ایسا نہیں ہو رہا‘ کیونکہ خود وزیر اعلیٰ کا تعلق اس علاقے سے ہے اور وزیر اعلیٰ کی خواہش ہے کہ ہر طرف ان کا ہی جلوہ ہو۔ رواں برس ہی تحریک انصاف کے چند ارکان صوبائی اسمبلی نے کھلے عام ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے شکوہ کیا تھاکہ پنجاب حکومت ان کے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز فراہم نہیں کر رہی۔ کئی ارکان نے اس رکاوٹ کا ذمہ دار وزیر اعلیٰ کو قرار دیا تھا۔ لیہ سے تعلق رکھنے والے سردار شہاب الدین اس ناراض گروپ کے سرکردہ رکن تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ ان سمیت تقریباً 20 ارکان صوبائی اسمبلی نے پارٹی قیادت سے تحفظات کا اظہار کیا تھا؛ تاہم اب ان کے تحفظات ختم ہو چکے ہیں لیکن واقفان حال کے مطابق اب بھی تحریک انصاف کے 15 سے 20 ایسے ارکان اسمبلی کے تحفظات برقرار ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر ایک بہت مضبوط رائے یہ بن رہی ہے کہ نصف مدت پوری ہوچکی، دوبارہ انتخابی میدان لگا تو ووٹر کو کیا بتائیں گے کہ سب سے بڑے صوبے میں ان کی کارکردگی کیا رہی۔ اس لئے پی ٹی آئی نے اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔
اس سارے منظرنامے میں پیپلز پارٹی کہیں دور بیٹھی اندازہ لگانے کی کوشش کررہی ہے کہ اس گھمسان کے رن میں وہ اپنے کمزور گھوڑوں اور ترکش کے ٹوٹے تیروں کے ساتھ کیسے اترے کیونکہ سینیٹ میں میچ فکسنگ اور اپنے والد آصف علی زرداری اور پھوپھو فریال تالپور کو نیب کی پہنچ سے دور رکھنے کی کوشش میں بلاول بھٹو زرداری نے وہ سب کیا جو ان کی سیاسی اٹھان کے لیے نقصان دہ تھا۔ اس صورتحال سے شاید سندھ تو اس قدر متاثر نہیں ہوا لیکن پنجاب میں بلاول کی پذیرائی کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ بلاول اپنے انہی دو قریبی رشتے داروں کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں۔ اس طرح پنجاب کا معرکہ اب ایک بار پھر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان نظر آرہا ہے جس میں عوامی رائے عامہ ن لیگ کے ساتھ جا رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن ریلوکٹے جیسی محسوس ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نے بروقت بڑے سیاسی فیصلے اور ان پر عمل درآمد کر لیا تو شاید تلافی کر پائے گی۔