کورونا لاک ڈائون کے دوران جب کاروبار بند ہوگئے، تعلیمی اداروں اور دفاتر کو تالے لگ گئے، فیکٹریاں بند ہو گئیں، ٹرانسپورٹ رک گئی، غریب دیہاڑی دار مزدور بیروزگار ہوکر گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہو گئے تو انہیں اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے ساتھ مکان کا کرایہ دینے اور گیس و بجلی کے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کے لالے پڑ گئے۔ تب وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ تین ماہ تک بجلی کے بل معاف کئے جا رہے ہیں۔ اس اعلان نے پریشان حال عام آدمی کے زخموں پر مرہم کاکام کیا لیکن اس وقت یہ ساری خوش فہمی دور ہو گئی جب معلوم ہوا کہ حکومت گھریلو بجلی کے بل معاف نہیں کر رہی بلکہ صرف کمرشل بل معاف کئے جا رہے ہیں اور پھر گزشتہ ماہ سے تو وہ خوش فہمیاں بھی دور ہو گئیں جو اس وقت تک برقرار تھیں جب پتا چلا کہ گھریلو بل تین سے چارگنا زائد بھیجے جا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کورونا لاک ڈائون نے سب سے زیادہ غریب اور سفید پوش طبقے کو متاثر کیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سفید پوش طبقے میں کوئی بڑا تاجر یا صنعت کار شامل نہیں‘ جنہیں بجلی کے بلوں میں تین ماہ کا ریلیف دیاگیا‘ زیادہ تر گھروں میں بیٹھے وہ بیروزگار اور دیہاڑی دار مزدور تھے جنہیں لاک ڈائون کی وجہ سے کئی ماہ گھروں میں بیٹھنا پڑا، لیکن پالیسی سازوں کوکون سمجھائے ۔
بتایا جا رہا ہے کہ جس گھر کا بجلی کا بل لاک ڈائون سے پہلے ایک سے دو ہزار روپے تک آتا تھا، گزشتہ ماہ سے اسے نو سے دس ہزار روپے تک کا بل بھیجا جا رہا ہے۔ ایک عام گھر جس میں کوئی ایئرکنڈیشنر نہیں اور صرف دو سے تین پنکھے چلتے ہیں‘ پہلے گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ دو سے تین ہزار روپے بل آتا تھا، اب وہاں بھی کم از کم دس ہزار روپے بل آ رہا ہے جو ایک عام آدمی کے لئے ادا کرنا ناممکن ہے لیکن غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں، کسی کو عام آدمی کاخیال نہیں۔ کسی نے نہیں سوچا کہ ایک ایسا شخص جس کی کل ماہانہ آمدن پندرہ سے بیس ہزارروپے ہے‘ وہ یہ بل کیسے ادا کرے گا۔ اس کی آمدن سے تو بمشکل مکان کا کرایہ اور بجلی کا بل ہی ادا ہو گا بلکہ ان دو کاموں کے لیے بھی تنخواہ کم پڑ جائے گی، پھر وہ گیس، پانی کا بل کہاں سے ادا کرے گا؟ بچوں کی فیس کیسے دے گا اور زندہ رہنے کے لئے آٹا، گھی، چینی، دالیں اور دیگر اشیائے ضروریہ کہاں سے لائے گا؟
صرف کمرشل بجلی بلوں میں ریلیف دینے کی پالیسی سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے پالیسی سازوں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے غربت دیکھی ہو یا جو عام آدمی کے مسائل سے واقف ہو۔اگر گھریلو بجلی کے بل معاف کئے جاتے تو اس سے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی ریلیف ملتا کیونکہ ان کے گھروں میں بھی کئی کئی اے سی چلتے ہیں لیکن سب سے زیادہ فائدہ ایک عام غریب آدمی کو ہوتا جس کے گھر میں اے سی تو نہیں لیکن روشنی کے لئے ایک یا دو بلب اور ایک پنکھا ضرور چلتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس امر کی وضاحت کرنے کو تیار نہیں کہ بجلی کے بلوں میں اچانک اتنا اضافہ کیسے ہو گیا۔ ایک خیال یہ ذہن میں آتا ہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے جب گھروں میں بند تھے تو بجلی کا استعمال زیادہ ہوا، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا بجلی واقعی اتنی زیادہ خرچ ہو گئی کہ بل کئی گنا بڑھ گئے۔ پھر خیال آتا ہے کہ بجلی کی تصحیح اور بلوں کی تیاری کی ذمہ دار انتظامیہ لاک ڈائون کے دوران کمرشل سیکٹر کوبجلی کے بلوں میں دیے گئے ریلیف کی کسر گھریلو بلوں میں اضافہ کر کے تو پوری نہیں کر رہی۔ اس طرف خیال اس لیے بھی جاتا ہے کہ ابھی گزشتہ روز ہی مسلم لیگ ن نے بجلی کے بھاری بلوں پر احتجاج کرتے ہوئے بلز ایوان میں لہرائے۔ نون لیگ کے رہنما احسن اقبال نے قومی اسمبلی میں نکتۂ اعتراض کے دوران کہا کہ بجلی کا ایک بل 129 روپے ہے جبکہ اس پر چار ہزار ایڈجسٹمنٹ کی مد میں لگا دیے گئے ہیں۔ یہ ایک کیس نہیں ہزاروں ایسے کیس ہیں، ہم غریبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتے ،حکومت کہتی تھی کہ ہم نے بجلی چوری روکی ہے‘ یہ سب کیا ہے؟ اس پر قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ اس معاملے پر بات کرتے ہیں۔آج کل تو ہر کسی کو ہی اوور بلنگ کی شکایت ہے۔ اگرچہ ابھی تک کاروبار پوری طرح بحال نہیں ہو سکا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بجلی کمپنیاں لاک ڈائون کا سارا خسارہ اسی دوران پورا کرنا چاہتی ہے۔
کاش کوئی صاحبِ اختیار بجلی کا کوئی بھی بل اٹھا کر اسے تفصیلی طور پر مطالعہ کرے اور دیکھے کہ اس میں کیا کیا شامل ہے، اگر انہیں بل ادا نہیں کرنا پڑتا اور ان کا بل سرکاری خزانے سے جاتا ہے تو بھی میں یقین سے کہتا ہوں کہ انہیں ایک بار شدید حیرت سے کرنٹ ضرور لگے گا لیکن شاید اربابِ اختیار کے پاس ان معاملات کے بارے میں سوچ کے لیے وقت ہی نہیں۔ آپ خود ہی اپنے گھرکا بل چیک کریں تو اس میں قیمت بجلی، کرایہ میٹر، کرایہ سروس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، ایف سی سرچارج، ٹی آر سرچارج، محصول بجلی، پی ٹی وی فیس، جنرل سیلز ٹیکس، فاضل ٹیکس، انکم ٹیکس، فردر ٹیکس، نیلم جہلم سرچارج ، سیلز ٹیکس اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر سیلز ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ شاید اتنے زیادہ محصولات کسی بڑے سے بڑے بزنس پر بھی لاگو نہیں ہوں گے جتنے بجلی کے بل کے ذریعے وصول کئے جا رہے ہیں کیونکہ یہ ہر امیر وغریب کی مجبوری ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ طبقہ جسے سبسڈی دی جانی چاہیے یعنی وہ لوگ جو خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور جن پر ٹیکسوں کا اطلاق نہیں ہوتا‘ وہ بھی یہ سب ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
معزز عدالت نے بھی متعدد بار غیر ضروری اقسام کے سر چارج اور ٹیکس لگانے سے روکا اور عوام سے زائد وصول کی گئی رقم واپس کرنے کے احکامات جاری کئے لیکن اگر ایک ماہ کسی ایک طرف سے ریلیف دیا بھی جاتا ہے تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ یا کسی دوسرے طریقے سے یہ ریلیف ڈبل کر کے واپس وصول کر لیا جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے بھی کئی بار عوام کو ریلیف دینے کی ہدایت کی لیکن متعلقہ حکام نے اس کا بھی کوئی نہ کوئی توڑ نکال لیا اور غریب آدمی کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا گیا۔ کورونا لاک ڈائون میں اگر گھریلو بلوں میں ریلیف نہیں دیا گیا تو اب زائد وصولی بھی نہیں ہونی چاہئے لیکن کون ہے جو یہ ثابت کر سکے کہ عوام سے واقعی وصولی کی جا رہی ہے کیونکہ متعلقہ حکام پورا حساب کتاب کرکے ایسا فارمولا بنائیں گے جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اب بھی بجلی بلوں میں بڑا ریلیف دیا جا رہا ہے۔
کاش عوام کی محبت اور خدمت کا دم بھرنے والوں میں سے کوئی غریب آدمی پر بلوں کی صورت میں گرائی جانے والی بجلی کے حوالے سے بھی کوئی آواز بلند کرے۔ کاش کوئی اتنے زیادہ محصولات کے بارے میں آواز اٹھائے اور پوچھے کہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ والے شہری سے صرف ایک بل میں اتنے زیادہ محصولات کی وصولی چہ معنی دارد؟ کاش ایسا ہو جائے اور ایک حد مقرر کر دی جائے کہ اس سے کم یوٹیلٹی بل پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس یا سرچارج نہیں ہوگا اور ایک ہزار سے زائد یونٹ والے بل پر محصولات عائد کئے جائیں گے اور اس کے لئے بھی ایسا فارمولا بنایا جائے کہ ایک ہزار سے دو ہزار یونٹ تک، پھر دو ہزار سے تین ہزار یونٹ تک اور پھر اس سے زائد بل پر کتنا ٹیکس یا سرچارج ہونا چاہئے۔حکومت کو اتنے بھاری گھریلو بجلی بلوں کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور زائد وصولی فوری طور پر روکنے کاحکم جاری کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو چھوٹے گھروں کے بجلی کنکشن منقطع کرنے سے منع کرنا چاہیے۔ زائد وصول شدہ رقوم واپس کرنے اور غیر ضروری محصولات ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے احکامات جاری کرنے چاہئیں۔ کوئی حکمرانوں کو یہ بھی بتائے کہ کورونا لاک ڈائون سے صرف بزنس مین ہی نہیں بلکہ بیروزگار اور دیہاڑی دار بھی متاثر ہوئے ہیں لہٰذا ایک غریب آدمی کو بھی ریلیف دیا جائے اور ایسے پالیسی سازوں کو اپنی ٹیم سے باہر کریں جنہیں ایک غریب کے مسائل کا علم ہی نہیں۔ غریب آدمی نے ہی تبدیلی کے لئے تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ دیے تھے اس لئے غریبوں کے مسائل پربھی توجہ دی جائے۔