زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی خدمات کی انجام دہی پر ہر سال چودہ اگست کو قومی صدارتی ایوارڈز کا اعلان کیا جاتا ہے(ان ایوارڈز کے لیے تقاریب اگلے سال 23مارچ کو ایوانِ صدر اور چاروں گونرہائوسز میں منعقد ہوتی ہیں) کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے غیر معمولی اور تاریخ ساز خدمات پر (آج) 14اگست کو بزرگ کشمیری رہنما جناب علی گیلانی کو بھی ''نشانِ پاکستان‘‘ایوارڈ دیا جارہاہے۔ سیدابو الاعلیٰ مودودیؒ کو پہلا شاہ فیصل ایوارڈ ملا تو شامی صاحب کے اداریے کا عنوان تھا''اعزاز کو اعزاز مبارک‘‘ کہ یہ سید مودودیؒ سے زیادہ‘ خود ایوارڈ کے لیے اعزاز کی بات تھی کہ سیدمودودی سے منسوب ہوا۔اب یہی معاملہ عظیم حریت رہنما سید علی گیلانی کے لیے ''نشانِ پاکستان‘‘ کا بھی ہے۔
ویسے اپوزیشن (اور خصوصاً پاکستان مسلم لیگ ن) کی طرف سے نیب کے ان شہ دماغوں کے لیے بھی ایوارڈ بنتا ہے جنہوں نے مریم نواز کو کال اپ نوٹس بھجواکر جاتی امرا (اور مسلم لیگ ن) کی سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں تلاطم برپا کردیا اور 11اگست کا دن میڈیا پر مریم نواز اور اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) کا دن بھی بن گیا۔ دوپہر گیارہ‘ ساڑھے گیارہ بجے سے رات دیر تک مریم نواز ہی لائیو کو ریج پھر خبروں کی شہ سرخیوں اور تجزیوں و تبصروں کا اہم ترین موضوع بنی رہیں۔
مریم گزشتہ سال بھر سے خاموش تھیں۔ اس سے پہلے ان کی رابطہ عوام مہم خاصی طوفان خیز رہی تھی۔ ظفر وال‘ منڈی بہائوالدین‘ اور پاک پتن کے بعد سرگودھا کا جلسہ ان کا آخری جلسہ تھا۔ یہ5اور 6اگست کی درمیانی شب تھی۔ یہی وہ دن تھا جب مودی نے آئین کے آرٹیکل 370اور35Aکو ختم کرکے‘ مقبوضہ جموں وکشمیر کی برائے نام سی داخلی خودمختاری بھی ختم کردی تھی۔ مریم نے مودی کی اس جارحیت کے خلاف جمعہ8اگست کو مظفر آباد میں احتجاجی ریلی کی قیادت کا اعلان کیا تھاکہ 8اگست کو انہیں گرفتارکرلیا گیا۔
گیارہ اگست کو نیب لاہور ہیڈ کوارٹر کے باہر ہنگامے کے بعد ماڈل ٹائو ن میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اس گرفتاری کی روداد بھی سنائی۔ مریم کے بقول‘ نیب نے اس روز انہیں2بجے طلب کررکھا تھا۔ میاں نوازشریف کوٹ لکھپت جیل میں تھے اور یہ ان سے ہفتہ وار ملاقات کا دن تھا۔ انہوں نے نیب کو کسی اور دن حاضری کے لیے درخواست بھجوادی۔ وہ جیل میں اپنے والد صاحب سے ملاقات کررہی تھیں کہ انہیں بتایا گیا‘ باہر آپ کا انتظار ہورہاہے۔ وہ باہر گئیں تو نیب والے ان کی گرفتاری کے لیے موجود تھے۔ مریم نے ان سے کہا کہ وہ میاں صاحب کو الوداع کہہ کر واپس آجاتی ہیں۔ لیکن وہ پیچھے پیچھے چلے آئے اور انہیں میاں صاحب کے سامنے گرفتار کرلیا۔ مریم کی بیٹی رونے لگی‘ میاں صاحب کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔ مریم کو نیب ہیڈ کوارٹر منتقل کردیا گیا‘ وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں یہاں حراست میں رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں خواتین کے لیے کوئی لاک اپ نہیں تھا؛ چنانچہ مریم کے لیے الگ سے خصوصی اہتمام کرنا پڑا۔ مریم کا کہنا تھا‘دورانِ تفتیش ان سے اس مقدمے کے بارے میں کوئی ایک سوال بھی نہ کیا گیا‘ جس میں وہ60دن زیر حراست رہیں۔ بس اس طرح کے سوالات کئے جاتے کہ مسلم لیگ میں آپ کی کتنیSayہے؟ آپ کو نسی کتابیں پڑھتی ہیں؟ آپ کا پسندیدہ مصنف کون ہے؟ مریم کا کہنا تھا‘ ایک سال گزر گیا‘ نیب اب تک اس کیس میں ریفرنس نہیں بنا سکا۔
میاں صاحب19نومبر کو علاج کے لیے لندن چلے گئے۔ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر''سزا یافتہ قیدی‘‘ کی ضمانت منظورکر لی تھی۔ خود حکومت کے مقرر کردہ میڈیکل بورڈ اور سرکاری لیبارٹریز کی رپورٹس مریض کی زندگی کو لاحق سنگین خطرات کی نشاندہی کررہی تھیں۔ شوکت خانم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (اب جناب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت) فیصل سلطان کی ''رپورٹ‘‘ بھی یہی تھی۔
میاں صاحب لندن چلے گئے اور مریم نے جاتی امرا میں چپ کا روزہ رکھ لیا‘ خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔ مائوں کے عالمی دن پر وہ اپنی مرحومہ والدہ کے حوالے سے کوئی ٹویٹ کر دیتیں‘ جنہیں بستر مرگ پر چھوڑ کر‘ وہ 13جولائی(2018کو) اپنے والد کے ہمراہ گرفتاری کے لیے وطن لوٹ آئی تھیں۔ فادرز ڈے پر‘ ان کے ٹوئٹر پر والدِ محترم کا ذکر ہوتا‘ جنہیں وہ اپنی اولاد میں سب سے چہیتی ہیں۔
مریم کے بقول‘ یہ خاموشی ان کے لیے بولنے سے زیادہ مشکل تھی‘ادھر لندن میں میاں صاحب بھی خاموش تھے‘ لیکن وہ سیاست سے اور خودسے منسوب مسلم لیگ کی سیاست لاتعلق نہیں تھے۔ توسیع والے قانون پر بھی پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شپ سے وہ رابطے میں تھے۔ ان دنوں یہ باتیں بھی کہنے سننے میں آئیں کہ میاں صاحب کو توسیع والے اس قانون سے کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھاکہ اس قانون کے بغیر بھی ''توسیع‘‘ ہوتی آئی تھی‘ البتہ خود انہوں نے جنرل راحیل شریف کو توسیع نہیں دی تھی اور اس سے پہلے زرداری /گیلانی حکومت میں جنرل کیانی کی توسیع کی بھی اعلانیہ مخالفت کی تھی۔اب اسے باقاعدہ قانونی شکل دی جارہی تھی تو میاں صاحب چاہتے تھے کہ اس پر پارلیمنٹ میں باقاعدہ بحث ہو اور یہ بھی کہ توسیع ایک بار سے زائد نہ ہو۔ کہا جاتاہے‘ FATFسے متعلق حالیہ قانون سازی میں بھی میاں صاحب کا اپنی پارٹی سے رابطہ تھا‘ وہ مولانا فضل الرحمن کی APCکے بھی نہ صرف حامی‘ بلکہ اسے مؤثر اور مفید بنانا چاہتے ہیں‘ وہ اس حوالے سے مولانا اور باقی ماندہ اپوزیشن میں موجود ہ بدمزگی پر بھی خوش نہیں۔مریم کا بھی یہی کہنا ہے کہ میاں صاحب APCکوایک مؤثر‘ فعال اور فیصلہ کن پلیٹ فارم بنانا چاہتے ہیں۔
میاں صاحب کی خاموشی اور وطن واپسی کے امکان کے حوالے سے مریم نے جواب کا آغاز کیا‘ تو ٹی وی سکرینوں پر نظریں جمائے اور کان لگائے کتنے ہی لوگوں نے جگر تھام لئے۔ اس جواب سے میاں صاحب کے چاہنے والوں کو ہی نہیں‘مخالفین کو بھی دل چسپی تھی۔مریم کہہ رہی تھیں: میاں صاحب اپنے حصے کا کام کرچکے۔ ان کی زندگی بھر کی ساتھی لندن میں بستر علالت پر تھی‘ وہ یہاں عدالتوں میں پیش ہوتے رہے‘ پھر اسے بسترمرگ پر چھوڑ کر خود کو (اور بیٹی کو بھی) قانون کے حوالے کرنے واپس آگئے۔ اہلیہ کی موت کی خبر انہوں نے جیل میں سنی۔انہیں آخری سانس لیتی ہوئی اہلیہ سے فون پر بات کرنے کی بھی اجازت نہ ملی کہ قیدی اس ہفتے فون کالز کاطے شدہ کوٹہ مکمل کر چکا تھا۔
مریم کے لیے یہ گفتگو آسان نہ تھی لیکن اس نے اپنے ا عصاب پر قابو رکھا‘ آواز میں لرزش اور آنسوئوں کو پلکوں تک نہ آنے دیا:میں پھر کہوں گی‘ میاں صاحب اپنے حصے کا کام مکمل کر چکے۔ انہوں نے اپنے سینے پر بہت وارکھالئے‘ سارے زخم سہہ لئے۔
تو کیا‘ اپنے حصے کا کام مکمل کرنے کے بعد‘ اب وہ عملی سیاست سے دستبردار ہوچکے ؟ اس سوال کے لبوں پر آنے سے پہلے ہی مریم کہہ رہی تھی:'' وہ واپس آئیں گے۔ اور واپس آکر وہیں سے شروع کریں گے‘ جہاں چھوڑ کر گئے تھے‘‘۔
مریم کا دعویٰ تھا‘ مسلم لیگ(ن) میں کوئی دھڑے بندی نہیں‘ مشاورت ہوتی ہے تو لوگ اپنا اپنا نقطۂ نظربیان کرتے ہیں‘ یہی جمہوری عمل ہے۔ پھر فیصلہ ہوجاتا ہے‘ تو سبھی اس کی پابندی کرتے ہیں۔ پارٹی کا ایک ہی بیانیہ ہے اور ایک ہی قائد‘ نوازشریف اور اس کا بیانیہ ...ووٹ کو عزت دو اور حقیقت یہ ہے کہ یہ نوازشریف کا نہیں‘ آئینِ پاکستان کا بیانیہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved