تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-08-2020

کاک ٹیل

اقوام عالم مسئلہ کشمیر اجاگر
کرنے میں ساتھ دیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اقوام عالم مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں ساتھ دیں‘‘ اگرچہ یہ کام حکومت کے اپنے کرنے کا ہے لیکن جب اپوزیشن اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہو تو وہاں حکومت کو بچانے کے علاوہ کیا کام کیا جا سکتا ہے، جبکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو ہاتھ دھونا پڑتے ہیں، اگرچہ کورونا وائرس سے بچنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ بیس سیکنڈ تک ہاتھ بار بار صابن سے دھوئے جائیں اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپوزیشن حکومت کو بھی کورونا وائرس ہی سمجھتی ہے۔ آپ اگلے روز یومِ آزادی کا کیک کاٹنے کے علاوہ ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ کی بغیر پروٹوکول پیشی مخالفین
کے لیے سبق ہے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ کی بغیر پروٹوکول پیشی مخالفین کے لیے سبق ہے‘‘ اور اب مخالفین کا کام صرف اس سبق کو یاد کرنا ہے جسے رٹا لگا کر بھی یاد کیا جا سکتا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ نے ہر سوال کا جواب یہی دینا تھا کہ کچھ معلوم نہیں، وقت دیں، تو پروٹوکول کی ضرورت ہی کیا تھی، اگرچہ وقت ملنے پر بھی ان کا جواب یہی ہوگا کیونکہ جس وزیراعلیٰ کا سارا وقت ہی بیورو کریسی کے تبادلوں میں صرف ہو جاتا ہو، اسے اور کسی بات کا علم کیونکر ہو سکتا ہے اس لیے ان سے صرف ان تبادلوں کے بارے ہی سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کارکنوں سے مجرموں جیسا سلوک
فسطائیت ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''کارکنوں سے مجرموں جیسا سلوک فسطائیت ہے‘‘ اگرچہ لفظ فسطائیت میرے لیے بالکل نیا ہے لیکن جو بیان میرے لیے تیار کر کے دیا گیا تھا میں نے قاعدے، قانون کے مطابق وہی جاری کر دیا ہے تاہم اپوزیشن کو چاہیے کہ اپنے ہر لیڈر کے لیے ایک ایک لُغت کا بھی انتظام کرے، تاہم کارکنوں سے مجرموں جیسا سلوک اس وقت بھی نہیں کیا جانا چاہیے جب وہ مجرموں جیسی کارروائی میں شریک ہوں کیونکہ اگر ان کے قائدین کا سارا کام ہی ایسا ویسا ہو تو یہ ان کی بھی مجبوری بن جاتا ہے اس لیے کسی کی مجبوری کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مریم نواز اور کرنل مبشر کو فون کر رہے تھے۔
حکومت نے لڑائی کرنی ہے تو
کر کے دیکھ لے: مصدق ملک
مسلم لیگ ن کے رہنما مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''حکومت نے لڑائی کرنی ہے تو کر کے دیکھ لے‘‘ تاہم اپوزیشن اسی طرح دوستی کا دم بھرتی رہے گی۔ اگرچہ یہ دم بھرنے والا محاورہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ جیبیں بھرنا تو اچھی طرح سے سمجھ میں آتا ہے اور بہت خوشگوار بھی ہے، آخر دم بھرنے سے کسی کا کیا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ دم کا مطلب اگر سانس یا ہوا ہے تو یہ کسی پنکچرڈ سائیکل وغیرہ ہی میں بھری جا سکتی ہے اور وہ بھی پنکچر لگانے کے بعد۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اعتذار
پرسوں والے کالم میں غلطی سے جاوید قاسم کی شاعری قاسم یعقوب کے نام سے چھپ گئی جبکہ ترسوں بھی ان دونوں ناموں کی ادلا بدلی ہو گئی کیونکہ جو فون کال موصول ہوئی تھی وہ بھی جاوید قاسم کی تھی‘ قاسم یعقوب کی نہیں۔ ان دونوں حضرات سے دلی معذرت۔
خیال
ایک انگریز گاڑی نہایت بد احتیاطی سے چلا رہا تھا، آخر اس نے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دی۔ جس پر سارجنٹ بھی آن کھڑا ہوا اور نام پوچھا تو انگریز نے جواب دیا، ''مسز سمپسن‘‘، کیا کہا؟ سارجنٹ بولا۔ دراصل مسز سمپسن میری ساس کا نام ہے جو پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہیں، انگریز نے جواب دیا۔ ''لیکن گاڑی تو آپ چلا رہے تھے!‘‘ سارجنٹ بولا۔ یہ آپ کا خیال ہی ہے کہ میں چلا رہا تھا: انگریز نے جواب دیا۔
اور، اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
کانچ رشتے‘ ٹوٹتا گھر خواب تھا
کس کا رونا‘ کس کا ہے ڈر‘ خواب تھا
نیند کے جلتے جھلستے پیڑ پر
سوکھتی پلکیں تھیں‘ اک پر خواب تھا
جاگتی آنکھوں کے تکیے کے تلے
بھیگتی چیخوں کے لب پر خواب تھا
رات کی کالی ہتھیلی مت ٹٹول
تُو نے جو دیکھا دفع کر‘ خواب تھا
سانس میں کیوں تیرتی ہیں خوشبوئیں
تم نہیں آئے تھے یاں‘ گر خواب تھا
بھول جا وہ تو فقط اک یاد تھی
اُڑ گیا من کا کبوتر‘ خواب تھا
میں نے جو دیکھا نہیں وہ وہم تھا
میں نے جو دیکھا سراسر خواب تھا (خیام ثنائ)
یاد کیوں آ رہا ہے مجھ کو تُو
کیوں نہیں بھولتا ہے مجھ کو تُو
لاکھ سجدوں‘ ریاضتوں کے بعد
کون سا مل گیا ہے مجھ کو تُو
زندگی ایک آزمائش ہے
اور اس پر سوا ہے مجھ کو تُو
اپنے ہاتھوں ملا کے مٹی میں
ڈھونڈتا پھر رہا ہے مجھ کو تُو
اپنے حالات تو بدل نہ سکا
اور بدلنے چلا ہے مجھ کو تُو (ث سے ثبین)
آج کا مطلع
جینا محال تھا نہ ہی مرنا محال تھا
جھوٹی بلندیوں سے اترنا محال تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved