1857ء کی جنگِ آزادی سے لے کر 14اگست 1947ء تک‘ مسلمانانِ برصغیر نے 90سال تک پاکستان کی آزادی کی جنگ لڑی اور کامیابی سے جیتی۔ یہ جنگ دنیا کی تاریخ کی ایک انتہائی منفرد جنگ تھی جو بیک وقت کئی صورتوں میں اورکئی محاذوں پر لڑی گئی۔ مسلمانوں نے ایک ہی وقت میں برطانوی سامراج، ہندوئوں، سکھوں، بدقسمت کانگریسی مسلمانوں اور اپنی صفوں میں موجود غداروں کو اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے شکست دی۔ بلاشبہ اس جنگ کی فتح کا سہرا قائداعظم محمد علی جناحؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مسلم لیگ کے کارکنان کے سر سجتا ہے۔ دینِ اسلام کے ماننے والوں اور نبی پاکﷺ کا کلمہ پڑھنے والے غیور اور بے باک مسلمانوں نے اس جنگ کو بالکل اسی طرح لڑا جس طرح مسلمانوں کے اسلاف نے بے یار و مددگار اور شدید ترین مشکلات کے باوجود صرف اللہ کے آسرے اور سہارے جنگیں لڑیں۔ 27 رمضان المبارک کو پاکستان کا وجود میں آنا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اس ارضِ پاک کا قیام خود اللہ رب العزت کا خاص حکم اور مسلمانانِ ہند کے لیے شبِ قدر کا عظیم تحفہ ہے۔ اس نسبت سے یہ نعرہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا... لا الہ الا للہ، جو پاکستان کی تحریکِ آزادی میں ہر مسلمان کی زبان پر تھا اور آج بھی موجود ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس اور مسلم لیگ کو متحد ہو کر تحریک آزادی چلانے پر متفق کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جس کی بدولت دسمبر 1916ء میں میثاقِ لکھنو منظر عام پر آیا جس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ انہیں ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر بھی بنا دیا۔ قائداعظم کے چودہ نکات کی گونج اقتدار کے ایوان میں مسلمانوں کے سیاسی شعور کی بیداری سمجھی گئی تو خود مسلمان اپنے لائحہ عمل کو متعین کرتے ہوئے تصورِ آزادی سے روشناس ہوئے جسے جلا بخشنے کا وسیلہ الٰہ آباد کے سالانہ اجلاس 1930ء میں علامہ اقبال کا صدارتی خطبہ بنا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا ''میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دی جائے، سلطنت ِ برطانیہ کے تحت یا اس سے باہر‘ خود مختار طرزِ حکومت رائج کیا جائے۔ شمالی مغربی مسلم ریاست کا قیام مسلمانوں یا کم از کم شمال مغربی علاقوں کے مسلمانوں کا نوشتۂ تقدیر ہے‘‘۔ علامہ اقبال کا تصور کوئی خام خیالی نہ تھا بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ مسلمان قومیت کے اعتبار سے ہندوستانی نہیں‘ مسلم تھے۔ اور خود کو امتِ مسلمہ کا ایک جزو مانتے تھے۔ 1911ء میں طرابلس کی جنگ، پھر 1914ء میں پہلی جنگ عظیم‘ اس کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے حوالے سے چند ماہ چلنے والی تحریک خلافت اور دیگر بے شمار ایسے مواقع آئے کہ مسلمانوں نے امت مسلمہ کے مسائل کو اپنا مسئلہ جان کر اس میں اس قدر دلچسپی لی کہ یہ گمان کرنا حق بجانب تھا کہ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، یعنی مسلم قوم کا تصور پہلے وجود میں آیا۔ ''پاکستان نے کسی قومیت کو جنم نہیں دیا بلکہ مسلمان قومیت نے تصورِ پاکستان کو جنم دیا۔ بالفاظ دیگر قوم کا تصور مملکت پاکستان سے پہلے وجود میں آیا۔ یہ احساس کہ مسلمان اپنی ذات میں ایک قوم ہیں‘ بالآخر پاکستان کے قیام کی شکل میں نمو دار ہوا‘‘۔
حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''وطن سے محبت جزو ایمان ہے‘‘۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار ایک شخص آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے اس سے مکہ مکرمہ کے بارے میں پوچھا، جب وہ شخص مکہ کا حال بیان کر رہا تھا تو آپﷺ کی چشمِ مبارک آنسوئوں سے تر ہو گئی۔ اپنی دھرتی سے پیار انبیاء کرام ؑ کی سنت ہے۔ حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے اورملک کی محبت انسان کے خمیر میں ہوتی ہے۔ پاکستان ہمارے پیارے نبی آقائے دوعالم حضرت محمدﷺ کی بشارت کے نتیجے میں ملا ہے۔ پاکستان کی بقا اسلام سے ہے، اس وقت عالمی استعماری طاقتوں نے پاکستان کو اپنی تجربہ گاہ بنا رکھا ہے اور نوجوان طبقے کو جھانسے میں لایا جا رہا ہے۔ ایک منظم سازش کے تحت نوجوانوں کے دل و دماغ سے نظریۂ پاکستان کو مٹایا جا رہا ہے تاکہ ان میں جذبہ حب الوطنی ماند پڑ جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں چانکیائی سازشوں کو سمجھنا ہو گا کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اسی چانکیائی اصول پر مسلسل عمل پیرا ہے۔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی بے باکانہ جدوجہد اور لاکھوں مردوں، عورتوں اور معصوم بچوں کی شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے امیدوں کا مرکز بن کر دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا۔ علامہ اقبال کا خواب اور قائد اعظم کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جہاں جمہوریت کا بول بالا اور حکومت عوام کو جوابدہ ہو، جہاں انسانی حقوق کا تحفظ ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی و خودمختاری اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ کیا آج ہم اپنے وطن عزیز کو ایک آزاد، خودمختار، مستحکم اسلامی و فلاحی ریاست بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟ اگر نہیں‘ تو پھر اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا صرف جواب ہی نہیں چاہئے بلکہ ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے آئندہ کیلئے ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے جامع اور ٹھوس پالیسیاں مرتب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہم ایک قوم تھے‘ لہٰذا اللہ رب العزت کی مدد و نصرت شاملِ حال ہوئی لیکن صرف 25 برس بعد ہی باہمی چپقلشوں اور ذاتی مفادات کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ پیش آ گیا اور ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ اگر ''دو قومی نظریہ‘‘ کے مطابق پاکستان نہ بنتا تو جس طرح بھارت کے اندر کروڑوں مسلمان‘ شودروں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں، بھارتی حکومت اور ہندوؤں کے ناروا سلوک کی وجہ سے غربت و افلاس سے مجبور ہو کر مسلمان، ان کی خواتین اور بچے بھیک مانگتے ہیں، بھارت میں مسجدوں کی جگہ مندر تعمیر ہو رہے ہیں، انتہا پسند ہندوؤں کی شر انگیزی سے آئے روز فسادات امڈ آتے ہیں، انتہا پسند ہندو بلا جواز نہتے مسلمانوں کی قتل و غارت گری کرتے ہیں، ہندو مسلم فسادات کے دوران بھارتی پولیس تماشائی بنی رہتی ہے، اگر خدا نخواستہ پاکستان قائم نہ ہوتا تو ان علاقوں کا بھی بھارت میں موجود مسلمانوں جیسا ہی حشر ہوتا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ''دو قومی نظریہ‘‘ کا تصور پیش کیا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے منتشر مسلمانوں کو ''مسلم لیگ‘‘ کے پرچم تلے متحد کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج پاکستان کے بیس کروڑ مسلمان آزادی کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ اگر کہیں کوئی خامی اور کوتاہی ہے تو یہ دو قومی نظریہ اور پاکستان کا قصور نہیں بلکہ ہماری اپنی کوتاہی اور نااتفاقی کا شاخسانہ ہے۔ ''قیام پاکستان کا حقیقی محرک دو قومی نظریہ ہی ہے‘‘۔ دو قومی نظریہ سے مراد دینِ اسلام ہے... دو قومی نظریہ سے مراد کلمہ طیبہ ہے... دو قومی نظریہ سے مراد اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کے آگے سر نگوں ہونا ہے... دو قومی نظریہ سے مراد اپنے معاشرے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کرنا ہے۔ موجودہ دور میں دو قومی نظریہ کے مخالفین کے دلائل رد کرنے اور پاکستان کی نوجوان نسل کو دو قومی نظریہ کی صداقتوں سے آشنا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اپنی نئی نسل کوگمراہ کن پروپیگنڈے سے محفوظ رکھا جاسکے اور ان کی درست سمت میں رہنمائی کا فریضہ بطور احسن ادا کر کے انہیں قیامِ پاکستان کی خاطر اپنے اسلاف کی دی گئی قربانیوں سے آگاہ کیا جائے۔ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم نے اسلام کے نام پر ملک بنانے کے باوجود اس میں اسلامی جمہوری نظام رائج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 15 جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر فرمایا تھا ''اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پُرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی، ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو‘‘۔
افسوس یومِ آزادی آج ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے کہ نہ صرف اس کی منزل متعین کرنے والی قراردادِ مقاصد پر عملدرآمد کے حوالے سے ذہنوں میں ابہام ہیں بلکہ تقسیم ہند کا اصل ایجنڈا کشمیر بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved