تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     14-08-2020

جشن ِ آزادی کے آداب

ہم خوش نصیب ہیں کہ آزاد وطن میں آنکھ کھولی۔ یہ پیارا وطن پاکستان اللہ کی عنایت ہے۔ میری دادی مرحومہ ہمیں تقسیم کے قصے سناتی تھیں، ان کے دو بچے تقسیم کے دوران وفات پاگئے۔ بہت بڑا خاندان تھا‘ بہت سے افراد ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ بعد میں بہت عرصے بعد خاندان جب ایک دوسرے کو ملا تو بیشتر لوگ فوت ہوگئے ہوئے تھے، کچھ کو تو بلوائیوں نے شہید کردیا تھا۔ سب مال و دولت ہندوستان میں رہ گئی تھی۔ ہوشیارپور سے لاہور کا سفر آسان نہ تھا، کچھ عرصہ کیمپ میں رہنے کے بعد دادا‘ دادی کراچی میں جا آباد ہوئے۔ دادا نے دوبارہ سے زندگی کا آغاز کیا، یوں زندگی کے گاڑی چل پڑی۔ میرے ابو‘ چچا‘ پھوپھو سب کراچی میں پیدا ہوئے، جب خاندان کی تیسری نسل پروان چڑھی تو معمر دادی جان سفید کرن لگے دوپٹے میں گڑیا لگتی تھیں۔ بال مہندی سے لال‘ ہاتھ بھی لال ہوجاتے تھے۔ ان کے پاندان میں سے ہم گل قند نکال کرکھاتے تھے۔ وہ پان یا چھالیہ کی اتنی شوقین تو نہیں تھیں لیکن چاندی کا پاندان ہر وقت چیزوں سے بھرا رہتا تھا۔ وہ پرانی روایتیں نئی نسل کو بہت پیار سے منتقل کررہی تھیں۔ شب برأت،عید میلاد النبی ،رمضان، عید اور جشن آزادی پر وہ خصوصی اہتمام کرتی تھیں۔ ہم بچے جب شوقیہ نیو ایئر منانے لگے تو کہتیں: ارے یہ کون سا نیا تہوار پیدا ہوگیا؟ اس پرکیا پکایا جاتاہے؟ ہم خوب ہنستے‘ ان کو گلے لگا لیتے۔ کھانا بنانے کی اور کھلانے کی وہ بہت شوقین تھیں۔ محرم میں دادی لال شربت بناتیں اور ہم سب کزنز مل کر پانی کی سبیل لگاتے، عید میلاد النبیﷺ پر مٹھائی اور چاشنی تقسیم کرتیں اور پوری گلی میں محفلِ میلاد کا انعقاد ہوتا۔
ان کے گھر کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے تھے‘ چودہ اگست پر وہ ہم سب کو خصوصی سفید لباس بنوا کر دیتیں، سب بچوں کو جھنڈے اور بیج خرید کر دیتیں۔ پٹاخے چلانے کی البتہ اجازت نہیں تھی، صرف چراغاں کرنے اور پھلجڑیاں جلانے کی اجازت تھی۔ اس کے ساتھ وہ میدے سے لئی تیار کرتیں، جھنڈیوں کو لئی کے ساتھ ڈوری پر چپکایا جاتا، اس کے بعد کا کام لڑکوں کا ہوتا تھا، وہ تمام جھنڈیوں کو ایک گھر سے دوسرے گھر تک باندھ دیتے، یوں پوری گلی سج جاتی۔ گلی میں سٹیج لگایا جاتا، لائٹس لگتیں اور کھانے کا اہتمام ہوتا۔ سب بچے مل کر ترانے گاتے‘ تقاریر ہوتیں اور پھر انہیں انعامات ملتے۔ دادی اپنے کالے رنگ کے بٹوے میں سے پچاس پچاس روپے بچوں کو انعام میں دیتیں۔ اس وقت تو دس روپے میں بوتل، چپس آئس کریم آ جاتے تھے، ہم بچوں کی پچاس روپے سے چاندی ہو جاتی۔ دو خصوصی انعامات اچھے لباس پر بھی ملتے۔ سب بچے تحریک پاکستان کے کارکنان کا روپ دھار کر آتے‘ ہر کسی کی کوشش ہوتی تھی کہ بڑا انعام اس کو ہی ملے۔ ٹرافی اور نقد انعام جیتنے کے لئے سخت مقابلہ ہوتا۔
پھر دادی نہیں رہیں (اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے) روایتیں دم توڑنے لگیں، لیکن اسلام آباد میں مختلف تنظیموں کی جانب سے چودہ اگست پر اسی طرز کا جشن آزادی منایا جاتا، جس میں سیکٹر کے تمام بچے شرکت کرتے۔ میں نے پانچ سال مسلسل تقریر اور ترانے میں انعام جیتا۔ اسی طرح سکولوں میں ہوتا تھا، تحریک آزادی پر ڈرامے‘ ٹیبلو اور ترانے وغیرہ پرفارم ہوتے۔ سب لڑکیاں سفید کپڑے اور ہرے دوپٹے پہنتیں اور لڑکے شلوار قمیص‘ سبز ہلالی پرچم والے بیج لگائے جاتے۔ چودہ اگست پر پرچم کشائی کی تقریب سب بچے بہت شوق سے دیکھتے، اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت تھا، وہ بچوں کے لئے بہت سی تقریبات کا اہتمام کرتیں اور بچے بہت شوق سے ان میلوں اور تقریبات میں جاتے۔ اس کے ساتھ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی بھی بچوں کو چودہ اگست پر مدعو کرتے یوں ہمیں نامور شخصیات سے ملنے کا موقع ملتا۔ وہ بھی کیا دن تھے‘ جب ہر طرف امن و سکون تھا۔
بچے بازار سے جھنڈے‘ جھنڈیاں خریدتے، بیج لیتے، موم بتیاں، چراغ، تیل، آنکھوں پر پہننے والے سفید اور سبز چشمے‘ غرض بھرپور تیاری ہوتی۔ میں اور میری بہن گھر کو جھنڈے‘ جھنڈیوں سے سجاتے اور پھر یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ آخر میں موم بتیوں سے چراغاں کرتے اور جب ہوا چلتی تو دونوں ہاتھوں سے شمع کو بجھنے سے روکتے۔ رات بارہ بجے سے پہلے جھنڈے اور جھنڈیاں وغیرہ اتار لیتے کیونکہ اسلام آباد میں ان دنوں بارش بہت ہوتی تھی۔ اس موقع پر ہمیں دادی کی باتیں یاد آتی تھیں کہ یہ وطن بہت مشکل سے حاصل کیا ہے، اس کی قدر کرو، اس کے پرچم کی لاج رکھو۔ جشن آزادی کی چیزیں امی سنبھال کر رکھ دیتیں اور وہ اگلے سال بھی ہمارے کام آ جاتیں۔ ہم سب بچے پارلیمنٹ ہائوس اور بلیو ایریا جشن آزادی کے حوالے سے لگائے گئے برقی قمقمے اور سجاوٹ دیکھنے ضرور جاتے تھے؛ تاہم کچھ سالوں سے اب وہاں منچلوں کی اجارہ داری ہے، اونچی آواز میں بھارتی گانے، خواتین سے چھیڑ خانی، بہیودہ رقص، چیخ و پکار اور فیملیز کی گاڑیوں میں پٹاخے پھینک دینا عام ہوگیا ہے۔ اس سب کے باعث ہم نے 14 اگست کے روز سڑکوں پر نکلنا چھوڑ دیا اور بس گھر پر جشن آزادی منانے لگے۔ اس کے بعد چند مزید خرافات اس جشن میں شامل ہوگئیں، پٹاخے، شرلیاں اور شور مچانے والے باجے؛ یہ سب مریضوں اور کمزور دل افراد کو بہت تکلیف دیتا ہے لیکن شاید آج کل کے بچوں اور نوجوانوں کے لئے یہی جشن آزادی ہے۔
اب جشن آزادی کے نام پر ہلڑ بازی ہوتی ہے‘ اکثر لڑکے بغیر سائلنسر کے سڑک پر موٹر سائیکلیں دوڑاتے اور ون ویلنگ کرتے نظر آتے ہیں، اس سے بہت سے حادثات بھی ہوتے ہیں اور ہر سال درجنوں بلکہ سینکڑوں گرفتار بھی ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ رسمِ بد جاری ہے۔ نوجوان اونچی آواز میں گانے لگاتے ہیں جس سے ہمسایوں کو تکلیف و پریشانی ہوتی ہے۔ گاڑیوں میں بھی اونچی آواز میں گانے سنے جاتے ہیں راہ چلتے لوگوں پر پٹاخے پھینکے جاتے ہیں۔ جہاں گھومنے پھرنے والوں کا رش ہوتا ہے‘ وہاں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آتے ہیں، جب چودہ اگست ختم ہو جاتی ہے تو جھنڈے اور جھنڈیاں وغیرہ زمین پر گری نظر آتی ہیں‘ یہ بہت افسوس ناک امر ہے۔
جشن منانے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ صبح جب نیند سے بیدار ہوں تو نماز پڑھیں، اللہ کا شکر ادا کریں، اپنے ملک اور عوام کے لیے دعا کریں۔ مل کر جھنڈے جھنڈیاں لگائیں۔ قومی پرچم کی مناسبت سے سفید اور ہرا لباس پہنیں۔ بچوں کو تحریک پاکستان کے قصے سنائیں اور ملی نغمے سنیں۔ اس دن اپنے اور اپنے پیاروں کی طرف سے صدقہ جاریہ کے طور پر پودے لگائیں۔ اپنے رشتہ داروں کو مدعو کریں اور مل کر کھانا کھائیں اور شہیدانِ تحریک پاکستان کے لئے قرآن خوانی کریں۔ گلی محلوں میں مل کر بچوں میں ملی نغموں اور تقاریر کا مقابلہ کروائیں، ان کو انعامات دیں۔ بچوں کو قائداعظم، محترمہ فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور دیگر کارکنانِ تحریک پاکستان کے حوالے سے کتابیں تحفے میں دیں۔ آتش بازی کا سامان اور پٹاخے وغیرہ بچوں کو ہرگز مت خرید کر دیں۔ بچوں کو نیشنل بک فاؤنڈیشن اور مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد مونومنٹ میوزیم لے کر جائیں تاکہ وہ پاکستان کی تاریخ جان سکیں۔ باقی لوگ بھی اپنے اپنے شہر کی اہم قومی‘ تاریخی عمارتوں کا وزٹ کریں لیکن اس کورونا کی وبا میں ایس او پیز کا خاص خیال رکھیں۔
بچوں کی لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پر کام کریں۔ بچپن میں گائے ہوئے ترانے اور تقاریر بچوں میں ذہانت اور خود اعتمادی کو بڑھاتے ہیں، ان کو انعام دینے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ گلی محلے میں سب کی اجازت سے چند کرسیاں لگائیں‘ گلی کے بڑوں اور بچوں کی نشست کا اہتمام کریں، ان کو دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کی جہدوجہد کے بارے میں بتائیں۔ اپنے گھر اور گلی محلے کو سجائیں تاہم شام ہوتے ہی جھنڈے اور جھنڈیاں وغیرہ اتار لیں تاکہ ان کی بے ادبی نہ ہو۔ ان کو صاف کرکے پیک کرلیں کہ یہ اگلے سال پھر کام آئیں گے۔ آپ دیگر قومی دنوں پر بھی ان کو لگا سکتے ہیں۔ آزادی منائیں؛ وطن سے محبت کے جذبے کے ساتھ، مکمل ادب کے ساتھ ایسا جشن منائیں جس سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved