تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-08-2020

طوفان کو نہ دیکھ، ستم ناخدا کے دیکھ

کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں پورے یقین سے کہا جاسکے کہ وہاں سب کچھ درست چل رہا ہوگا۔ خرابیوں کا گراف بلندتر ہوتا جارہا ہے۔ عوام کے مسائل ہیں کہ حل ہونے کے بجائے دوچند ہوتے جارہے ہیں۔ کل تک مسائل کی نشاندہی پر تھوڑے بہت اقدامات ہو بھی جایا کرتے تھے۔ اب خیر سے اِتنا بھی نہیں ہوتا۔ شرمندہ ہونا اور ندامت کا اظہار کرنا تو دور کا معاملہ رہا، کسی کے کانوں پر جُوںتک نہیں رینگتی۔ سُنی کو اَن سُنی کرنے کا چلن ایسا عام ہے کہ اب کسی بھی شعبے کے درست ہو پانے کی اُمّید بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔
حکومت پر تنقید بڑھتی جارہی ہے۔ ہر شعبے میں ناکامی کے لیے اُسی کو مطعون کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت سے کچھ بھی نہیں ہو پارہا۔ مافیاز کے آگے سپر انداز ہونے کا الزام تواتر سے عائد کیا جارہا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ الزام کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ مافیاز نے کئی مواقع پر حکومت کو بے دست و پا کیا ہے۔ اپوزیشن اگرچہ چند درست باتیں بھی کر رہی ہے مگر مجموعی طور پر وہ بھی ہوا ہی میں تیر چلا رہی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مافیاز نے پورے معاشرے اور معیشت کو دبوچ رکھا ہے۔ انتہائی بنیادی ضرورت پانی بھی فروخت کیا جارہا ہے۔ آٹا اور چینی‘ دونوں یہ کہتے ہیں کہ اُنہیں بھی روتے رہیے۔ پٹرولیم مصنوعات کے بلند نرخوں نے الگ اور خاصا بڑا ''وختا‘‘ ڈالا ہوا ہے۔ غریب آدمی کے لیے تو کہیں کوئی آسانی دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ جامع منصوبہ بندی، محنت اوردیانت کا تیل ضرورت کے مطابق نہ ڈالے جانے کے باعث معیشت کا پہیہ جام ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف مہنگائی کا گراف ہے کہ نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا۔ معاشی الجھنیں اپنی جگہ اور معاشرتی پیچیدگیاں اپنی جگہ۔ فکر و نظر کی تطہیر کا سامان کیا جائے تو کچھ بہتری آئے۔ لوگ طرزِ فکر و عمل بدلنے کو تیار نہیں۔ اپنے وجود کی اصلاح پر مائل ہونے والے خال خال ہیں۔
ایک طرف پیپلز پارٹی ہے جو حکومت کو لتاڑنے میں لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف ن لیگ ہے جو برملا کہتی ہے کہ عمران خان سے اگر حکومت نہیں چلائی جارہی تو اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع نہ کریں، گھر جائیں۔ کام نہ کر پانے کی صورت میں کسی کو گھر جانے کا مشورہ دینا بہت خطرناک ہے۔ ہمارے ہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اگر گھر جانے کا یہی اصول یا فارمولا طے ہوگیا تو پھر سبھی گھر بیٹھ جائیں گے!
یاروں نے عشروں کی محنت سے معاملات کو بگاڑا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ میں راتوں رات سب کچھ درست کردوں گا۔ کوئی کہتا ہے کرپشن کا بازار گرم کرنے والوں سے اب آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ اب انقلاب آوے ای آوے اور وہ بھی بس کچھ دیر میں! مگر صاحب! یہ تو ع
صرف جذبات ہیں، جذبات میں کیا رکھا ہے
محض وعدے اور دعوے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ عمل کی دنیا جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ محنت کا حق ادا کرنے کی صورت ہی میں کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ محنت سب کے لیے ناگزیر ہے اور یہاں عالم یہ ہے کہ کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانے کی تمنا طبیعت کا بنیادی میلان بن کر رہ گئی ہے۔ گھر جانے کی بات بھی خوب ہے۔ کوئی بھی وزارت دیکھیے، کسی بھی محکمے کا جائزہ لیجیے۔ ہر طرف بے عملی، بد انتظامی اور کرپشن دکھائی دے گی۔ عمومی سطح پر سرکاری مشینری نے طے کرلیا ہے کہ کچھ بھی نہیں کرنا۔ منصوبے بروقت تو کیا مکمل ہوں گے، خاصی تاخیر سے بھی مکمل نہیں ہو پاتے۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ دی جائے تو وہ حل نہ ہو جائیں! ہمارے ہاں بنیادی مسائل کو عالمی اداروں کے تحت محفوظ قرار دیے جانے والے تاریخی ورثے کا سا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ حکومتوں کو یہ خوف سا لاحق رہتا ہے کہ اگر انہوں نے بنیادی مسائل حل کردیئے تو اعلیٰ سطح کا کوئی نقصان ہوجائے گا، قومی ورثہ ہاتھ سے جاتا رہے گا! یہی سبب ہے کہ بنیادی مسائل ترکے کی صورت منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ حکومتوں نے عشروں کی مسافت کے دوران بے عملی اور بد انتظامی کے دشت کی خاک چھانی ہے۔ کئی ادوار کی اجتماعی محنت کے ''ثمر‘‘ کے طور پر بہت سی خرابیاں آج محض ہمارے سامنے نہیں بلکہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ اِن خرابیوں کی ایسی عادت سی پڑگئی ہے کہ دور ہونے لگیں تو الجھن سی محسوس ہوتی ہے ؎
اِتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے ؍ اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
قسمت کی خوبی سے جنہیں اقتدار مل جاتا ہے وہ دن رات اِسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور تمام ارمان پورے کرلیں۔ تمنا صرف یہ ہوتی ہے کہ دل کی ہر تمنا رنگ لائے، پوری ہوکر رہے۔ اب اگر اس عمل میں قوم کا بہت کچھ داؤ پر لگتا ہے تو لگتا رہے۔ قومی مفادات کے تابع رہتے ہوئے سیاست کرنے کی آرزو کرنے والے اب یہاں ہیں کتنے؟ اور جو تھوڑے بہت ہیں وہ کس گنتی میں ہیں؟ کرپشن کا معاملہ اِس حد تک بگڑ چکا ہے کہ اب عوام بھی کرپشن میں لتھڑے ہوئے سیاست دانوں ہی کو پسند کرتے ہیں۔ پوری دیانت کے ساتھ کام کرنے والے اول تو خال خال ہیں اور اُنہیں پسند کرنے والوں اِس سے بھی کم۔ جو صراطِ تقسیم پر چلنے کی بات کرتے ہیں اور خرابیوں سے بچتے ہوئے چلنے کی تلقین کرتے ہیں اُنہیں حیرت سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے میں اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نکلے تو کیسے نکلے؟
سرکاری مشینری اور اہلِ سیاست کے درمیان بدنیتی اور بداعمالی کا مقابلہ جاری ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کی نقل کر رہا ہے اور کون کس کے لیے ''سورس آف انسپیریشن‘‘ ہے! سیاسی جماعتیں صرف اقتدار سے حصہ پانے کی متمنی رہتی ہیں۔ اِس منزل تک پہنچنے کے لیے اُنہیں خواہ کچھ کرنا پڑے، کر گزرتی ہیں۔ ملک چلانے کا معاملہ اُن کی توجہ کا مرکز نہیں ہوتا۔ ملک چلانے کے معاملے کو وہ کام چلاؤ انداز سے نمٹاتی ہیں۔ سارا زور صرف ایک نکتے پر ہوتا ہے ... اپنی تجوریاں بھرلی جائیں۔ لوگ جنہیں بڑے چاؤ سے منتخب کرتے ہیں کہ ملک کو ڈھنگ سے چلائیں گے وہ لُوٹ مار کا بازار گرم رکھنے میں جُت جاتے ہیں۔ یہ ہے عوام کا نصیب۔ فانیؔ بدایونی کہہ گئے ہیں ؎
فانیؔ سفینہ ڈوب نہ جائے تو کیا کرے
طوفان کو نہ دیکھ، ستم ناخدا کے دیکھ
ایک طرف دنیا ہے جو طوفان بن کر ہمیں ڈبونے پر تُلی رہتی ہے۔ سفینہ ذرا چلتا ہے کہ بھنور میں پھنسنے لگتا ہے۔ سفر کس سمت اور کس طور ہونا چاہیے یہ طے کرنا ناخدا کا کام ہے مگر جن سے ناخدائی کی توقع رکھیے اُنہیں اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی تگ و دَو سے فرصت نہیں۔ ایسے میں سفینہ اگر خود ہی ڈوب مرنے کا نہ سوچے تو اور کیا کرے۔
یہ ملک سفینہ ہے اور یہی ہماری کل متاع ہے۔ اِس کے ڈوبنے کا سامان ہوا تو سمجھ لیجیے موت کا سامان ہوا۔ جب تک یہ خطۂ ارض ہے تب تک ہمارا وجود ہے۔ خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا وقت تو کب کا آچکا۔ یہ سفینہ سلامت ہے تو اقوامِ عالم کے پانیوں میں ہمارے سفر کی گنجائش بھی موجود ہے اور ساحلِ مراد تک پہنچنے کی خواہش و اُمّید بھی توانا ہے۔ اب اس سے بڑھ کر بے حِسی اور بے عقلی کیا ہوگی کہ جس سفینے کے آغوش میں رہتے ہوئے ہم دُنیاوی اُمور کے پانیوں میں سفر کر رہے ہیں اُسی کو کمزور کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اِس سفینے کی ناخدائی جنہیں سونپی جاتی ہے اُن سے حساب طلب کرنا کچھ غلط نہیں۔ اہلِ وطن کو اس حوالے سے اپنی سوچ بدلنا پڑے گی۔ ہر طرح کے تعلق اور شناخت سے بالاتر ہوکر ہمیں ریاست کا نظم و نسق صرف اُنہیں سونپنا ہے جو واقعی اِس کے اہل ہوں۔ ایسا ہوگا تو ہی کچھ ہوسکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved