گزشتہ چند برسوں سے میںنے یہ نوٹ کیا ہے کہ لندن میں عوامی فورمز پر ہونے والے بحث مباحثے کے پروگراموں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ان کے ٹکٹ سستے نہیںہوتے لیکن ان مواقع پر ہال تقریباً بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگرچہ میں بھی چند ایک پروگراموں میں شرکت کر چکا ہوں لیکن نوٹنگ ہل گیٹ کے تابر نیکل (Tabernacle)میںہونے والا 15x5 کا پروگرام میرے لیے نیا تھا۔ اس پروگرام میں پانچ مقررین میںسے ہر ایک کو پندرہ منٹ دیے جاتے ہیںتا کہ وہ دیے گئے وسیع موضوع کے کسی بھی پہلو پر اظہار ِ خیال کرے ۔ چرچ کی اس تبدیل شدہ عمارت میں ایک تھیٹر اور ایک ریستو ران ہے۔ اس کے ہال میں بحث مباحثے کے پروگرام، ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بحث کا موضوع ’’پاکستان اور افغانستان ‘‘ تھا ۔ یہ ایک ہائوس فل شو تھا۔ زیادہ تر شرکاء میزوںکے گرد بیٹھے تھے اور مقررین کے خیالات سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرنکس سے بھی لطف اندو ز ہو رہے تھے۔ اس سے اس پروگرام کے انوکھے پن میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اس پروگرا م میں پاکستان کی مشہور ناول نگار کمیلا شمسی نے دوہزار سال پہلے کی ایک افغان ملکہ ، جس کے جاری کردہ سکے اُس کے عروج اور پھر زوال کا باعث بنے ، پر بہت عمدہ گفتگو کی۔ سلائیدز کے استعمال سے شرکاء کو سمجھایا گیا کہ افغان کلچر یونانی، انڈین اور وسطی ایشیائی کلچرز کے ادغام کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعدکابل میں برطانیہ کے سابق سفیر شیرارڈ کاپر کولز (Sherrard Cowper-Coles) ، جن کے بہت سے کیبل پیغامات نے افغان جنگ کی اندرونی کہانی پر روشنی ڈالی، نے خطاب کیا۔ وہ 2009ء اور2010ء میں پاکستان اور افغانستان کے لیے برطانیہ کے خصوصی ایلچی کے فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے لندن کے کیے گئے فیصلوںکے برعکس مشورہ دیا تھا۔ بنیادی طور پر برطانیہ نے امریکی پالیسیوں کے ساتھ جس طرح وابستگی کا اظہار کیا ہے، وہ افغانستان اور خطے کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ پروگرام میں قواعد کے مطابق پانچ مقررین نے ہی شامل ہونا تھا لیکن جب پروگرام کو طے کر لیا گیا تو پاکستان میں نیویارک ٹائمز کے بیور چیف ڈیکلن والش، جن کو پاکستان سے بے دخل کر دیا گیا تھا، کو بھی خصوصی طور پر اظہار ِ خیال کی دعوت دی گئی۔ میں نے گزشتہ کالم میں اُن کا ذکر کیا تھا۔انہوں نے اپنے پاکستان میں گزارے گئے نو سالوں اور اس دوران بنائے گئے دوستوں کا بڑی گرمجوشی سے ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان مغربی باشندوں کے اندازوںسے بہت مختلف ملک ہے۔ اُنہیںاس بات پر دکھ تھا کہ انہیں بغیر وجہ بتائے، صرف بہتّر گھنٹے کے نوٹس پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا اور ان بہتّر گھنٹوںکے دوران بھی وہ لاہورکے ایک ہوٹل میں عملاً قید میں رہے۔ اس دوران انہوں نے بہت سے دوستوں سے رابطہ کرتے ہوئے احکامات کو تبدیل کرانے کی کوشش کی۔ گفتگو کے وقفے کے دوران ہماری میز پر بیٹھے ایک غیرملکی دوست نے پوچھا کہ اتنے عمدہ صحافی کے ساتھ ایسی بدسلوکی کیوںکی گئی تو میںنے جواب دیا کہ مجھے بھی اس پر آپ کی طرح حیرت ہے کیونکہ مسٹر ڈیکلن کی رپورٹنگ ہمیشہ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہوتی ہے اور وہ پاکستان کے حالات کو بہت سے پاکستانیوںسے بھی بہتر جانتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اس ملک کے لیے ہمدردی کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔ بہرحال جس کسی نے بھی اُنہیں پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ، شاید وہ نہیں جانتا کہ نیویارک ٹائمز امریکی پالیسی سازوں پر کس قدر اثر رکھتا ہے۔ اس اہم اخبار کے بیورو چیف کو اس توہین آمیز طریقے سے ملک چھوڑنے کا کہنا صریحاً لاعلمی اور غصے کا اظہار ہے۔ مجھے امیدہے کہ نئی حکومت کی میڈیا اور خارجہ معاملات کا جائزہ لینے والی ٹیم اس فیصلے پر نظر ِ ثانی کرے گی۔ وگرنہ ہوسکتا ہے کہ نیویارک ٹائمز مسٹر ڈیکلن کی جگہ کسی ایسے نمائندے کو بھیج دے جو پاکستان کے بارے میں زیادہ باخبر اور ہمدرد نہ ہو۔ اگلے مقرر صداقت قادری، جو نیویارک میں مقیم ایک وکیل اور شرعی قوانین کی کتاب ’’ہیون آن ارتھ‘‘ کے مصنف ہیں‘ نے ہمیں بتایا کہ خلافت ِ عثمانیہ کے پانچ سو سال کے دوران چوروں کے ہاتھ قطع کرنے یا گناہ گاروں کوسنگسار کرنے کا شاید ہی کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔ پاکستان کے انتہائی باصلاحیت مصنف ندیم اسلم نے بڑے جذباتی انداز میں اُن دنوں کو یاد کیا جب اُن کی تخلیق سب سے پہلے بچوں کے ایک میگزین میں چھپی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ جب وہ پندرہ سال کی عمر میں انگلینڈ آئے تو انگریزی سے نا بلد تھے۔ پھر کئی سالوں کی شبانہ روز محنت سے انہوں نے انگریز ی سیکھی اور ایک صاحب طرز ناول نگارکے طور پر سامنے آئے۔اب تک وہ کئی ایک ادبی انعامات جیت چکے ہیں۔ آج کل میں ان کی ایک کتاب ’’Maps for Lost Lovers‘‘ کامطالعہ کر رہا ہوں۔اس کتاب میں انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں برطانیہ میں تارکین ِ وطن کا احوال بیان کیا ہے۔ چھٹے مقرر ولیم ڈیلرمپل (William Dalrymple)، جو ایک شاندار کہانی نویس ہیں، تھے۔ انہوں نے افغانستان میں 1839ء میں برطانیہ کی مہم جوئی اور اس کے تباہ کن انجام پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ اُس تین سالہ جنگ میں حصہ لینے والا شاید ہی کوئی برطانوی سپاہی زندہ واپس لوٹا تھا۔ انہوں نے ایک افغان قبائلی سردار کا حوالہ بھی دیا جس نے ایک برطانوی آفیسر سے پوچھا تھا۔۔۔’’تم ہمارے ملک میں داخل ہو گئے ہو، کیا واپسی کا راستہ بھی معلوم ہے؟‘‘اُس وقت بھی افغانستان کو وہی مسئلہ درپیش تھا جو آج بھی ہے کہ یہ ملک انتہائی غریب ہے، یہاں کوئی حملہ آور فوج زیادہ دن نہیں نکال سکتی۔ اگر وہ حکومت قائم کر بھی لے تو بہت جلد اس کے مالی وسائل جواب دے جائیںگے۔ برطانوی کمانڈر Elphinstone کی فوج کے ساتھ یہی کچھ ہوا تھا۔ اُس نے مقامی سرداروں کو رقم دے کر راضی کیا کہ وہ درّے کھلے رکھیں۔ جب رقم کی کمی واقع ہوئی تو ان سرداروں کو دی جانے والی رشوت میں بھی کمی کرنا پڑی، چنانچہ انہوں نے انڈیا جانے والے تمام راستے بند کر دیے۔ تاہم اُس وقت جس چیز نے برطانوی فوج کی تباہی میں سب سے زیادہ کردار اداکیا ، وہ ان کا افغان عورتوںکے ساتھ ناروا سلوک تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب الیگزنڈر برنز نے ایک افغان سردار کی محبوبہ پر قبضہ کیا تو برنز کا سرقلم کرکے ایک کھلی جگہ پر لٹکا دیا گیا۔ 21,000 سپاہیوں پر مشتمل مضبوط برطانوی فوج پر قہر نازل ہوا اور افغان جنگجو اُن پر متواتر حملے کرتے رہے جبکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑاور شدید موسم بھی لہو کا خراج لیتا رہا۔ ان سپاہیوں میںسے شاید ہی کوئی بچ نکلا ہو۔ ڈیلرمپل نے حال ہی میں کراچی میں اپنی شاندار کتاب ’’ریٹرن آف اے کنگ‘‘ کی تقریب ِ رونمائی کے موقع پر بھی یہی بات کی تھی ۔ فاضل مصنف کے مطابق برطانوی فوج کی شکست اور موجودہ افغان جنگ میں کچھ قدریں مشترک ہیں۔ اب بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جس طرح 1839ء میں برطانوی افسران افغانستان کے مقامی حالات کو سمجھنے میں غلطی کر گئے، آج نیٹو کمانڈر بھی اُسی غلطی کو دہرا رہے ہیں۔ تاریخ سے حاصل ہونے والا سبق یہ ہے کہ افغانستان پر چڑھائی کرنا آسان ہے لیکن اس کے بعد شروع ہونے والی مزاحمت سے بچنا دشوار ہے۔ افسوس، گفتگوکے اختتام پر سوال وجواب کے لیے وقت نہ بچا، بہرحال یہ بہت مفید نشست تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved