تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     15-08-2020

حضور قبلہ درست کیجیے ورنہ …

میرے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ ایک پاکستانی دو پاکستانیوں سے قوی تر ہوتا ہے۔ استدلال ان کا یہ ہوتا تھا کہ پاکستانی ذہین قوم ہے۔ ہمارا عام شہری محنت اور دائو پیچ سے کافی کچھ حاصل کر لیتا ہے۔ اگر ہمارے شہری کے پاس وسائل اور طاقت آ جائے تو وہ سسٹم کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی مافیا تخلیق کر لیتا ہے؛ البتہ دو پاکستانی مل کر کوئی کام شروع کریں تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگتے ہیں۔
میرا ان کی اس بات پر اکثر اختلاف رہتا۔ میں ان سے کہتا کہ مافیا بھی ایک گروپ ہوتا ہے جو تمام گروپ ممبران کے فائدے کے لیے مل کر غلط سلط کام بڑے ڈسپلن سے کرتا ہے‘ یہ لوگ ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچتے۔ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اپنے مفادات کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے والے چند گروہ عظیم قوم نہیں بنا سکتے بلکہ ایسے گروہ قومی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں‘ خود غرضی اور لالچ قوموں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ چند افراد اور چند گروہ اپنے فائدے کے لیے اخلاقی اقدار اور میرٹ کو پامال کرتے ہیں۔ مایوسی پھیلاتے ہیں۔
میرے ایک اور دوست اپنی ساری سروس میں سرکاری محکموں کا آڈٹ کرتے رہے۔ انہیں قاعدے، قانون کے مطابق اخراجات کرنے کا درس دیتے رہے۔ وہ اگلے روز پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں کے قصے سنانے لگے۔ جب سے پرفارمنس آڈٹ کا نظریہ نمایاں ہوا ہے‘ آڈٹ آفیسر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی کیا ہے۔ پبلک کو حکومتی اداروں سے کوئی فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں یا نہیں؟ اور ان فوائد کو اور بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ نیک کام کرتے ہوئے وہ کئی بے ضابطگیوں کے چشم دید گواہ بھی بن جاتے ہیں۔
انواع و اقسام کے ٹیسٹوں نے ڈاکٹر کا کام خاصا آسان کر دیا ہے۔ پیتھالوجی بہت ترقی کر گئی ہے اور ریڈیالوجی کے پاس انسانی جسم کے اندر جھانکنے اور تصویریں بنانے کی قوت آ گئی ہے لہٰذا طبیب کا کام خاصا آسان ہو گیا ہے‘ لیکن ضرورت سے زیادہ ٹیسٹ لکھنا بھی پروفیشنل اخلاقیات کے خلاف ہے۔ عام طور پر ہوتا یوں ہے کہ ڈاکٹر صاحبان مریض کو متعدد لیبارٹری ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں۔ لیبارٹری ہر بڑے سرکاری ہسپتال میں موجود ہوتی ہے۔ مریض لیبارٹری کارخ کرتا ہے تو راستے میں اسے کوئی نہ کوئی ایسا ''ہمدرد‘‘ شخص ملتا ہے جو مفت مشورہ دیتا ہے کہ سرکاری لیب کے ٹیسٹ نتائج اکثر غلط نکلتے ہیں‘ ہسپتال کے پاس ہی پرائیویٹ لیب والے بیٹھے ہیں ان کا کام اعلیٰ معیار کا ہے؛ چنانچہ بھولا بھالا مریض کسی پرائیویٹ لیب کے کولیکشن سنٹر میں اپنے سیمپل دیتا ہے اور بھاری فیس ادا کرتا ہے۔ ایسی مشکوک تجزیہ گاہیں صرف اپنا لیٹر ہیڈ استعمال کر کے ''کمائی‘‘ کرتی ہیں۔ سیمپل اندر سرکاری تجزیہ گاہ جاتے ہیں‘ وہاں ہی ٹیسٹ ہوتے ہی اور نتائج پرائیویٹ لیب کے کولیکشن سنٹر Collection centre واپس چلے جاتے ہیں۔ مریض کو گمان ہوتا ہے کہ ٹیسٹ کسی اچھی پرائیویٹ لیب میں ہوئے ہیں۔ اس دوران اس کی جیب خاصی ہلکی ہو چکی ہوتی ہے۔ اس مافیا کے کئی ارکان ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی پاسداری مکمل ''ایمانداری‘‘ سے کرتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ دو چار بڑی اور نیک نام تجزیہ گاہیں اس دو نمبر کام سے اجتناب کرتی ہیں۔
میں نے ایم اے کرنے کے بعد تین سال لاہور کے ایک کالج میں پڑھایا‘ لہٰذا شعبۂ تدریس میں میرے بہت سے دوست تھے اور کئی ایک کے ساتھ تعلق تاحال قائم ہے۔ بعد میں میرے چند شاگرد بھی تعلیم و تدریس کے نیک پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ اگلے روز ان میں سے ایک سے ملاقات ہوئی۔ موصوف ایک عرصہ تک میٹرک اور انٹرمیڈیٹ لیول کے امتحانات کے ناظم رہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ شعبہ تعلیم کا حال کیسا ہے؟ کہنے لگے: خاصا پتلا ہے‘ طلبا اور طالبات نمبر بے شمار لے رہے ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد پاکستان نے عالمی لیول کا ایک بھی سائنس دان پیدا نہیں کیا۔ تعلیم کا قتل ہو رہا ہے، مگر قاتلوں کے ہاتھوں پر آپ کو خون کا نشان تک نہیں ملے گا۔ نقل کا قابل نفرت عمل اب ایک سائنس بن چکا ہے اور اساتذہ اس عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔ نصابی کتابیں اخلاقیات کے دروس سے بھری پڑی ہیں۔ کچھ اساتذہ سارا سال اعلیٰ اخلاقیات کا درس دیتے ہیں اور تعلیمی سال کے اختتام پر طلبا کو نقل کرنے میں پوری مدد فراہم کرتے ہیں تاکہ نتائج شاندار نظر آئیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
میں نے ساری بات کی آسان طریقے سے وضاحت چاہی تو موصوف کہنے لگے کہ صرف ایک مثال سے آپ کو سمجھا دیتا ہوں۔ میٹرک کے فائنل امتحان میں اب تقریباً ہر مضمون میں ایک معروضی (Objective) سوال ہوتا ہے جو اصل پرچے سے پہلے الگ سے لیا جاتا ہے۔ اس مفصل سوال کے چالیس فیصد مارکس ہوتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی دور دراز سنٹر میں یہ معروضی سوال وقت سے آدھا پونہ گھنٹہ پہلے کھول دیا جاتا ہے اور پھر یہ سوال سمارٹ فون کے ذریعے آنا فاناً ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ چونکہ اس سوال کے جوابات نہایت مختصر ہوتے ہیں لہٰذا اساتذہ چند منٹوں میں بچوں کو معروضی پرچہ حل کرا دیتے ہیں۔ اس طرح ہر نالائق سے نالائق طالب علم کم از کم چالیس فیصد مارکس لے کر پاس ہو جاتا ہے اور سکول کا رزلٹ سو فیصد نکلتا ہے۔
اس خوفناک داستان کو سن کر مجھے Axact کی جعلی ڈگریاں یاد آئیں۔ پی آئی اے کے کپتانوں اور نائب کپتانوں کے مبینہ جعلی لائسنس نظروں میں گھوم گئے۔ یہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جعل سازی اور ہیرا پھیری اس کی شناخت بن رہی ہے۔ اے اللہ ہم پر رحمت فرما۔ میرے ذہن نے جواب دیا کہ اللہ ہماری قوم پر تب رحمت فرمائیں گے جب ہم اپنی خباثت سے مکمل تائب ہو جائیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اخلاقی بحران کا بری طرح شکار ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2018ء میں ایک صوبائی فنانس سیکرٹری کے گھر سے کروڑوں روپے کیش اور بے شمار زیورات پکڑے گئے تھے۔ پھر پتہ چلا کہ ڈیفنس کراچی میں اس کی درجن بھر کمرشل اور رہائشی جائیدادیں بھی تھیں۔ اس نے دو ارب روپے کی نیب کے ساتھ پلی بارگین کی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پلی بارگین کا سب سے بڑا کیس تھا۔
2015ء میں نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا کہ ایک پاکستانی گروہ جعلی ڈگریوں کا بہت بڑا نیٹ ورک انٹرنیشنل لیول پر چلا رہا ہے۔ ہمارے ادارے فوری طور پر متحرک ہوئے اور ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے خفیہ اور تفتیشی ادارے سوئے ہوئے تھے۔ اگر یہ مکروہ دھندا زیادہ تر ملک سے باہر ہو رہا تھا تو سفارت خانوں نے خبردار کیوں نہیں کیا؟
اگر اوپر بیان کئے گئے محکمۂ صحت اور محکمہ تعلیم کے بارے میں واقعات پانچ فیصد بھی درست ہیں تو میرے لیے یہ امر تشویشناک ہے۔ جس قوم کے صحت اور تعلیم کے شعبے کھوکھلے ہو جائیں اسے دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایسی اخلاقی سے عاری قوم خود اپنے ہی بوجھ سے ایک دن دھڑام سے گر جاتی ہے۔ ان مسائل کے حل تجویز کرنا میرا کام نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دونوں محکموں میں اب بھی اچھے لوگ موجود ہیں جو حل بنا سکتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھے اور نیک نام سرکاری کارندے کم تعداد میں ہیں اور وہ خاموشی میں اپنی نجات سمجھتے ہیں۔ کیا انگلینڈ، امریکہ یا کینیڈا میں امتحان میں نقل ہو سکتی ہے۔ وہاں دو نمبر کی جعلی لیبارٹریاں بھی نہیں تو ہماری ایمانداری تو غیر مسلم لے گئے اور اسی لیے ان کے معاشرے ترقی کر رہے ہیں۔ ہمارا قبلہ درست نہیں۔ اس کی فوری اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارا یہ قومی سفر سارے کا سارا رائیگاں جائے گا۔ حضور اپنا قبلہ درست کیجیے ورنہ بدنامی ہے، تباہی ہے، بربادی ہے...

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved