دین کا مدار نقل و روایت پر ہے اور روایت کے مستند ہونے کے لیے ثقہ شہادت ضروری ہے۔پس پورے دین کے قطعی اورقابلِ اعتبار ہونے کا مدار صحابہ کرام کی عدالت ‘ صداقت اور دیانت پر ہے‘ یعنی صحابہ کرام دین کی پوری عمارت کے معتبر ومستند ہونے کے لیے خشتِ اول کادرجہ رکھتے ہیں۔صحابی اسے کہتے ہیں‘جسے ایمان کی حالت میںرسول اللہﷺکے ساتھ آپ کی حیاتِ ظاہری میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ایمان ہی پر اُس کا خاتمہ ہوا‘ خواہ رسول اللہ ﷺکا یہ دیدار اور رفاقت تھوڑے وقت کے لیے ہو‘سو آج اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے خواب میں رسول اللہﷺکی زیارت کی ہے‘پس اگر وہ سچا ہے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے اور اگرجھوٹا ہے‘ تواس کے لیے آپ ﷺکی بڑی سخت وعیدہے:''جس نے مجھے خواب میں دیکھاتو اس نے درحقیقت مجھ ہی کو دیکھا‘ کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتااور جس نے قصداً مجھ پر جھوٹ بولاتو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘ (بخاری:110)‘‘۔ تاہم خواب میں سرورِ کائناتﷺ کی زیارت سے کوئی صحابی نہیں بن سکتا۔
صحابہ کرام کا یہ اختصاص اس لیے ہے کہ انہوں نے جاگتی آنکھوں سے رُخِ مصطفی ﷺکا دیدار کیا‘ آپ کو جَلوت وخَلوت ‘ سوتے جاگتے ‘ رَزم وبزم ‘ کیفیتِ جلال و جمال ‘ الغرض ہر حال اور ہر انداز میں دیکھا۔ انہوںنے آپ پر وحی اترنے کی کیفیات کو دیکھا‘ جبریلِ امین کو بشری لباس میں آپ ﷺکے سامنے زانوئے تلمُّذ تہ کرکے تعلیم ِ صحابہ کے لیے سوالات کرتے اور جوابات کی تصدیق کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ وہ مبارَک نفوس تھے‘ جن کی روح وباطن کا تزکیہ رسول اللہ ﷺنے خود فرمایا تھا ‘ آپﷺاُن کے براہِ راست مُرَبِّی تھے ‘یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی مقدس جماعت کمالاتِ نبو ت کی آئینہ دار اور اوصافِ رسالت کی مظہر اَتَمّ ہے‘ نبی کریمﷺکی پاکیزہ زندگی کو پہچاننے کا معیار صحابہ کرام کی زندگی ہے‘ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہِ راست انوارِ نبوت سے استفادہ کیا ‘ آفتابِ نبوت کی شعائیںکسی حائل کے بغیرصرف جماعتِ صحابہ پر پڑی ہیں‘چنانچہ قرآن کریم میں من حیث الجماعت اگر کسی کی تقدیس بیان کی گئی ہے تو وہ صحابہ کرام ہیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ فرمایاکرتے تھے:''جس شخص نے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو اُن لوگوں کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزرچکے ‘وہ رحمت عالمﷺکے صحابہ ہیں‘جو اس اُمت کا بہترین طبقہ ہے‘ اُن کے دل پاکیزہ تھے‘ اُن کے علم میں گہرائی تھی‘ان میںتصنُّع نہیں تھا‘اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے شرفِ صحابیت اور دین کی اشاعت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا تھا‘پس اُن کی عظمت کو پہچانو‘ان کے نقشِ قدم پر چلو اور اُن کی سیرتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو ‘اس لیے کہ ہدایت کے راستے پر یہی جماعت تھی‘ (مشکوٰۃ:193)‘‘۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرمایاکرتے تھے:''رسول اللہﷺکے کسی صحابی کے بارے میں کوئی نازیبا بات نہ کرو‘کیونکہ اُن کا نبی کریمﷺکے ساتھ ایک لمحہ گزارنا تمہاری پوری زندگی کے اعمال سے افضل ہے‘(سنن ابن ماجہ:162)‘‘۔
یہ صحابہ کرامؓ کی خصوصیت ہے کہ قرآن مجید میںان کے فضائل و محاسن تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں‘ اسی لیے کئی آیات کے مرادی معنی اور ان کے مصادیق کو جاننے کے لیے شانِ نزول اور پس منظر کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اوران کا تناظر صحابہ کرام کے احوال سے جڑا ہوتا ہے‘قرآن کریم میں جابجا اُن کے مقامات عالیہ ‘حسنِ عاقبت اور دین میں ان کی استقامت کابیان ہے:(1)رسول اللہﷺکے ساتھ صحابۂ کرام کے ادب واحترام ‘اُن کی پرہیزگاری و تقویٰ اور اُن کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم کی گواہی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہﷺ کے سامنے پست رکھتے ہیں‘ یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے چن لیا ہے‘ ان لوگوں کے لیے مغفرت اوراجرِ عظیم ہے‘(الحجرات:3)‘‘۔ (2):صحابہ کی قربانیوں اوراستقامت کی شہادت دیتے ہوئے فرمایا:''اہلِ ایمان میں سے کچھ مردانِ باوفا ایسے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا‘ اسے سچا کردکھایا‘ اُن میں سے بعض نے اپنی نذرِ وفا پوری کردی اور بعض اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں‘ (الاحزاب:23)‘‘۔(3):صحابہ کے کفراور فسق و فجورسے محفوظ ہونے اوران کے دلوں میں ایمان کے راسخ ہونے کی بابت فرمایا:''اور جان لو کہ تم میں رسول اللہ ﷺموجودہیں‘ اگروہ بہت سے کاموں میں تمہاری بات مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جائو‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنایا اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیااور کفر‘فسق اورنافرمانی سے متنفر کردیا‘یہی لوگ ہدایت پر ہیں‘(الحجرات:7-8)‘‘۔اﷲتعالیٰ نے صحابہ کو ایمان کا معیارقرار دیتے ہوئے فرمایا:(1)''پھراگر اہل کتاب تمہاری طرح ایمان لے آئیں ‘تو بے شک وہ ہدایت پا جائیں گے‘(البقرہ: 137)‘‘ ۔(2):''اور جب اُن سے کہاجاتا ہے:ایمان لائو جیساکہ لوگ ایمان لائے ‘(البقرہ : 13)‘‘۔ ان آیات میں صحابۂ کرام کو ایمان کا معیار قرار دیا گیا ہے۔صحابہ کرام کو اپنی رضا اورمغفرت وانعامات کی نوید سناتے ہوئے صحابہ سے فرمایا:''تم میں سے ایمان لانے میں سبقت کرنے والے اور اَوّلیت کا شرف حاصل کرنے والے اور وہ جنہوں نے احسان کے ساتھ ان کی پیروی کی‘ اللہ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کررکھی ہیں ‘ جن کے نیچے دریا جاری ہیں ‘ وہ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘ یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘(التوبہ:100)‘‘۔بیعتِ رضوان کے موقع پر موجودصحابہ کرام کے متعلق فرمایا:یقینا اللہ مومنوں سے اُس وقت راضی ہوگیا ‘ جب وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے‘ (الفتح:18)‘‘۔
اَصحابِ رسول کی مدح میں فرمایا:''محمدﷺاللہ کے رسول ہیں ‘ جو اُن کے اصحاب ہیں ‘وہ کفّارپر نہایت سخت اور آپس میںانتہائی مہربان ہیں ‘ تو انہیں رکوع کرتے ہوئے‘ سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا‘ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں ‘ اُن کی نشانی ان کے چہروں پر سجدوں کا نور ہے ‘ اُ ن کی یہ صفت تورات میں ہے اور انجیل میں ان کاوصف یہ بیان ہوا ہے:جیسے ایک کھیتی ہے ‘ اُس نے ایک باریک کونپل نکالی‘ پھر اس نے طاقت پکڑی ‘ پھر وہ موٹی ہوگئی ‘ پھر وہ مضبوط ہوکراپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی‘ کسانوں کو خوب بھلی لگی تاکہ کفّار کے دل جلیں ‘ اللہ نے ایمان والوں اوراُن میں سے نیک اَعمال کرنے والوں سے مغفر ت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ‘ (الفتح: 29)‘‘۔یہاں کھیتی سے مراد صحابہ کرام کے قلوب‘ بیج سے مراد ایمان اور کاشت کار سے مراد رسول اللہ ﷺکی ذاتِ گرامی ہے‘ جنہوں نے اپنی دعوتِ حق کا ثمر بہت جلد صحابہ کرام کی وفاواخلاص‘ ورع وتقویٰ ‘ صداقت وعدالت‘ دیانت وامانت اور عزیمت واستقامت کی صورت میں دیکھا اور روحانی وقلبی مسرت سے سرشار ہوئے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح صحابۂ کرامؓ میں باہم ایک دوسرے پر فضیلت ایک مسلّمہ امر ہے‘ سب سے اوّلین خلفائے راشدین کا درجہ اُن کی خلافت کی ترتیب کے مطابق ہے ‘اُن کے بعد ابتدائی مرحلے میں اسلام قبول کرنے والوں کا ہے‘ پھر اُن کا جو اُس وقت ایمان لائے جب مسلمانوں کی کل تعداد چالیس تھی ‘ پھراُن کا جنہوں نے راہِ خدا میں ہجرت کا شرف حاصل کیا۔ انصار میں سے وہ جو بیعتِ عقبہ اُولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے ‘ پھر اُن کا جو بدر اور اُحدمیں شریک ہوئے ‘ پھرجنہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا‘ پھر وہ جو صلح حدیبیہ میں شریک رہے‘ پھروہ جو فتحِ مکہ میں شامل تھے‘ پھر وہ جوفتح مکہ کے بعد اسلام لائے ‘ انہیں'' طُلَقَائ‘‘ کہا جاتاہے۔ صحابۂ کرام کی ایک دوسرے پرفضیلت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے:''تم میں سے کوئی ان کے برابر نہیں ہوسکتا‘ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا اور کافروں سے قِتال کیا ‘ اُن کا درجہ اُن سے بہت بڑا ہے‘ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا‘ (مگر یاد رکھو)اللہ نے اُن سب سے اچھے انجام کا وعدہ فرمایا ہے‘(الحدید:10)‘‘۔
لہٰذا صحابہ کرام کے مابین بعض شعبوں میں فضیلت کا بیان کرنا تو جائز ہے‘ مگر کسی کی فضیلت کو بیان کرنے میں یہ انداز اختیار کرنا کہ دوسرے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نمایاں ہو‘ رَوا نہیں ہے۔چنانچہ رسول اللہﷺنے فرمایا:''خبردار!میرے اَصحاب کی اہانت کے بارے میں اللہ سے ڈرو ‘ میرے بعد انہیں اپنی ملامت کا ہدف نہ بنانا ‘ سو جس نے اُن سے محبت کی‘ میری وجہ سے کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا تومیری وجہ سے رکھا اور جس نے انہیں اذیت پہنچائی تو اُس نے درحقیقت مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ کو اذیت دی تو وہ یقینا اُسے اپنے عذاب کی گرفت میں لے گا‘(ترمذی:3862)‘‘۔
اُمّت میں صحابۂ کرام کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں ہے‘ وہ سب بشر تھے اور معصوم عنِ الخطا نہیں تھے‘ لیکن رسول اللہﷺکے نورِ نبوت کے فیضان اور آپ کی تربیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں گناہوں سے محفوظ رہنے کی سعادت عطا فرمائی ۔ ایسی متعدد مثالیں احادیثِ مبارَکہ میں موجود ہیں‘ اگر بشری تقاضے کے تحت اُن میں سے چند افراد سے خطا کا صدور بھی ہوا‘ تواللہ تعالیٰ کے کرم سے وہ جلد اس پر متنبّہ ہوگئے‘خشیتِ الٰہی کا اُن پر غلبہ ہوا ‘ انہیں توبۂ مقبولہ کی سعادت نصیب ہوئی اور گناہوں سے پاک ہو کر دارِ آخرت میں گئے۔ ایک بدری صحابی سے خطا ہوگئی ‘حضرت عمرؓ نے شدید ردِّعمل کا اظہار کیا ‘تورسول اللہﷺ نے فرمایا:''یہ بدر میں شریک تھے ‘جان لو کہ اللہ اہلِ بدر کے احوال پر مطلع تھااوران کی بابت فرماچکا ہے کہ تم جو چاہو کرو‘ میں نے تمہیں بخش دیا ہے‘(بخاری:3007)‘‘۔
علامہ سید احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں:''فضیلت صحابۂ کرام سے متعلق صرف ایک بات عرض کردوں:تمام جہانوں کے غوث‘اَبدال‘اَقطاب‘صُلَحا ‘ نُقَباء اور تمام عابدین ‘عارفین ‘متّقین‘مومنین‘صالحین اور اولیاء کاملین جمع ہوجائیں اور ان میں سے کسی نے سرکار کا جمال ِ پاک اپنی ظاہری آنکھوں سے اپنی ظاہری حیات میں نہ دیکھا ہو ‘مگر سینکڑوں برس انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہو‘ سینکڑوں برس انہوں نے شب بیداری سے کام لیا ہو ‘راتوں کو جاگ کر انہوں نے اللہ کی عبادت کی ہو ‘دن میں روزے رکھے ہوں ‘حج کیے ہو ں‘زکوٰۃ دی ہو اور کوئی نیکی نہ چھوڑی ہو ‘مگر خدا کی قسم!اس کے باوجود یہ سب مل کر بھی ایک صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے لیے سجدے کرنے کا وہ ثواب نہیں رکھا جو ایمان اور محبت کے ساتھ مصطفیﷺ کے دیکھنے کا ثواب رکھا ہے‘ (خطبات کاظمی:جلد:4ص:138)‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved