ڈونلڈ ٹرمپ کی آشیرباد سے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ عرب اسرائیل تنازعہ رفتہ رفتہ دفن ہو جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی چاندنی اترنے لگے گی ۔عرب اور اسرائیلی اس روشنی میں ترقی کے زینے چڑھتے چلے جائیں گے ۔ اس پس منظر میں ہمارا سوشل میڈیا بریگیڈ یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟ان کا یہ سوال دیکھیں تو بیس سال پرانا ایک ٹی وی کمرشل یاد آتاہے ۔ بچّہ بھاگ کر اپنی ماں کے پاس آتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہمسایوں نے فلاں کام شروع کر دیا ہے ۔ ماں کہتی ہے ‘ اچھا بیٹا کل سے ہم بھی شروع کر دیں گے ۔ وہ بڑے لاڈ سے کہتاہے : امی آج سے !ان'' معصوموں‘‘ کی خواہش بھی اس بچے کے اصرار جیسی نظر لگتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں‘ ہر معاملے پر جو اظہارِ خیال فرماتے پائے جاتے ہیں ‘ خواہ معاملے کی سنگینی اور نزاکتوں کا ذرا برابر ادراک نہ ہو۔ان کا فرمانا یہ ہے کہ جب عرب ہی پیچھے ہت گئے ہیں تو پاکستان کیوں خواہ مخواہ اسرائیل سے کشیدگی مول لے ؟ آج کل ویسے بھی فیشن یہ ہے کہ اپنے ان نظریات کے خلاف بھی ڈٹ کر بات کی جائے ‘ کل تک جن پر بات کرنا ممکن نہ تھا۔
ہر زمانے کا ایک فیشن ہوتاہے ۔ اس فیشن کے خلاف بات کرنا بہت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہوتاہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا‘ جب پوری دنیا میں سوویت جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ امریکہ واحد سپر پاور نہیں تھا بلکہ دو میں سے محض ایک ہوا کرتا تھا۔ چاند پہ پہلا انسانی قدم رکھنے کے لیے سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان دوڑ جاری تھی ۔ سوویت یونین اور امریکہ ‘ دونوں ہی ہر سال پانچ پانچ‘ چھ چھ راکٹ چاند کی طرف روانہ کر رہے تھے ۔سوویت یونین کی ایک تاریخ تھی۔ ہمسایہ ریاستوں کو فتح کرنے کی ۔کہیں افواج اتار دی جاتیں ‘ کہیں روبل پھینک کر انقلاب برپا کر دیا جاتا۔ 2014ء میں بھی روس نے یورپ نواز حکومت گراتے ہوئے ہمسایہ ریاست کریمیا کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ 1979ء میں سوویت افواج افغانستان میں اتریں تو سوویت نغمے پاکستان میں گنگنائے جانے لگے ۔ فیشن کا اثر دیکھئے ‘دیکھتے ہی دیکھتے آدھا پاکستان کامریڈ ہو گیا ۔ انقلابی نظمیں لکھی جا رہی تھیں ۔ کمیونزم کا لفظ ایک دم فیشن کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔ان دنوں سوویت یونین کے خلاف بات کرنے والے دیوانے سمجھے جا رہے تھے ۔ پھر کیا ہوا ؟ کہاں گئی سوویت عظمت ؟ کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین تو کبھی پسپا ہوا ہی نہیں ‘لیکن ایک عشرے میں ساری سوویت عظمت دریائے آمو میں بہہ گئی ۔ منصوبہ تو یہ تھا کہ پوری دنیا پر کمیونزم کا پرچم لہرانا تھا۔ کہاں گیا کمیونزم؟
آج ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے توجنونی ہیں ۔ پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاشی فوائد گنوائے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اسرائیل کے ساتھ مسلمانوں کے تنازعے کا آغاز کیا 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے ہوا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کیا پاکستان کی وجہ سے ہے ؟ ایسا نہیں ہے۔ دشمنی بہت پرانی ہے ۔ چودہ سو سال پہلے کی بات ہے ‘ جب یہودیوں کو علم ہوا کہ آخری پیغمبر ؐ مبعوث ہو گئے ہیں او روہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ‘ اسی روز اس تنازعے کی بنیاد انہوں نے رکھ دی تھی ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم لاڈلے ہیں ۔ ان گنت پیغمبر ہم میں مبعوث ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ غیر یہودیوں میں آخری نبیؐ مبعوث کیے جا سکتے ہیں ۔ اس کے بعد جس جس طرح وہ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے خواب دیکھتے رہے اور جو جو سازشیں کرتے رہے اور پھر کیسے انہیں مدینہ منورہ سے نکال باہر کیا گیا ‘ وہ ہم سب جانتے ہیں ۔
میں آپ کو بتا تاہوں ‘ آگے کیا ہوگا۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ تمام عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے ‘ان کے اعصاب ٹوٹ گئے ہیں اور وہ تھک چکے ہیں‘ لیکن پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اگر کوئی پاکستانی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کرے گی تو عوام سڑکوں پہ ہوں گے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ ایسا کرنے والی حکومت خود بھی برقرار نہ رہ سکے ۔ ہر ملک کے کچھ زمینی حقائق ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جس نے بھی کوشش کی‘ اس کا اقتدار مٹی میں مل جائے گا ۔ 2005ء میں پرویز مشرف کے وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیرِ خارجہ سلون شیرون سے ملاقات کی تو اس کا مقصد اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا ہی تھا۔ نتائج لیکن اس قدر خوفناک تھے کہ اقتدار پر مکمل گرفت رکھنے والا پرویز مشرف ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکے۔ حق تو حق ہی ہوتاہے ‘ خواہ اسے حق کہنے والا ایک ہی انسان باقی ہو۔ کیا آپ نے دجّال کے بارے میں نہیں پڑھا۔ ٹیکنالوجی ساری اس کے ہاتھ میں ہوگی ۔ وہ اپنے ماننے والوں پر رزق نازل کرے گا اور اپنے مخالفین کو بھوکا مار دے گا۔ وہ مُردوں کو بظاہر زندہ کر دکھائے گا ۔ مسلمانوں کی ایک بڑ ی قابلِ ذکر تعداد دجال سے جاملے گی ۔ اس وقت بھی فیشن ہوگا ‘ دجال کے سامنے سرنڈر کرنا ۔ پھر کیا ہوگا ؟ کیا دجال دائمی عظمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائے گا؟
پھر ایک جماعت اٹھے گی جوصرف حق پر ہی نہیں ہوگی بلکہ آخری درجے کی دانا بھی ۔ یہ دنیا خیر و شر کی کشمکش کے لیے بنائی گئی ہے ۔ یہودیوں کا غلبہ ہمیشہ باقی رہنے والا نہیں ۔لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے دلوں سے انتہا پسندی نکال دینی چاہیے۔ بالکل ٹھیک‘ ذرا آپ جائیں اور نریندر مودی او رنیتن یاہو کے دل سے انتہا پسندی نکال کر دکھائیں۔قرآن کہتاہے کہ تم مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائو گے۔بھارتیوں نے آج تک قیامِ پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ آپ کیسے صحت مند روابط پر انہیں راضی کر سکتے ہیں ۔ آج بھی وہاں ساری انتخابی مہم پاکستان مخالف جذبات پہ لڑی جاتی ہے ۔
دو روز پہلے اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے اداریے میں لکھا تھا کہ آہستہ آہستہ ترکی اسرائیل کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ترکی نے تو پہلے دن اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ جی ہاں‘ لیکن یہ کمال اتا ترک کا ترکی تھا‘ جہاں خواتین کو سر ڈھانپنے اور مسجد سے اذان دینے کی اجازت نہیں تھی ۔ مئی 2010ء میں جب غزہ کے لیے امداد لے کر جانے والے جہاز فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل نے حملہ کیا تو یہ ترک ہی تھے‘ بھرپور دبائو ڈال کر جنہوں نے اسرائیلیوں کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔
حقیقت یہی ہے کہ پاک اور ترک افواج بالآخرصیہونیوں کو شکست دیں گی۔ پاک فضائیہ نے گزشتہ برس بھارتی لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا۔ 2015ء میں ترکوں نے روسی جنگی طیارہ گرا دیا تھا۔ دنیا کی کوئی اور فوج اس کا خواب بھی دیکھ نہ سکتی تھی ۔پاک اور ترک افواج کی دہشت دنیا پہ قائم ہے ۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف دنیا کی خوفناک ترین جنگ سے نکل آیا ہے اور وہ بھی اس حال میں کہ مشرق میں بھارت نے ہمیشہ اسے اپنی طرف الجھائے رکھا۔
جنگ تو غریب ہی لڑتے ہیں ۔ عربوں کے پاس کتنی دولت تھی ‘ جب وہ دنیا فتح کر رہے تھے؟ کبھی دیکھا ہے کہ کوئی کھرب پتی بندہ بندوق اٹھا کر دشمنوں پہ فائرنگ کر رہا ہو ۔متحدہ عرب امارات والوں پہ کون سی بھوک طاری تھی کہ وہ گھٹنوں کے بل جھک گئے ۔ یہ بھوک مٹانے کی خواہش نہیں ‘ دولت میں دن دوگنے رات چوگنے اضافے کی خواہش ہے ۔خواہش ان کی یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کر کے اگر کوئی اقتصادی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں تو کیوں نہ سمیٹے جائیں ۔ایک ذرا صبر!متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر ذرا صبر سے کام لیں ۔ یہ تو صرف ایک واقعہ ہے اور نتیجہ خیز ہرگز نہیں۔خدا نے دنیا اسرائیل کے حوالے نہیں کردی۔ آگے آگے دیکھئے‘ ہوتا ہے کیا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved