تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     16-08-2020

’’فیلڈ مارشل‘‘ ضیاالحق کا شکریہ

جنرل محمد ضیاالحق کو اِس دُنیا سے رخصت ہوئے بتیس سال بیت گئے۔ 1988ء کے ماہِ اگست کی سترہ تاریخ کو ان کا فوجی طیارہ بہاولپور کے نزدیک حادثے کا شکار ہوا، اور وہ ٹینکوں کا ایک نمائشی مظاہرہ دیکھنے کے بعد اسلام آباد واپس آنے کی بجائے وہاں پہنچ گئے، جہاں جانا تو سب کو ہے، واپس کسی نے نہیں آنا۔ جنرل صاحب کے ساتھ جان دینے والوں میں چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل اختر عبدالرحمن کے علاوہ ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرل اور پانچ بریگیڈیئر بھی شامل تھے۔ پاکستان میں متعین امریکی سفیر اور پینٹاگون کے ایک نمائندہ فوجی افسر بھی اس بدقسمت طیارے میں سوار تھے۔ ابھی تک اس طیارے کی تباہی کے اسباب کا تعین نہیں کیا جاسکا، نہ وہ ہاتھ تلاش کیے جا سکے ہیں جو اس کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے جو دستانے پہن رکھے تھے، وہ لہو کی تلاش میں رکاوٹ بن گئے۔ ان میں سے کون ابھی زندہ ہے، اور کون کون اپنی فرد عمل کے ساتھ منصفِ حقیقی کے روبرو پیش ہو چکا، اس بارے میں بھی قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا ممکن نہیں۔ جنرل ضیاالحق کو اسلام آباد کی فیصل مسجد کے زیر سایہ دفن کیا گیا۔ لاکھوں افراد جنازے میں شریک ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ میں کم ہی افراد کو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے الوداع کہا ہو گا۔ جنرل صاحب نے جان دے کر اپنی زندگی کا ثبوت دے دیا تھا، اور ان کے مخالفین دم بخود رہ گئے تھے۔ ان کے خون سے جو ''انقلاب‘‘ اٹھا اِس نے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر مسلم لیگ(ن) کی صورت میں خود کو منوایا، اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک توانا سیاسی جماعت کھڑی کر دی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا، لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ 1977ء کے عام انتخابات میں بھٹو مرحوم اور ان کے رفقا نے منظم دھاندلی کا ارتکاب کرکے اپنے حلف کے ساتھ بیوفائی کی تھی۔ ان انتخابات کے بارے میں کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتاکہ وہ آزادانہ اور منصفانہ تھے۔ ان کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے تحریک کا آغاز کیا، تو چند ہی ہفتوں بعد بھٹو مرحوم نئے انتخابات پر راضی ہوگئے۔ ان کے نوجماعتی مخالف اتحاد نے انہیں پسپا کردیا، اور وہ (نفسیاتی طورپر) خود اعتمادی سے محروم ہوگئے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے تین روز بعد صوبائی اسمبلیوں کا چنائو ہونا تھا۔ اپوزیشن نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا، یومِ انتخاب پولنگ سٹیشنوں پرالو بولتے رہے، کروڑوں افراد نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ بڑی تعداد میں ووٹر ووٹ دینے کیلئے نہیں نکلے کہ ان کو کسی مقابلے کا چیلنج درپیش نہیں تھا۔ بلامقابلہ ہار اور جیت کا معاملہ تھا، لیکن جب نتائج کا اعلان ہوا تو بھاری تعداد میں ووٹ صندوقچیوں سے برآمد بتائے گئے، اکثر مقامات پر جیالوں نے انتخابی عملے کی مدد سے ٹھپے لگا لگا کر ووٹوں کو سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں میں تبدیل کردیا تھا۔ اس منظر نے پاکستان قومی اتحاد کے دھاندلی کے الزام پر ایک اور مہر تصدیق ثبت کر دی۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان نئے انتخابات کے انتظامات کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ طے نہ پا رہا تھا کہ فریقین شدید بداعتمادی کا شکار تھے۔ انتخابی عمل کے دوران معاملات کی نگرانی کیلئے ایک خصوصی عملدرآمد کونسل کے قیام کی تجویز منظور ہوئی جس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان مساوی تعداد میں شریک ہوتے، لیکن اس کے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں ہو پا رہا تھا... آنے والے برسوں میں انتخابات کے انعقاد کیلئے غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کا تصور دستور میں داخل کیا گیا، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے اتفاق رائے سے اس کا قیام عمل میں آتا ہے، لیکن اس کی اپنی قباحتیں ہیں، یہ تجربہ بھی نتیجے کے اعتبار سے زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ بھٹو صاحب نے قومی اتحاد کی تحریک کچلنے کیلئے بڑے بڑے شہروں میں مارشل لا لگا دیا اور مظاہرین کو سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کر دیں۔ یہی اقدام ڈوبنے کا بڑا سبب بن گیا۔ لاہور میں کئی افراد کی ہلاکت کے بعد جب تین بریگیڈیئر گولی چلانے سے انکار کرتے ہوئے مستعفی ہو گئے تو فوجی قیادت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ خدشہ پیدا ہوا کہ فوج کا داخلی ڈسپلن متاثر ہوکر بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ جنرل ضیاالحق کی قیادت میں فوجی کمانڈر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے اپنی وفاداریوں کا ازسر نو جائزہ لینے پر مجبور ہو چکے تھے۔
اِس وقت اس مارشل لاء اور اس کے اسباب و اثرات کا تفصیلی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔ اس کی داخلی پالیسیوں اور اقدامات سے قطع نظر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے داخلے نے خطے کا منظر تبدیل کر ڈالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور ان کے رفقا نے غیرملکی فوجوں کے خلاف افغان مزاحمت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، اور ایک نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے کمربستہ ہوگئے۔ بعد ازاں امریکہ، چین، سعودی عرب اور دوسری عالمی طاقتیں اس مزاحمت کی پشت پر کھڑی ہو گئیں۔ افغانستان سوویت یونین کا ویت نام بن گیا۔ اگر پاکستان اپنی سرزمین افغان مہاجرین کیلئے نہ کھولتا، مجاہدین کا سائبان نہ بنتا۔ جنرل ضیاالحق جیسا فولادی اعصاب کا مالک شخص یہاں برسر اقتدار نہ ہوتا، اور انہیں جنرل اختر عبدالرحمن اور بریگیڈیئر یوسف جیسے رفقا کی معاونت حاصل نہ ہوتی، تو سوویت فوجیں کبھی ''ابائوٹ ٹرن‘‘ نہ کرتیں۔ سوویت یونین نے بھارت کی فوجی معاونت کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کردار ادا کیا تھا، پاکستان نے اس کا قرض چکا دیا۔ سوویت فوجوں کو زخم چاٹتے ہوئے واپس ہونا پڑا۔ اس کا نتیجہ سوویت وفاق کے انہدام کی صورت میں نکلا۔ اس میں شامل ریاستوں میں جذبۂ آزادی توانا ہوا، نتیجتاً آج دُنیا کے نقشے پر سوویت یونین نام کا کوئی ملک موجود نہیں ہے۔
جنرل ضیاالحق کی سیاست سے قطع نظر، یہ کارنامہ ایسا ہے‘ جس پر پاکستانی قوم فخر کرتی رہے گی۔ کسی اور ملک کا کوئی جرنیل ایسی فتح حاصل کرتا تو شہر شہر اس کے مجسمے نصب ہو جاتے، لیکن ہمارے یہاں ضیاالحق کی سیاست کا بدلہ ان کی اس عظیم الشان کامیابی کا انکار کرکے یا اس کا مذاق اڑاکر چکایا جاتا ہے۔ جنرل ضیاالحق کو فیلڈ مارشل بنایا جانا چاہیے تھا کہ بعد از شہادت بھی یہ اعزاز دیا جا سکتا ہے، ان کے نام سے بستیاں اور ادارے منسوب ہونے چاہئیں تھے، لیکن ہماری فوجی قیادت بھی جب اس کارنامے کے حوالے سے مہر بلب ہو گئی ہو تو اہلِ سیاست سے کیا شکوہ کریں، اور اُنہیں کیا شرم دلائیں۔ جنرل اختر عبدالرحمن اور بریگیڈیئر یوسف تو سیاست میں نہیں تھے، ان کا بھی وہ اعتراف نہیں کیا گیا، جو زندہ قومیں ایسے افراد کا کرتی ہیں، جو ان کے لیے آبِ حیات فراہم کر گزرے ہوں۔
افغان جہاد کا یہ ثمر بھی ملاکہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اگر پاکستان اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا نہ کررہا ہوتا تو اسے کبھی ایٹمی طاقت نہ بننے دیا جاتا، اس کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا جاتا۔ بھٹو صاحب نے یہ پروگرام شروع کیا تھا، اِس حوالے سے اُنہیں یاد کیا جاتا اور حرفِ تحسین کا مستحق گردانا جاتا ہے۔ ان کے مخالف بھی ان کا یہ اعزاز چھیننے کی کوشش نہیں کرتے۔ جنرل ضیاالحق نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ان کے اِس لازوال اور بے مثال کارنامے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کرنے والے زبانیں دراز رکھتے ہیں۔ سیاست کو رکھیے ایک طرف، جنرل ضیاالحق کو یاد رکھیے، ان کی بلندیٔ درجات کے لیے ہاتھ اٹھائیے۔ بے شک، وہ فیلڈ مارشل ہیں، فیلڈ مارشل محمد ضیاالحق۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دینے پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved