تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     16-08-2020

’سٹیٹس کو‘ اور پائیدار حل کی عدم دستیابی

2002 کے انتخابات کے فوری بعد، جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کے جلاوطن قائد الطاف حسین کو فون کیا اور حکومت بنانے میں ان سے تعاون کی درخواست کی۔ پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں لیکن الطاف حسین جیسے شخص سے رابطہ کرکے جنرل مشرف نے بہت سے لوگوں کو حیران و ششدر کر دیا۔ اس حیرانی و پریشانی کی خاص وجوہ بھی تھیں۔ اس زمانے میں پاکستان میں موجود ایک جرمن دوست نے مجھے کہا ''یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاستی سربراہ ایک ایسے شخص کو فون کرے جو اتنے زیادہ الزامات میں ریاست کو مطلوب ہے؟ کیا وہ اس ملک کے قانون کا بھگوڑا نہیں اور کیسے ملک کا صدر ایک مفرور شخص سے بات چیت کرکے اس کا شکریہ ادا کر سکتا ہے؟‘‘
ایک غیرملکی کے ان مشاہدات نے میرا فیوز اڑا دیا اور میں عملاً ہکا بکا رہ گیا۔ وہ ہمارے پیارے وطن میں چار برس سے مقیم تھا اور اس کا تجزیہ تھاکہ اس ملک کی حکمران اشرافیہ کے پھلنے پھولنے کا راز قانون کی دھجیاں اڑانے میں پوشیدہ ہے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کو مستحکم و رواں کرنے والے معاملات کو یہ اشرافیہ نہ تو پسند کرتی ہے اور نہ ہی اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے معاملات انجام کو پہنچیں۔
مذکورہ بالا دوست نے مسائل کے 'حل‘ کے لفظ پر زور دیا اور اپنی بات جاری رکھی۔ اس کے اس تجزیے کی بنیاد اس ملک کی طاقتور اشرافیہ سے ہوئی بات چیت تھی کہ کیسے جنرل مشرف نے حکام کو حکم دیا تھاکہ وہ گجرات سے تعلق رکھنے والے چوہدریوں کے خلاف موجود معاملات کو ''نظر انداز‘‘ کر دیں۔
چوہدریوں کی بدانتظامیوں کی تحقیقات پر مامور کیے جانے والے ایک ریٹائرڈ جنرل نے جب اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ کیسے چوہدریوں نے 2002 کے انتخابات سے ذرا پہلے اس نئے نظام کی حمایت کا فیصلہ کیا تو جواباً کہا گیا ''کیا ہم نے اس تعاون کے بدلے ان پر لگے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا؟‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آپ اگر برسر اقتدار اشرافیہ سے تعاون کرتے ہیں تو آپ کا کیا کرایا سب کچھ حلال اور قابل قبول ہو جاتا ہے اور اگر آپ تعاون کرنے سے انکاری ہیں تو آپ سے کسی مجرم جیسا سلوک روا رکھا جائے گا بھلے ہی آپ معصوم ہوں۔ اور ہمارے ہاں ہر پہلو سے اہمیت کے معاملات کو طوالت دینے، لٹکانے اور بڑی اچھائی کو جواز بنا کر انہیں اختتام تک نہ پہنچنے دینے والے غالب رجحان کے ساتھ بہت زیادہ لگا کھاتا ہوا طرزِ عمل ہے۔ نہ صرف شخصی بلکہ قومی معاملات میں بھی ایسی بہت سے مثالیں عام مل جاتی ہیں‘ جن سے یہ رجحان نمایاں نظر آتا ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی قسمت بارے فیصلے کا ہے۔ اس وقت پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین میں سے تقریباً ساٹھ فیصد مہاجر (تقریباً دس لاکھ) وہ ہیں جنہوں نے پاکستان میں ہی جنم لیا ہے۔ اتنے ہی یا اس سے کم و بیش کچھ زیادہ لوگ وہ ہیں جو دہائیوں سے یہاں مقیم ہیں اور ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو جعلی دستاویزات کے بَل پر یہاں مقیم ہیں‘ لیکن چونکہ ریاستی حکام ان مہاجرین کے حوالے سے کوئی ایسا قانون وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں جو مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کرے تو ہر سال وہ ان کے یہاں قیام میں توسیع یا ان کی یہاں سے واپسی کی ڈیڈ لائن کو آگے بڑھانے کی ڈنگ ٹپائو پالیسی پر ہی کاربند ہیں۔ ان کی اس پالیسی کا نتیجہ مہاجرین میں خوف اور غیر یقینی کو جنم دینے کے سوا کچھ اور نہیں نکلتا۔ اب ہم دوبارہ سن رہے ہیں کہ ایک بار پھر ان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل شروع کیا جا رہا ہے اور اس بار واپس بھیجے جانے والے زیادہ تر وہ نوجوان ہیں جو خود کو یہاں کے حالات سے ہم آہنگ کرکے تقریباً مقامی معیشت میں کھپ چکے ہیں۔ توجہ کا طالب معاملہ یہ ہے کہ مہاجرین کی یہ وطن واپسی کیا پاکستان کے سماجی و معاشی مسائل حل کر سکتی ہے جبکہ ہمارے پاس مہاجرین یا حقوق قومیت دینے کے حوالے سے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔
اکثر اوقات ہمیں غیظ و غضب سے بھرپور یہ شور و غوغا بھی سننے کو ملتا ہے کہ یو ٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بند یا انہیں معطل کر دیا جائے۔ کیا ان ذرائع کی معطلی یا بندش سے نقادوں کا منہ بند کیا جا سکتا ہے یا انہیں اپنا پیغام پہنچانے سے روکا جا سکتا ہے؟ چین، جس کے پاس واٹس ایپ اور فیس بک کا اپنا ورژن تک موجود ہے‘ بھی وی پی این کی ذریعے حاصل ان سہولیات کو روکنے میں ناکام ہے۔ اب آپ خود سوچیے کہ انتشار زدہ ادارے یا کوئی وزارت جو غیر قانونی ٹیلی فونی بندش میں ہی کامیاب نہیں ہو پاتے‘ انٹر نیٹ کو کیسے بند کر سکتے ہیں؟
کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مقدمات کی منصفانہ، تیز رفتار سماعت اور سستے انصاف کی فراہمی کے بارے میں صرف بلند آہنگ نعرے لگاتے رہیں؟ یہ نعرے بازی ان تمام لوگوں کی جانب سے سننے میں آتی ہے جو اس حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں‘ اور 1898 کے فرسودہ کریمینل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) اور سول پروسیجر کوڈ میں تو کوئی تبدیلی نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ آپ کی نعرے بازی ہی کی بدولت لوگوں کو یہ سب چیزیں مل سکتی ہیں تو ایسا ہونا کیونکر ممکن ہے؟
یقینا ایسا ہونا ممکن نہیں جب نظام عدل میں خود قانون شکنی کرنے والوں کا ہی راج ہو... نچلے درجے کے بدعنوان اہلکار اور بدنصیب کاروباری اشخاص ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں... جبکہ قوانین ایسے ہیں جو بڑوں اور طاقتوروں کو چھونے تک کی قوت نہیں رکھتے۔ ایسی صورتحال میں یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایسے قوانین بنانے اور انہیں لاگو کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں جو پیسے والوں اور طاقتوروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے ہوں۔ کیا ریاستی وسائل بچانے کی کوئی بھی کاوش کالونیل دور کے پرکیورمنٹ نظام میں تبدیلی لانے تک کامیاب ہو سکتی ہے؟ کیا آپ کے لیے یہ بات قابل یقین ہے کہ اب تک پاکستان پرکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) کے قوانین کی اساس کالونیل دور کا نظام ہی ہے؟
مذکورہ بالا بات کی صداقت کو ثابت کرتی ایک مثال پیش کرتا ہوں: ایک سینئر اہلکار نے دفتری طریقہ کار سے تنگ آکر اپنے دفتر میں درکار ایک شے اپنی جیب سے تقریباً پانچ ہزار روپے میں خرید لی۔ دوسری جانب سرکاری طور پر بھی یہی چیز خریدنے کی کاوشیں جاری تھیں۔ کیا آپ یقین کریں گی کہ وہی شے اس سرکاری افسر کو تین ماہ بعد میسر ہو سکی اور اس کے لیے کی جانے والی ادائیگی گیارہ ہزار پانچ سو روپے تھی! اس تاخیر اور اس شے کو مہنگا خریدنے کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اس ادارے کو یہ خریداری پیپرا رولز کے تحت کرنی تھی۔
میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ سیاستدانوں میں سے بہت سے لوگ پیپرا قوانین کے میکنزم میں اصلاحات کے لیے تیار ہیں اور وہ سرکاری خریداری کے اُس نظام کی طرف منتقل ہونا چاہتے ہیں جو جنوبی کوریا، ملائیشیا اور اکثر خلیجی ممالک میں رائج ہے، لیکن بیوروکریسی اور پارلیمان میں موجود اشخاص کی اکثریت اس 'سٹیٹس کو‘ کو بدلنے کے لیے بالکل تیار دکھائی نہیں دیتی اور اس کی بڑی وجہ صرف اور صرف ذاتی مفادات کا حصول ہے۔
جب تک ہماری حکمران اشرافیہ اس نتیجے پر نہیں پہنچتی کہ انہیں اہم معاملات کو نمٹانا ہے، اور جب تک وہ گورننس/ پرکیورمنٹ کے نظام میں یعنی پیپرا، اوگرا، نیپرا جیسے اداروں میں جوہری اصلاحات کیلئے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں ڈالتے تب تک پاکستان جمود کے حامیوں کی آماج گاہ بنا رہے گا اور گورننس، انصاف اور سماجی معاملات کو نمٹانے کی بجائے کوتاہ نظری، مبنی بر ذاتی مفادات مباحث میں الجھا رہے گا اور ان کمیوں کوتاہیوں کا تاوان ادا کرتا رہے گا۔ یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ وزیر اعظم بھی ان لوگوں کے پھیلائے جال میں پھنس چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved