کسی درخت کی مضبوطی اس کی شاخوں یا تنے کے بجائے اس کی جڑوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ جڑ جتنی مضبوط ہو گی درخت اتنا ہی تنومند ہو گا اور اگر کوئی اس درخت کو نقصان پہنچانا چاہے تو بجائے شاخوں کے جڑ پر حملہ کرے گا۔ پاکستان کی شہ رگ اگر کشمیر ہے تو جڑ کراچی لیکن اس جڑ کو بڑی ہی محنت سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری میں پاکستان کے پہلے دارالخلافہ کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار 352 بتائی گئی تھی۔ گوکہ اس پر تنازع ہے اور غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت کراچی کی آبادی 2 کروڑ 40 لاکھ سے زائد ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کراچی ملکی پیداوار کا 30 فیصد اور مجموعی صنعتی پیداوار کا 20 فیصد دیتا ہے جبکہ منی پاکستان کہلانے والے اس شہر کی اہمیت کا اندازہ گزشتہ برس ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے بیان سے اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا: پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح نمو 7 سے 8 فیصد سالانہ کی سطح پر لانے کے لیے کراچی کی معیشت کو 10 فیصد سے زائد کی رفتار سے ترقی دینا ہو گی۔ ورلڈ بینک کی ہی 2018 کی ایک رپورٹ نے یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی کہ کراچی کو ٹرانسپورٹ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، پانی کی فراہمی اور نکاسیٔ آب، کچرے، تجاوزات، بڑھتی آبادی اور آلودگی کے مسائل کا سامنا ہے۔ کراچی کو زندگی گزارنے کے قابل شہر بنانے کے لیے 10 ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا‘ اور اس کام کی تکمیل میں 10 سال کا عرصہ لگے گا۔ اب جبکہ 2 سال مزید گزر چکے ہیں‘ باقی 8 برس بھی گزر ہی جائیں گے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2030ء تک کراچی کی آبادی 3 کروڑ 20 لاکھ ہو جائے گی۔ ادھر ایک اور عالمی ادارے ''اکنامک انٹیلی جنس یونٹ‘‘ نے اپنی 2019 کی رپورٹ میں رہنے کے قابل شہروں میں کراچی کو آخری نمبروں پر رکھا۔ اس ادارے نے 140 ممالک کا سروے کرنے کے بعد بتایا کہ کراچی کا نمبر 136واں ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ کی دستیابی 22 ہزار بسوں اور منی بسوں سے کم ہو کر صرف 8 ہزار رہ گئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی اس قلت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں 45 شہریوں کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک سیٹ ہے، جبکہ یہ تناسب ممبئی میں 12 اور ہانگ کانگ میں 8 ہے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مایوس عوام نے تبدیلی سرکار کو انتخابات 2018 میں مالامال کر دیا تھا‘ لیکن پی ٹی آئی‘ جس نے کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 اور سندھ اسمبلی کی 43 نشستوں میں سے بالترتیب 14 اور 20 نشستیں جیتی ہوئی ہیں‘ کیلئے کراچی کی اہمیت محض سیاست چمکانے، مخالفین کی دھجیاں اڑانے اور بیلچہ پکڑ کر تصویریں کھنچوانے تک محدود ہے۔ جن لوگوں نے جوق در جوق ووٹ ڈالے تھے‘ وہ اب جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں جبکہ وزیراعظم صاحب کے دورۂ کراچی کی تعداد دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ختم ہونے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔
حالیہ بارشیں تو رہے سہے بھرم کو بھی بہا لے گئیں۔ حکمران نیرو کی طرح بانسری بجاتے رہے اور عروس البلاد ڈوب گیا۔ غضب خدا کا‘ محض بارش میں کرنٹ لگنے سے 19 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے لوڈ شیڈنگ اور دیگر معاملات کا نوٹس لے لیا۔
جس کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا‘ اس کے ساتھ جو ہوا اس کو کیا نام دیا جائے؟ جو بھی پارٹی اقتدار میں آئی اس نے سنوارنے کے بجائے‘ اس شہر کی محرومیاں دور کرنے کی بجائے اپنے آپ کو نوازنا شروع کر دیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا دور آیا تو ایک نیا کلچر پروان چڑھا جس میں دہشتگردی، بھتہ خوری، بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ جیسی چیزوں کا جنم ہوا۔ اس دور میں تو کراچی کی روشنیوں کو جیسے نظر ہی لگ گئی تھی۔ کراچی کے عوام رات کی تاریکی میں گھروں سے نکلنا تو دور‘ سورج کی روشنی میں بھی گھروں میں خود کو غیرمحفوظ پاتے تھے‘ شدید خوف و ہراس کا شکار تھے‘ موبائل فون استعمال کرنے سے ڈرتے تھے‘ یہاں تک کہ اے ٹی ایم سے پیسے لینا بھی خوف کی علامت بن گیا تھا۔ ان حالات کو کسی بھی سیاسی جماعت نے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایم کیو ایم کے دورِ اقتدار میں اس جماعت نے لسانی بنیادوں پر کراچی والوں کا استحصال کیا، مہاجر کارڈ کو ہر جگہ بیدردی سے استعمال کیا‘ اور سب سے زیادہ استحصال بھی مہاجروں کا ہی ہوا۔
سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی ہے لیکن اس نے بھی بہتی گنگا میں خوب دل کھول کر ہاتھ دھونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 1980 کی دہائی سے اب تک کا جائزہ لیا جائے تو کسی پارٹی نے کوئی بھی کام نہیں کیا‘ سب نے کراچی کو اجاڑنے پر زور دیا۔ ہر سیاسی جماعت اور اس کے لیڈر نے کراچی کی تباہی کی ذمہ داری مخالفین پر ڈالی اور تباہی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور ناظم کراچی مصطفیٰ کمال نے جب ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کی تو اس وقت انہوں نے اس کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا تھا کہ ایم کیو ایم نے کس طرح کراچی کو تباہ کیا اور کس طرح کراچی میں قتل و غارت کی۔ سب چیزوں کا بتایا۔ دبئی سے واپسی پر انہوں نے اپنی الگ جماعت پی ایس پی کے نام سے بنا لی۔ اس کے بعد مصطفیٰ کمال نے سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا ''پیپلز پارٹی نے کرپشن کے سوا کچھ نہیں کیا، بلدیاتی اداروں کی چار سالہ مدت پوری ہو رہی ہے، کراچی حیدر آباد سمیت تمام میئرز اور کراچی کے چھ ڈی ایم سیز کے چیئرمینوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جانے چاہئیں اور ان کو دیئے گئے فنڈز کی تحقیقات کرنا ہوں گی۔ کراچی کا ایشو نیشنل سکیورٹی کا ایشو بن گیا ہے۔ شہریوں کو سہولیات نہ دے کر دل سے پاکستانیت نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے صحت کی سہولیات نہ دے کر تعلیم نہ دے کر گھروں میں پانی ڈال کر ہم نفرت پھیلا رہے ہیں‘‘۔
پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر علی زیدی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم اٹھارہویں ترمیم کے بعد براہ راست صوبے میں کام نہیں کرا سکتے، سندھ حکومت کو ذرا فکر نہیں کہ کراچی کی کیا حالت کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی بارہ سال سے صوبے میں حکومت میں ہے لیکن کچھ نہیں کیا‘ کراچی میں ہم نے برساتی نالوں سے کچرا اٹھوایا۔ اس کے برعکس بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کے نہ ہونے اور تاخیر کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وفاق مدد نہیں کرتا اور نہ ہی فنڈز دیتا ہے۔ سندھ حکومت نے ورلڈ بینک سے لون لیا ہے‘ ہم اپنی مدد آپ کے تحت سندھ اور کراچی کے لیے فنڈز پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلاول کہتے ہیں کہ جہاں قائد اعظم پیدا ہوئے اس علاقے کو بھی بہتر بنائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کب ہو گا؟ کراچی کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ان میں بہتری لانے کیلئے سندھ حکومت ورلڈ بینک کے تعاون کیلئے بہت پُرامید ہے۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ کراچی میں مون سون کی بارشوں کا سپیل جب آتا ہے تو پانی کی نکاسی میں مشکلات کا سامنا بوسیدہ سیوریج کے نظام کی وجہ سے ہے‘ لیکن اب وہ ماڈرن لائنز پر سیوریج میں بہتری لے کر آئیں گے۔
اگر موجودہ صورتحال میں کراچی کا مقدمہ سمجھنے کی کوشش کریں تو اس کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے مختلف مقدمات میں ریمارکس ہی کافی ہیں۔ کراچی میں نالوں کی صفائی کیس میں جناب چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے: یہ صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ وفاقی حکومت کو صفائی کرنے کے لیے آنا پڑا۔ یہ کیسی طرز حکمرانی ہے کہ صوبے کے لوگوں کا کوئی خیال نہیں؟ وزیر اعلی ہیلی کاپٹر پر 2 چکر لگا کر آ کر بیٹھ جاتے ہیں، پورا شہر انکروچ ہوا ہے، اگر بلدیاتی ادارے کام نہیں کر سکتے تو گھر جائیں۔ان ریمارکس سے اگرچہ صوبائی حکومت اور میئر کراچی کی کارکردگی کا پول کھل گیا ہے ‘ لیکن اس سب کے باوجود وفاق اور تحریکِ انصاف کے کراچی سے منتخب نمائندوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved