تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-08-2020

آزادی مبارک ہو !

74 ویں یوم آزادی کی مبارک باد دینے کیلئے مختلف شخصیات کے ایک ایک کرکے اتنے نام اور چہرے سامنے آنا شروع ہوئے کہ ذہن چکرا سا گیا کہ کس کس کو مبارک دی جائے‘کون سب سے بڑا حقدار ہے؟ ایسے میں مجھے ابو ظہبی میں بیٹھے اس ہائی کوالیفائیڈ پاکستانی انجینئر کے ملک میں بے باکی سے بڑھتی ہوئی کرپشن پر یکے بعد دیگرے کئی فون یاد آنے لگے جو وزیر اعظم کی نئی تعمیراتی پالیسی سے متاثر ہو کر اپنی اعلیٰ درجے کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان واپسی کیلئے پر تولنے لگا اور کنسٹرکشن سے متعلقہ سیکنڈ ہینڈ مشینری اور آلات خریدکر پاکستان بھیجنے کی غلطی کر بیٹھا جس کا خمیازہ اسے لاہور کی ایک ڈرائی پورٹ پر رشوت کا جبر قبول کرتے ہوئے بھگتنا پڑا‘ دوسری صورت میں اس کے بھیجے گئے کنٹینر پر اس قدر اعتراضات لگائے جا رہے تھے کہ اس کی آدھی زندگی اعتراضات دور کرنے کے چکروں میں ہی گزر جاتی۔ اس کا ایجنٹ کہنے لگا‘ جناب آپ بیس برسوں سے پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں آپ کو واپس آنے سے پہلے کسی سے پوچھ لینا چاہئے تھا کہ یہاں صرف وہ لوگ خجل خوار ہوتے ہیں جو ہر چیز صاف صاف لکھ کر بھیجتے ہیں اور جو اپنے ملک کو جائز ٹیکس اور ڈیوٹی دینا عبا دت سمجھتے ہیں۔ ان کیلئے یہاں سوائے ندامت اور پریشانی کیا کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ایف بی آر یا کسی بھی محکمے میں ان ایماندار لوگوں کو‘ جو رشوت کے نام سے بدکتے ہیں‘ لمبی لائنوں اور تاریخوں میں الجھایا جاتا ہے۔ دو نمبری اور غلط ذرائع سے مال لانے او ربھیجنے والوں کو پتہ ہے کہ کس سے بات کرنی ہے کیا ریٹ طے کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے۔ اپنے دوست کو کیا بتاتا کہ تیس چالیس برسوں سے پاکستان میں رشوت ‘جو کبھی چوری چھپے لی جاتی تھی ‘ اب فیس ‘ کمیشن ‘ گفٹ‘ حصہ اور نذرانہ کہہ کر وصول کی جاتی ہے۔ اور یہ حصہ کوئی چھپ کر نہیں‘ ڈر کر نہیں بلکہ سڑکوں‘ شاہراہوں‘ کچہریوں‘ تھانوں ‘ سرکاری دفاتر کے احاطوں ‘ ایئر کنڈیشنڈ کمروں اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھلے بندوں لیا جا رہا ہے۔اپنے افتتاح کے چھ ماہ بعد جگہ جگہ سے اکھڑنے والی سڑکیں‘ عمارتیں اور پراجیکٹس بارشوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تخمینے کی آدھی رقم رشوت کے گڑھوں کی نذر ہوجانے سے تباہ ہوتے جاتے ہیں ۔
دیارِ غیر میں بیٹھ کر پاکستان کیلئے ہر وقت فکر مند رہنے والے ایک دوست کی نقشہ پاس کروانے اور ٹرانسفارمر لگوانے کے عمل کے دوران بننے والی درگت کا واقعہ بھی ابھی ذہن میں تازہ ہے ۔ بجلی سپلائی کمپنی کے افسران کی جانب سے ٹرانسفارمر کی تنصیب کیلئے حصہ اور نذرانہ وصول کئے بغیر فائل کو ہاتھ نہ لگانے اور دو درجن اعتراضات اٹھانے کے بعد وہ وور سیز پاکستانی‘ جو خود انتہائی تجربہ کار اور تعلیم یافتہ انجینئر ہے‘ سوچنے لگا کہ یہ اعتراضات تو ایسے ہیں جیسے وہ کوئلے سے چلنے والی کوئی بڑی فیکٹری‘ کوئی بہت بڑا پلانٹ لگارہا ہو۔ اپنے دوست کی زبانی رشوت کی یہ داستان سننے کے بعد آزادی کی مبارک با د لیتے اور دیتے ہوئے‘ رشوت خوروں کے چہرے سامنے آ گئے جو بڑے بڑے بنگلوں‘ گھروں‘ فارم ہائوسز ‘لمبی چمکتی گاڑیوں میں موج اڑاتے ہیں ‘جن کی اولادیں نئی نئی گاڑیوں کے سائلنسر نکال کر اور اونچی اونچی آوازوں میں بے ہودہ گانے لگا غل غپاڑہ کرتی اور آوازے کستی ہوئی گزر تی ہیں اور آتے جاتے قوم کی ہر بیٹی کو وحشیانہ نظروں سے دیکھتی ہیں۔ اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ اچھے ماہر ڈاکٹر یاحکیم کی طرح ہر ادارے میں بیٹھے افسران اور ان کے کارِ خاص اہلکاروں کے نام لے کر بتایا جاتا ہے کہ اگر اپنا کام کرانا ہے تو ان کے پاس اچھا سا گفٹ یا نذرانہ لے کر چلے جائو اسی وقت تمہارا کام ہو جائے گا ۔رشوت اور کمیشن مافیا کو ان کی جرأت‘ بے خوفی اور '' حسن ِکار کردگی‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے آزادی کی مبارک باد دینے کیلئے منتخب کیا تو ہمارے علا قے کے ایک معزز آدمی سے ملاقات ہو گئی جو شکوہ کرتے ہوئے پائے گئے کہ دیکھیں جی سڑکیں اگر اکھڑی ہیں تو بنی بھی تو تھیں ‘اب تو جگہ جگہ گہرے کھڈے پڑ ے ہوئے ہیں‘ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ان سے تو ''وہی بہتر تھے جو اگر کھاتے تھے تو لگاتے بھی تھے‘‘ بس یہ سننا تھا کہ میں نے سوچا یومِ آزادی کی مبارک باد اس سوچ کو کیوں دی جا سکتی ہے جس کا ایمان اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ'' اگر کھاتے تھے تو لگاتے بھی تھے‘‘ ۔
یوم آزادی کی مبارک باد ان تمام حکمرانوںاور افسران کو دینے کیلئے ہاتھ کی بورڈ کی جانب لپکنے لگا جنہوں نے آج تک بینکوں‘ گھروں‘ گلیوں‘ پٹرول پمپوں‘ دوکانوں‘ مارکیٹوں‘ شاہراہوں اور سڑکوں پر کسی بھی سواری میں بیٹھے انسان کو ڈاکوئوں‘ راہزنوں سے تحفظ فراہم نہیں کیا ‘جو انسانوں کو مکھیوں کی طرح مارنے والوں‘ غریب عوام کو لوٹنے والے تاجروں ‘ ذخیرہ اندوزوں‘ ناجائز منا فع خوروں‘ اجارہ داروں اور باورچی خانے کی ہر ضرورت کو انسانوں کی پہنچ سے دور کرنے کیلئے ہمہ وقت مہنگائی بڑھانے کیلئے پورازور لگانا اپنا فرضِ اولین سمجھا۔ یوم آزادی کی مبارک باداِن دوا ساز کمپنیوں کی بھی دینے کو جی چاہا جو جعلی اور کمتر اجزاپر مشتمل دوائیں مارکیٹوں میں پھیلاکر پاکستان کی آبادی کو مہلک بیماریوں کے حوالے کرنے کے عوض ان کی جیبیں بھی کاٹ رہی ہیں اور اپنے خزانوں اور لاکروں کو بھرتی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیا اور سکرینوں پر چھائے ہوئے ایسے حضرات کی بھی آزادی کو مبارک باد دینے کو جی چاہا جو اسی ملک میں رہنے اور یہیں کا کھانے کے با وجود اپنی ہمدردیاں‘ پیار محبت اور قربانیاں غیروں کیلئے وقف کئے رہتے ہیں۔وہ اپنی سوچ‘ عمل ‘ کردار‘ گفتاراور نیت سے پاکستان کی دھرتی کو چوہوں کی طرح کترنے میں اس قدر بے باک اورنڈر ہیں کہ کوئی پنجرہ‘ کوئی شکنجہ ان پر اس لیے کارگر نہیں کہ ہاتھ ڈالے جانے کے بعد ان کرداروں کے سہولت کار ''آزادیٔ اظہار‘‘ کی آزادی کے نام پر بہت شور مچاتے ہیں۔
یومِ آزادی کی مبارک باد ان تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کے نام بھیجنے کو بھی جی چاہا جو اپنی اپنی جماعت اور پارٹی کارکنوں کی لاشوں‘ ان کے بد ن پر لگنے والے زخموں‘ ان کے ہاتھوں میں پہنی ہوئی ہتھکڑیوں اور جیلوں کی کال کوٹھڑیوں کو اپنے لیے کامیا بی کی سیڑھیاںبناتے ہیں‘ مگر اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہی کارکنوں کے اس جذباتی ہجوم سے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور ان کی شکلوں تک سے انہیں کوفت ہونے لگتی ہے ۔پھر سوچا کہ ایسے کارکن دشمن رہنمائوں کو آزادی کی مبارک باد دینے کی بھلا کیا ضرورت اور منطق ہے جو اپنے مخلص کارکنوں کیلئے اپنے دروزے بند کر کے خوشامدی ‘ مطلب پرستوں‘ جن کا جدو جہد تو دو رکی بات ‘ سیا سی جماعت سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا‘ کو اپنا مشیر بنا کر جانثار اور مخلص کارکنوںکا منہ چڑاتے ہیں۔
فہرست تو اس قدر طویل ہے کہ شاید اس کیلئے ایک کتاب لکھنی پڑ ے‘ لیکن سوشل میڈیا پر اسلام آباد سے ہمارے ایک جرنلسٹ دوست افتخار چوہدری کی پوسٹ پڑھ کر بے ساختہ آنسونکل پڑے اور اس سال اپنی آزادی کی خوشیوں کی تمام مبارکباد ان کے قدموں میں ڈھیر کر نے کو جی چاہنے لگا جن کے خاندان کے40 افراد کو اگست1947 میں روپڑ ریلوے سٹیشن پر انتہا پسند ہندو ؤں اور سکھوں نے تلواروں‘ کرپانوں اور کلہاڑوں سے شہید کر دیا۔یقینا یہ کسی ایک خاندان کا المیہ نہیں‘ کہ تقسیم ہندوستان کے وقت 60 لاکھ سے زائد مسلمان خاندانوں نے بھارت سے پاکستان کی جانب ہجرت کی ۔ اس دوران کتنے افراد کو جانوں کا نذارانہ پیش کرنا پڑا‘ اس کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں‘ مگر ایک اندازے کے مطابق صرف دہلی میں 20 سے 25 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔پنجاب‘ اُتر پردیش ‘ کلکتہ اور بھارت کے دیگر حصوں میں مسلمانوں پر جو قیامتیں ڈھائی گئیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ یوم آزادی کی مبارک باد کے اصل مستحق تو یہی خاندان ہیں جو حصولِ پاکستان سے تحفظ پاکستان تک کی راہ میں دشمن کی گولیوں‘ توپوں ‘ٹینکوں‘ بموں اور خود کش حملوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔فوج‘ پولیس‘ ایف سی‘ رینجرز‘ لیویز‘ خاصہ دار فورس اور خفیہ اداروں کے گم نام سپاہی اور وطن عزیز کے مخلص‘ قانون پسند‘ دیانت دار اور محنتی شہری ہی یوم آزادی پر مبارکباد کے ترجیحاً حقدار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved