کیا نوازشریف عمران خان کے جال میں آگئے ہیں؟ڈرون حملوں پر حکو مت کے احتجاج کی کہانی اگردرست ہے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔’’دنیا‘‘ نے خبر دی ہے کہ احتجاج کی مجلس جناب طارق فاطمی اور امریکی ناظم الامورمیں تلخی پر منتج ہوئی اور وہ ہاتھ ملائے بغیر دفترِ خارجہ سے رخصت ہوگئے۔طارق فاطمی تجربہ کار سفارت کار ہیں۔وہ پاکستان کے مفادات سے واقف ہیں اور مشکلات سے بھی۔اپوزیشن رہنما کے طور پر نوازشریف صاحب جب سفارت کاروں سے ملتے توطارق فاطمی صاحب ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتے تھے۔اس لیے جب میاں صاحب نے انہیں یہ ذمہ دای سونپی تو یہ کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں تھا۔تاہم یہ بات میرے لیے حیرت کا سبب ہے کہ انہوں نے اپنے کام کا آغاز ہی ایک انقلابی رہنما کے طور پر کیا۔معلوم ہوتا ہے وہ پاکستان کے نمائندے نہیں، وینزویلا یا ایران کے وزیر خارجہ ہیں۔سچ یہ ہے کہ اس فرق کو سمجھنا ہی اس وقت وزارتِ خارجہ کااصل امتحان ہے۔کیا طارق فاطمی صاحب کو یہ بتا دیاگیا تھا کہ نئی حکومت امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کا آغاز اسی اسلوب میں کرے گی؟یہ طرزِ عمل فاطمی صاحب کی اپنی انقلابی فکر کا نتیجہ ہے یا حکومت کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا؟حکومت اپنی ترجیحات کا تعین کیسے کرے گی؟اپنی بصیرت سے یا خارجی دباؤ کے زیر ِ اثر؟سابقہ حکومت کا ایک بڑ المیہ یہ تھا کہ وہ کبھی اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکی۔گزشتہ پانچ سال میں حکومت کا ایجنڈامیڈیا نے طے کیا یا دوسرے اداروں نے۔حکومت والی بال کے اس گیند کی طرح تھی جواپنے ارادے اور مرضی کے بغیر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو تا رہتا ہے۔سر شام ٹی وی اینکر ایک ایجنڈا لیے بیٹھ جاتے تھے اور پھر حکومتی وزرا ان کے دربار میں بیٹھے اپنی صفائیاں دے رہے ہوتے تھے۔مجھے ایک دن بھی یہ گمان نہیں ہوا کہ حکومت کا کوئی ایجنڈا ہے اور ملک میں اس پر بحث ہورہی ہے۔ہمیں ٹی وی پروگراموں یا پھر عدلیہ کے فیصلوں سے معلوم ہو تا تھا کہ حکومتی ایجنڈا کیا ہو نا چاہیے۔اگرکبھی کسی حکومتی شخصیت کے بارے میں یہ سناگیا کہ اُس نے اپنے طور پر قدم اٹھا یا ہے توو ہ شخصی مفادکا مظہر کوئی سکینڈل نکلا۔ پاکستان میں ہم سب کا رویہ ایسا تھا جیسے کسی نو مولود جمہوریت میں ہو تا ہے۔میڈیااس زعم میں رہا کہ ریاستی ترجیحات کا تعین اسے کر نا ہے۔یہی نہیں، اسے یہ بھی طے کر نا ہے کہ کسے کب تک حکومت میں رہنا ہے۔ایمبو لینس پہ گھر جا نا ہے یا ووٹ کے ذریعے۔خارجہ پالیسی کے بارے میں سنا جا تا تھا کہ اس کا تعین کہیں اور سے ہو رہا ہے۔آئین کے ہوتے ہوئے، جس میں یہ طے ہے کہ کس کو کیا کر نا ہے،سب وہی کچھ کر رہے تھے جو انہیں نہیں کر نا چاہیے تھا۔اس سارے عمل میں اگر کوئی مفعولی حالت میں تھا تو وہ حکومت تھی۔دوسرے طے کر رہے تھے کہ اسے کیا کر نا ہے۔اس کا نتیجہ انتخابی نتائج کی صورت میں سامنے آیا۔ انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کی حیرت قابلِ دید تھی۔اس کو یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ پانچ سالوں میں اس نے کیا کیا ہے اور اسے کس بات کا حساب دینا ہے۔ کیا اب پھر اسی تاریخ کو دھرا یا جائے گا؟ ڈرون حملوں کا خاتمہ میرے علم کی حد تک ن لیگ کے ایجنڈے پر سرِ فہرست نہیں ہے۔یقیناً وہ ان کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن اس کے شواہد مو جود نہیں ہیں کہ وہ اسے اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست رکھے گی۔یہ اُس ایجنڈے کا پہلا نکتہ ہے جوعمران خان نے حکومت کے لیے طے کیا ہے اور جس ایجنڈے پر وہ اپنی اپوزیشن کی بنیاد رکھیں گے۔ان کی یا ان کا طارق فاطمی‘ شیریں مزاری ہیں۔(اس جملے میں کا،کی یعنی تذکیر و تانیث کے تعین میں مجھے معذور سمجھیے) ڈرون حملوں پہ شیریں مزاری صاحبہ کا انقلابی موقف پہلے دن سامنے آ گیاتھا۔یہ اتنا انقلابی تھا کہ شفقت محمود صاحب کے لیے بھی اس کا دفاع مشکل ہو گیا۔عمران خان اسمبلی میں ابھی نہیں پہنچے ورنہ وہ طوفان اٹھاچکے ہوتے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ ن لیگ کی ترجیحات میں سرِ فہرست نہیں ہے تو اس پر ابتدا ہی میں ایسا سخت لب ولہجہ کیوں؟کیا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے یہی اسلوب مناسب تھا؟ ڈرون حملے کیوں شروع ہوئے؟ امریکا کا اعتراض ہے کہ فاٹا کے علاقے میں وہ جنگجو مو جود ہیں جوافغانستان میں امریکی فوجیوں پہ حملہ آور ہوتے ہیں۔پاکستان چو نکہ انہیں نکالنے پر قادرنہیں یا پھر سنجیدہ نہیں،اس لیے امریکاکے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ ڈرون حملوں سے ان عناصر کا خاتمہ کرے۔پاکستان کو اس موقف سے جزوی اتفاق ہے۔ پاکستان کو اس سے اختلاف نہیں کہ یہاں ملکی اور غیر ملکی جنگجو موجود ہیں تاہم اسے اس بات سے اتفاق نہیں کہ پاکستان انہیں نکالنے میں سنجیدہ نہیں۔اس کے نزدیک یہ ایک مشکل کام ہے اور وقت طلب بھی۔اس کے لیے پاکستان کو مہلت دی جائے۔ یہ اعلانیہ موقف ہے ۔ دوسری طرف جنرل مشرف یہ کہہ چکے کہ ڈرون حملے پاکستان کی اجازت سے ہوتے رہے ہیں۔ اس باب میں بعض حلقوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔میرے لیے یہ بات قابلِ فہم نہیں کہ حکومت نے کوئی مو قف اختیار کیا ہو اور اختلاف کے باوصف اس پر خاموشی اختیار کی گئی ہو۔ اگر حکومت کمزور ہو جیسی گزشتہ حکومت تھی تویہ بات تسلیم کر نی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ اگر یہ پس منظر سامنے رہے تو ڈرون حملوں کے خاتمے کے لیے حکومت کو ایک واضح حکمت عملی ترتیب دینی ہے۔امریکی ناظم الامور کی طلبی اور اس کے ساتھ تلخی تو کسی طرح بھی اس کا حل نہیں۔میں خارجہ امور کا ماہر نہیں لیکن ہر حکمت عملی کی اساس بصیرتِ عامہ(common sense)پرہوتی ہے۔اس کی بنیاد پر میرا کہنا یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل تین مرا حل کا متقاضی ہے۔سب سے پہلے ہمیں امریکا سے رابطہ کرنا چاہیے کہ نئی حکومت کو اپنی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے وقت چاہیے۔اگر ڈرون حملے جاری رہے توہمارے لیے امریکا مخالف جذبات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اس لیے امریکاکچھ وقت کے لیے ان حملوں کو روک دے۔دوسرے مر حلے پر دفاعی اداروں اور حکومت کے ذمہ داروں کو مل کر اور تمام مضمرات کو سامنے رکھتے ہوئے،ایک حکمت عملی وضع کر نی چاہیے۔ اس حکمت عملی پر اپوزیشن جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لیا جائے۔ اگر اُن کی طرف سے کو ئی کوئی اچھا مشورہ سامنے آتا ہے تو اسے قبول کیا جائے۔یہ گویا قومی اتفاقِ رائے پیدا کر نی کی ایک کوشش ہوگی۔اسی دوران میں ہمیں چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں کو بھی شریکِ مشاورت کر نا چاہیے۔اس کے بعد اسے امریکا کے سامنے رکھا جائے۔یہ وہ مر حلہ ہے جہاں ہمیں طارق فاطمی صاحب کی مہارت کی ضرورت ہوگی کہ وہ اس حکمتِ عملی پہ امریکا کو قائل کر سکیں۔ ڈرون حملوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس پر سوچے سمجھے اور متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لیے بغیر شتابی میں کوئی قدم اٹھا یا گیا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ حکومت کے لیے شر مندگی کا باعث بن جائے گا۔ ڈرون حملوں کا خاتمہ عمران خان کے سیاسی ایجنڈے کا پہلا نکتہ ہے۔اس باب میںعمران خان کی رائے ہمیشہ سے یہی ہے۔تاہم وہ اُسے حکومت کے خلاف سیاسی حکمت عملی کے طور پر بھی استعمال کریں گے ۔اپوزیشن کے لیے سب سے آسان حکمت عملی جذبات کا استحصال ہے۔عمران خان ڈرون کو مو ضوع بنائیں گے اور شیخ رشید کشمیر اور بھارت پر اسمبلی کو گرمائیں گے۔اگرنواز شریف صاحب ایک بار اس جال میں پھنس گئے توپھر وہ کسی معا ملے میں پیش رفت نہیں کر پائیں گے۔ اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ حکومت ابتدا ہی سے اعتماد کے ساتھ، خود اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔اگر اس نے اپوزیشن کے دباؤ کو قبول کر لیا تو اس کے بعد ایجنڈے کا تعین حکومت نہیں، دوسرے کریں گے۔پھر معا ملہ وہی ہو گا جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ہو چکا۔ فطرت کی تعزیریں تو سب کے لیے ایک جیسی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved