کراچی۔ ملک کے بانی کی آخری آرام گاہ کا حامل۔ ملک کے ہر حصے سے آکر بسے ہوئے لوگوں کی بدولت ''مِنی پاکستان‘‘ کے لقب سے مُزین۔ قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی۔ ثقافتی شناخت کبھی ہوا کرتی تھی‘ اب نہیں۔ کبھی حُسنِ انتظام بھی ہوا کرتا تھا۔ اب حُسن ہے نہ انتظام۔ حکمرانی کی بات کیجیے تو ع
ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے
والا معاملہ ہے۔ ایک زمانے تک شہر کی حالت یہ تھی کہ ع
شہر کا شہر ہی آسیب زدہ ہو جیسے
منیرؔ نیازی کے بقول معاملہ یہ تھا کہ شہر کی حرکت تو خوب تھی مگر سفر آہستہ‘ بلکہ برائے نام تھا۔ دنیا بھر کے ناکام معاشروں اور ریاستوں کے بارے میں جو کچھ بھی سُن رکھا تھا وہ کراچی پر صادق آتا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ پورے ملک کے لیے معاشی شہ رگ کی حیثیت رکھنے والا شہر کس طور جی رہا ہے کہ اس کی زندگی پر موت کا گماں ہوتا ہے۔ مجموعی طور ع
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
والی کیفیت اس شان سے موجود تھی کہ اس کے ختم ہونے کے آثار نہ تھے۔ شہر کے مکینوں کا حال یہ تھا کہ انتہائی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے تھے اور کوئی سُننے والا نہ تھا۔ جن سے داد رسی کی توقع وابستہ تھی وہ مال بنانے میں لگے تھے۔ اختیار ملتے ہی ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی سُوجھتی تھی۔ ع
ہائے کیا کیجیے اس دل کے مچل جانے کو
بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی مگر کیا کیجیے کہ بالکل سامنے کی تھی۔ قومی وحدت و معیشت کی بنیاد سمجھے جانے والے شہر میں ہر سطح کے اربابِ بست و کشاد کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہر مافیا کو پنپنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔ اب کیفیت یہ ہے کہ کوئی ایک معاملہ بھی کسی نہ کسی مافیا کے پنجے سے بچا ہوا نہیں۔ پینے کا صاف پانی تک اموالِ تجارت میں سے ہے اور مافیا کو اس کے دریائے تجارت میں جی بھر کے ڈبکیاں لگانے سے فرصت نہیں۔
ریاست تسلیم کرچکی ہے کہ کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ تک ہے۔ غیر سرکاری یا غیر جانب دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی سوا دو کروڑ سے بھی زائد ہے۔ شہر کا پھیلاؤ دیکھ کر اس دعوے پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ملک بھر سے لوگ ملازمت یا کاروبار کے حوالے سے طالع آزمائی کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ ملک بھر کے سرمایہ کار بھی کراچی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے باوجود شہر کو اپ گریڈ کرنے پر مقامی اداروں نے توجہ دی نہ صوبائی حکومت نے۔ شہر کو جس قدر صفائی درکار ہے وہ کبھی ممکن نہیں بنائی گئی۔ ریاست کی عمل داری کے بغیر کسی بھی بڑے شہر کو اُس کی صلاحیت و سکت کے مطابق ترقی نہیں دی جاسکتی۔ کراچی کے لیے بھی ریاستی عمل داری لازم تھی مگر اسے یقینی بنانے پر کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ طے کرلیا گیا کہ معاملات کو بگڑنے دیا جائے۔ بظاہر کوئی رکاوٹ نہ تھی اس لیے ہر معاملے کو ذاتی منفعت کے حصول کا ذریعہ بنانے کی ذہنیت پروان چڑھتی گئی۔ اس کا نتیجہ شہر کی ابتری کی صورت نکلنا تھا اور یہی ہوا۔ اتنے بڑے شہر کو جس قدر ترقی کرنی چاہیے اُتنی ترقی کبھی ممکن ہی نہیں ہو پائی۔ کسی بھی شعبے میں یہ شہر مثال کا درجہ حاصل نہ کرسکا۔ جہاں گورننس نہ ہو‘ ریاستی عمل داری یقینی نہ بنائی گئی ہو‘ بہبودِ عامہ کو بنیادی مقصد کا درجہ حاصل نہ ہو وہاں کچھ بھی بہتر ہو تو کیوں اور کیسے؟ یوں کراچی بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونے کے برابر رہا۔
کسی بھی پس ماندہ ملک کے لیے سب سے بڑا شہر خاصے کی چیز ہوا کرتا ہے۔ اُسے مستحکم بنانے پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ پوری ریاست کے لیے حقیقی اثاثے کی حیثیت اختیار کرے۔ کراچی کو بھی اسی نوع کی توجہ درکار تھی مگر یاروں نے اسے دشمن کا چھوڑا ہوا مال سمجھ کر اس پر یوں دانت گاڑے کہ دیکھ دیکھ کر ع
جگر چھلنی ہے‘ دل گھبرا رہا ہے
تین عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران کراچی سے کاروباری فوائد اور مذموم مفادات کشید کرنے پر تو خوب توجہ دی گئی‘ اسے کچھ دینے اور مضبوط بنائے رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ ملک بھر سے آکر یہاں آباد ہونے والوں نے بھی اسے ''اون‘‘ نہیں کیا۔ خیر‘ اُنہیں کیا روئیے کہ شہرِ قائد کو تو خود اس کے اصل باشندوں یعنی سندھیوں اور اُن کے بعد کے اصل باشندوں یعنی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی اولاد نے بھی اپنا نہیں سمجھا۔ کمانے پر تو دھیان دیا گیا مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ چلائی جانے والی مشین مین ٹیننس بھی چاہتی ہے۔ دودھ دینے والی گائے کو چارے اور صحت و صفائی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ اہتمام نہ ہو تو دودھ کے حصول کی تمنا تشنۂ تکمیل رہ جاتی ہے۔ کراچی سے بہت کچھ کشید کرنے کی خواہش تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توانا ہوتی گئی مگر اسے کچھ دینے اور اس کے استحکام کا گراف بلند کرنے کی ذہنیت کبھی پنپ نہ سکی۔ پنپتی بھی کیسے کہ ایسی کوئی نیت تھی ہی نہیں۔
شہرِ قائد کے مکین یہ تماشا ایک مدت سے دیکھ رہے ہیں کہ ملک بھر سے لوگ یہاں آکر سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں اور معاش کے ذرائع بھی تلاش کرتے ہیں۔ ایسے میں لازم تھا کہ شہر کی اپ گریڈیشن پر توجہ دی جاتی تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یافت ممکن بنائی جاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ تصور کرلیا گیا کہ یہ شہر ایسی گائے ہے جسے خوراک درکار ہے نہ صحت و صفائی اور پھر بھی دودھ دیتی رہے گی۔ ایسا ہر تصور جس نوعیت کی خرابی لاتا ہے ویسی ہی خرابی کراچی کے معاملے میں بھی دکھائی دی ہے۔ غیر معمولی رقبے اور غیر معمولی آبادی کا حامل شہر ایسے بچے کی مانند ہے جسے دُھتکار دیا گیا ہو۔
ایسا کب تک چل سکتا ہے؟ اقبالؔ کہہ گئے ہیں ع
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی تقدیر کے بدلے جانے کا بھی وقت آگیا ہے۔ شاید دُکھی دلوں کی سُن لی گئی ہے۔ اب کیا شمار کیجیے کہ لوگ کن کن باتوں کے لیے ترس کر رہ گئے ہیں۔ پانی‘ بجلی‘ صفائی‘ صحتِ عامہ کی سہولتیں‘ سڑکیں‘ ٹرانسپورٹیشن ... کچھ بھی تو ڈھنگ سے میسر نہیں۔ کئی سال سے شہر میں لُوٹ مار کا بازار گرم رہا تھا۔ کچھ مدت تک سکون تھا مگر اب پھر لُوٹ مار کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک طرف بے روزگاری اور مہنگائی۔ دوسری طرف بنیادی سہولتوں کا فقدان اور تیسری طرف شہریوں میں غیر معمولی سطح کا عدم تحفظ۔ معاملات درست ہوں تو کیسے ہوں؟ اب وفاق متوجہ ہوا ہے تو کچھ بہتری کی اُمّید کی جانی چاہیے۔ کراچی کو ہر معاملے میں نئی سوچ‘ نئے عزم اور نئے ولولے کی ضرورت ہے۔ شہرِ قائد کے سٹیک ہولڈرز ہونے کا دعویٰ کرنے والے اب تک انتہائی لاپروا اور بے حِس ثابت ہوئے ہیں۔ اُن کی لاپروائی اور بے حِسی نے معاملات کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ شہر کے مکینوں کے دلوں میں مایوسی نے گھر کرلیا۔
ایک زمانے سے دِلّی کے لال قلعے پر پاکستان کا پرچم لہرانے کی باتیں سُنی ہیں‘ مگر سچ پوچھئے تو کراچی کے معاملات درست کرنا بھی دشمن کے گڑھ میں گھس کر اپنا پرچم لہرانے سے کم درجے کا کارنامہ نہیں! اہلِ کراچی خاصی پُراُمّید نظروں سے وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آزمائے ہوؤں کو مزید آزمانے کی تمنا شاید ہی کسی کے دل میں ہو۔ ایم کیو ایم کی شکل میں مقامی رہنماؤں کے ہاتھ میں اس شہر کے معاملات کم و بیش تیس سال رہے ہیں مگر اُنہوں نے اس زمین کا حقِ نمک ادا نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے اب تک اپنے گڑھ یعنی اندرونِ سندھ سے وفا نہیں کی تو کراچی کے لیے کیا کرے گی جہاں سے اُسے ووٹ بھی نہیں ملتے! ایسے میں کراچی کی تقدیر اُسی وقت بدل سکتی ہے جب اسے خصوصی آئینی حیثیت دے کر پورے خلوص کے ساتھ معاملات درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کوشش نام نہاد سٹیک ہولڈرز تو یقیناً نہیں کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved