شیریں مزاری صاحبہ کا بیان، وزیر خارجہ بننے کی دبی خواہش کا اظہار ہے یا کسی بااثر کی ترجمانی؟ شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری، کیا طاقت کے مختلف مراکز کی نمائندگی کر رہے ہیں؟
خارجہ پالیسی کا میدان، پاکستان کی ہر سیاسی حکومت کا 'واٹر لو‘ ثابت ہوا ہے۔ اسی میدان میں اس کی شکست کا حتمی فیصلہ ہوا ہے۔ یہ میموگیٹ تھا جو گیلانی حکومت کو لے ڈوبا۔ زرداری صاحب نے اس کے بعد پانچ سال مکمل کرنے کو اپنا واحد ہدف سمجھا اور حسین حقانی صاحب سے اعلانِ برات ہی میں پناہ تلاش کی۔ یوں ایوانِ صدارت میں 'عزت کے ساتھ‘ پانچ سال پورے کیے۔ نوازشریف بھی اسی میدان میں 'شہید‘ ہوئے۔ کیا عمران خان صاحب کے معاملے میں بھی تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے؟
خارجہ پالیسی کی تشکیل کبھی آسان کام نہیں تھا۔ یہ اتنا پیچیدہ اور ہمہ جہتی ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی مسئلہ بنتا ہے۔ امریکہ میں طاقت کے مراکز اس باب میں کم ہی متفق ہوئے ہیں۔ افغانستان کے معاملے میں ٹرمپ کا نقطہ نظر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہی سے نہیں، پینٹاگان سے بھی مختلف ہے۔ سابق مشیر سلامتی جان بولٹن نے اپنی کتاب The Room Where it Happened میں اس سے پردے اٹھا دیے ہیں۔امریکہ میں چونکہ جمہوریت ہے اور ادارے مستحکم ہیں، اس لیے سیاسی نظام اختلاف کے بوجھ کو اٹھا لیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ نزلہ عضوِ ضعیف پر گرتاہے، وہ ذمہ دار ہو یا نہ ہو۔ ہمارے نظام میں سیاسی حکومت سے بڑھ کرکوئی کمزور نہیں ہوتا؛ چنانچہ معلوم ہوتا ہے‘ جنگ چھڑ گئی تو شکست کس کی ہوگی۔
شیریں مزاری صاحبہ کے ارشادات قابلِ غورہیں۔ انہوں نے کمال چابک دستی سے خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے، خان صاحب کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان کے بیان کا سب سے بڑا تضاد ہے۔ وزیراعظم کا منصب محض ٹویٹ کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ پارلیمانی نظام میں وہی پالیسی ساز ہوتا ہے۔ یہ صحت پالیسی ہو یا خارجہ پالیسی، وہی ہر کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کا سزاوار ہے۔ صحت کارڈ کا کریڈٹ اگر اس کو دیا جاتا ہے تو خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ڈس کریڈٹ اس کے نام کیوں نہیں؟
سوال یہ ہے کہ خان صاحب کا وہ کون سا وژن ہے، جس کو وزارتِ خارجہ کسی پالیسی میں نہیں ڈھال سکی؟ مسئلہ کشمیر کا کیا نادر حل انہوں نے تجویز کیا؟ سعودی عرب اور ترکی میں توازن رکھنے کیلئے کیا سوچ دی؟ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے باب میں ان کا نقطہ نظر کیا ہے جو کسی پالیسی کی صورت اختیار نہیں کر سکا؟ چند ٹویٹس کے سوا، ان کے کھیسے میں کیا ہے؟ پھر یہ کہ خارجہ پالیسی کے تشکیل کا اصل مرکز کہاں ہے؟ سعودی سفیر نے اس بیان کے بعد کس سے ملنا ضروری سمجھا؟ کس کے دورہ سعودی عرب پر سب کی نظریں لگی ہیں؟ شیریں مزاری صاحبہ کو ان سوالات کے جوابات معلوم ہیں‘ لیکن وہ کبھی اس کا اظہار نہیں کریں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ریاست کے مستقل بندوبست کا حصہ ہیں، عارضی بندوبست کا نہیں۔
ہمارے لیے صورتحال بہت الجھ گئی ہے۔ پاکستان مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے خود کو کبھی الگ نہیں کرسکتا۔ اس کے ایک سے زیادہ اسباب ہیں۔ پہلی وجہ معاشی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو سعودی عرب کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لیاجا سکتا۔ دوسری وجہ تزویراتی مفادات ہیں جن میں مسئلہ کشمیر سرِفہرست ہے۔ پاکستان اس باب میں سعودی عرب کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکا۔ جو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں، وہ مسلم دنیا میں سعودی عرب کی قیادت کو چیلنج کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ سعودی عرب ان سے خوش نہیں ہو سکتا۔ چیلنج یہ ہے کہ ہم معاشی اور تزویراتی مفادات میں توازن کیسے تلاش کریں۔ تیسری وجہ مسلم دنیا کی سیاست ہے۔ آج مسلم ممالک ایک سے زیادہ گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ مذہب نہیں، ریاستی مفادات ہیں۔ ایران اور ترکی سعودی عرب سے خوش نہیں۔ ملائیشیا کا معاملہ مہاتیر محمد تک تھا۔ اب وہ واضح طور پر سعودی عرب کے ساتھ ہوگا۔ آج پاکستان کو سوچنا ہو گا کہ اس کشمکش میں وہ کیسے توازن قائم رکھتا ہے۔ پاکستان کیلئے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی پاکستان مرکوز (Pakistan centric) ہونی چاہیے یا بھارت مرکوز (India centric)؟
خارجہ پالیسی کی ایک جہت علاقائی ہے۔ ایران بھارت سے دور اور چین سے قریب ہوا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب و امارات اور بھارت میں قربت بڑھ رہی ہے۔ ایران کی بھارت سے دوری پاکستان کے ساتھ اس کی قربت میں اضافہ کر سکتی ہے لیکن دونوں کے تعلقات میں کچھ پیچیدگیاں ہیں جنہیں ابھی ختم ہونا ہے۔ اسی طرح افغانستان ایک مستقل مسئلہ ہے جس کے حل کا کوئی امکان مستقبل قریب میں نہیں پایا جاتا۔
خارجہ پالیسی کی ایک جہت مذہبی بھی ہے۔ اس کا تعلق اسرائیل کے ساتھ ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری مسلم ممالک کی کشمکش سے بھی۔ پاکستان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کے باب میں اس کا موقف اصولی ہے۔ یہ عربوں کے موقف کے تابع نہیں۔ پاکستان اب مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو قبول کرتا ہے۔ مطلب‘ ایک اسرائیلی ریاست اور ایک فلسطینی ریاست۔ یہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ سوال یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ایک مکمل ریاست کے قیام کا حق ملتا ہے یا نہیں؟ پھر یہ کہ اگر عرب ممالک اس سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں تو پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ان سب جہتوں کے حوالے سے موجود سیاسی حکومت کا موقف کیا ہے؟ کون اس کو بیان کرے گا؟ اگر حکومت کا ایسا کوئی موقف ہے تو اسے کبھی پارلیمنٹ کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا؟ جذباتی تقریریں کبھی پالیسی کا متبادل نہیں ہوتیں۔ شیریں مزاری صاحبہ کو بتانا ہوگا کہ وہ وژن کیا ہے جو ابھی تک کسی پالیسی میں ڈھل نہیں سکا؟
یہ ملک کا داخلی انتظامی بندوبست ہو یا خارجہ پالیسی، ہم اسے کسی ایک مرکزِ اقتدار کے تابع نہیں کر سکے۔ جمہوریت میں تو پارلیمنٹ میں فیصلے ہونے چاہئیں یا کم ازکم سیاسی حکومت ان کی ملکیت ( ownership) کو قبول کرے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ہی اسے مکلف اور جواب دہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ یہاں وزرائے اعظم کا معاملہ یہ ہے کہ محض اس عہدے پر فائز رہنے کی خواہش میں اپنے ہاتھ کٹوانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ جب پالیسی سازی پر قدرت نہیں رکھتے تو کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ عمران خان بھی اس معاملے میں کوئی استثنا ثابت نہیں ہوئے۔
ہمارا چیلنج دو جہتی ہے۔ ایک خارجہ پالیسی کی پیچیدگی اور دوسرا مراکزِ اقتدار کا کسی آئینی بندوبست کے تابع نہ ہونا۔ نتیجہ‘ ایک موضوع پر ایک ہی حکومت سے متعدد آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ جہاں وزیر خارجہ کا بیان حکومت کی ترجمانی نہ سمجھا جائے، وہاں فکری خلفشار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ بیان کے بعد، لازم تھا کہ دو میں سے ایک قدم اٹھا لیا جاتا۔ یا تو ریاست ان کے پیچھے کھڑی ہو جاتی یا وزیر خارجہ استعفیٰ دے دیتے۔ ان میں سے ایک کام بھی نہیں ہوا۔ یوں ابہام باقی ہے۔ ابہام کا مطلب انتشارِ فکر ہے۔
اس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا اقتدار کے مراکز وحدتِ فکر کا مظاہرہ کر پائیں گے؟ کیا اس پیج کی بازیافت ہوگی جس کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ سب اسی پر تشریف فرما ہیں؟ یا تاریخ خود کو دہرائے گی۔ ایک نیا واٹرلو؟ کچھ کہنا مشکل ہے؛ تاہم یہ واضح ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات التوا میں نہیں ڈالے جا سکتے۔ حالات اتنی تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں کہ فیصلوں میں تاخیر سے ہم قافلۂ اقوام سے بچھڑ سکتے ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل چکا۔ اب جو سبک رفتار نہ ہوگا، وہ گردِ راہ بن جائے گا۔