جمعہ کے روز جشنِ آزادی منایا گیا‘ اور اب ہر سال جس انداز میں منایا جاتا ہے‘ اسّی کی دہائی سے پہلے ایسا کبھی نہ تھا۔ یوم آزادی افسرانہ اور سرکاری محکموں تک محدود تھا۔ کچھ سیاسی اور سماجی تنظیمیں مظاہرے منعقد کرتیں‘ جلسوں اور جلوسوں کا انتظام بھی کیا جاتا۔ جوش و جذبہ پیدا کرنے کی ذمہ داری زیادہ تر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کی ہوتی تھی۔ یوں ہوتا کہ دن آیا اور گیا۔ ضیاالحق صاحب کی حکومت میں یومِ آزادی منانے کا ایک نیا انداز اپنایا جانے لگا۔ نہ جانے وہ کون سی علاقائی‘ سماجی اور مذہبی حرکیات تھیں کہ پاکستان کی آزادی کی قدر عوام تک منتقل ہو گئی۔ حکومتیں تو ہر جگہ وہی کچھ کرتی ہیں‘ جو موجودہ حکومت نے یا اس سے پہلے کی حکومتوں نے کیا۔ وزیر اعظم کی تقریر‘ صدارتی اعزازات کا اعلان‘ ایوانِ صدر میں پرچم کشائی کی تقریب‘ دن کا آغاز اکیس توپوں کی گولہ باری سے اور پاکستان ٹیلی وژن میں خبریں پڑھنے والوں سے لے کر پروگراموں اور مذاکروں میں حصہ لینے والوں تک سب کیلئے سینے کے بائیں جانب قومی پرچم کی ٹکڑی چسپاں کرنا لازم ٹھہرا۔ اس کے کمزور خدوخال چالیس سال پہلے بھی تھے۔
ہو سکتا ہے‘ اوائل میں حکومتی اداروں نے عوامی سطح پر جشنِ آزادی منانے کیلئے کچھ کاوشیں کی ہوں‘ مگر جب تک عوام کے دلوں میں اندر سے کوئی آواز نہ اٹھے‘ جشن کا سماں پیدا نہیں ہو سکتا۔ جہاں زبردستی ہو اور سرکار ڈنڈے کے زور سے قومیت کا جذبہ پیدا کرے‘ وہاں تقاریب پھیکی اور بے رنگ ہوتی ہیں۔ کئی دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یومِ آزادی پاکستانی ملک کے کونے کونے میں اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں‘ ایک دوسرے سے بڑھ کر۔ جشنِ آزادی اب محض شہروں تک محدود نہیں‘ جیسا کہ کئی دہائیاں پہلے تھا‘ بلکہ صرف بڑے شہروں میں دکھائی دیتاکہ آزادی کا دن ہے‘ اب تو تقریباً ہر گائوں‘ قصبے اور شہر میں بچے‘ نوجوان اور سرگرم سماجی اور سیاسی کارکن جھنڈے گھروں کی چھتوں پہ لہراتے ہیں‘ جلوس نکالے جاتے ہیں اور کچھ مقامی سکول تقاریر کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ انہیں میں سے لوگ چندہ کرکے مٹھائیاں بھی بانٹتے ہیں اور کچھ کھانے کی دیگیں پکوا کر لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
ہر سال دیکھتا ہوں کہ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی سڑکوں پر قومی پرچم فروخت کرنے کے سٹال لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ قریب سے دیکھا تو ہر سائز کے جھنڈے‘ چھوٹے بچوں کیلئے پرچم کے رنگوں میں بنی ٹوپیاں‘ کڑے‘ بریسلیٹ‘ کلپ اور پرچمی ملبوسات بک رہے تھے۔ اس دفعہ ایک میاں بیوی نے بڑی سڑک پر چارپائی ڈال کر پہلی تاریخ سے اپنا اڈا قائم کر لیا۔ ہر طرف جھنڈے ہی جھنڈے۔ دو ہفتے تک رات دن وہیں قیام کیا‘ کہ کوئی پتا نہیں پرچموں کا کوئی گاہک کب آ جائے۔ صبح ہوتے ہی اس پورے حصے کی صفائی کرتے اور بڑی خوبصورتی سے قطاروں میں چیزیں سجا دیتے۔ چودہ اگست کی شام تک وہ سٹال رہا۔ میں جب بھی وہاں سے گزرا‘ کاروں اور موٹر سائیکل سواروں کو رک کر کچھ نہ کچھ خریدتے دیکھا۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ہر شہر میں ہزاروں ایسے سٹال سجائے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی کئی برس پہلے خریدا ہوا جھنڈا اور اس کو باندھنے والی رسی سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ پہلے دن یاد نہیں آتا یا ادھر دھیان نہیں جاتا‘ مگر جونہی دوسرے گھروں پر جھنڈے نظر آنا شروع ہوتے ہیں تو ہمیں بھی یاد آ جاتا ہے اور ہم بھی چائے کی سادہ پیالی پی کر ناشتے کے بعد ایک اور فرد کی موجودگی میں پرچم کشائی کرتے ہیں۔ پندرہ اگست کو جھنڈا اتار کر کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہو یا کوئی اور شہر‘ چودہ اگست کی شام گھر سے نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ سب بڑی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں نوجوان موٹر سائیکلوں پر دو دو تین تین سوار ہو کر آدھی رات تک جھنڈے لہراتے ہر سمت شور مچاتے گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ من چلے منع کرنے کے باوجود 'ون ویلنگ‘ کے کرتب کرتے ہیں‘ جو بدقسمتی سے حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ ہر طرف جلوس ہوں تو پولیس بھی بے بس نظر آتی ہے۔ پتا نہیں آپ کا کیا تجربہ ہے‘ میرے پڑوس میں تو چودہ اگست سے چند دن پہلے دن ہو یا رات بچے پٹاخے چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ تیرہ اگست کو رات گئے تک ہر طرف ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ غصہ نہیں آتا‘ خوشی ہوتی ہے کہ بچے اور خاندان پُر جوش طریقے سے یومِ آزادی منا تے ہیں۔
آزادی کا دن اس بار کچھ افسردگی سے گزرا۔ نہ جانے کیوں خیال بار بار ان لاکھوں معصوم انسانوں کی طرف جا رہا تھا‘ جو ایک نئے وطن کی خاطر اپنا گائوں‘ شہر‘ زمین‘ مکان اور آبادی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ڈیڑھ کروڑ پاکستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پاکستان کی طرف دھکیل دئیے گئے۔ لاکھوں‘ دونوں جانب زندگیاں‘ خاندان اور اپنے پیارے گنوا بیٹھے‘ مسلمان بھی‘ سکھ بھی اور ہندو بھی۔ ان فسادات میں جہاں کہیں کوئی مذہبی گروہ اقلیت میں تھا‘ اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ نہ زندگی‘ نہ عزت‘ نہ مکان اور نہ ہی زر زمین محفوظ تھے۔ تقسیم کے بعد ظلم و بربریت کی جو داستان اس خطے میں رقم ہوئی‘ شاید ہی اس کی مثال کہیں اور ملے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ اب بھی یہ موضوع تشنہ ہے کہ ہزارہا برسوں سے اکٹھے رہنے والے مختلف المذاہب لوگ دو ملک بنتے ہی ایک دوسرے پر اس بے رحمی سے کیوں ٹوٹ پڑے؟ پہلے بھی تو لوگ مختلف مذاہب اور مسلکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس موقع پر آخر ایسا کیا ہوا کہ سب علاقے میدانِ جنگ بن گئے۔ اس بارے میں کئی آرا ہیں‘ لیکن میری رائے میں برطانیہ کی حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ حالات پر قابو وہ نہ رکھ سکی‘ بلکہ چودہ اگست کے بعد تو وہ ریاست گر چکی تھی‘ کہنے کو دو نئی ریاستیں وجود میں آ چکی تھیں‘ لیکن ان کے پاس استعداد نہ تھی‘ اور کئی علاقوں میں تو مقامی پولیس بھی شرپسندوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ جن حالات میں انتقالِ اقتدار ہوا‘ اور اس سے پہلے تقریباً ایک سال تک پیدا ہونے والی منافرت اور دونوں جانب وحشت اور انتہا پسندوں کا بڑھتا ہوا زور ریاست کی رہی سہی حکمرانی کی صلاحیت کو بہا لے گیا۔ ہر طرف خون بہایا گیا اور سب سے زیادہ غریبوں اور عام لوگوں کا۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے یہاں آ کر آباد ہونے والے اپنی بہت ہی دکھ اور درد بھری داستانیں سناتے ہیں۔ کچھ داستانیں تو ایسی ہیں کہ ان کا ذکر نہ کرنا ہی مناسب ہے۔ لاکھوں افراد ایسے ہیں جو ایسی ہی اپنی درد بھری داستانوں کو اپنے سینوں میں دفن کئے اس جہان سے رخصت ہو چکے ہیں۔ جدید دور کا یہ سب سے بڑا المیہ اس لئے پیش آیا کہ تاج برطانیہ نے اس کیلئے کوئی تیاری نہیں کی تھی‘ سب کچھ عجلت میں ہوا۔ آزادی کا اعلان ایک سال بعد کے لئے کیا گیا تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ شرپسندوں اور بلوائیوں کا مقابلہ کرتے‘ انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ذمہ داری نئی ریاستوں کے کندھوں پر ڈال دی کہ آزادی کے طالب تھے‘ یہ ہے تمہاری ''آزادی‘‘ اسے اب تم ہی سنبھالو۔ پروفیسر سٹینلے والپرٹ نے کئی کتابیں پاکستان اور بھارت کی تاریخ اور سیاسی شخصیات پر لکھی ہیں۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح پر ان کی کتاب لاجواب ہے۔ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن ان کی کمال کی تصنیف شیم فُل فلائٹ (Shameful flight) ہے۔ اس کا موضوع یہی ہے جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے کہ کس طرح بے شرمی اور غیر ذمہ داری سے انگریز برِصغیر کو جلتا ہوا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ زیادہ تر ہمارے تجزیوں کا رخ ایک دوسرے کے خلاف رہا ہے۔ انسان درندہ صفت اس وقت ہی بن سکتا ہے‘ جب ریاست گر جائے‘ قانون کا نفاذ نہ رہے اور نتائج کا خوف دلوں سے جاتا رہے۔ کمزور ریاستوں میں بھی ایسے حالات دیکھنے کو ملتے ہیں۔