تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     17-08-2020

بدلتا ہوا مڈل ایسٹ اور پاکستان

پچھلے چند روز میں مڈل ایسٹ کے حوالے سے چند ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا اثر پاکستان پر ہوا ہے اور لا محالہ مستقبل میں بھی ہوگا ‘ یہ تبدیلیاں پاک سعودی عرب تعلقات اور اسرائیل کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے خطے سے عمومی طور پر ہمارے روحانی اور مادی ‘ دونوں رشتے مضبوط رہے ہیں۔ وہاں انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ اور دفاعی شعبے میں تعاون کے اعتبار سے ان تعلقات کا تسلسل گزشتہ پچاس سال سے نمایاں ہے۔ صرف سعودی عرب اور عرب امارات سے ترسیلاتِ زر نصف سے زائد ہیں‘ تجارتی تعلقات بھی نفع بخش رہے ہیں۔ 
پچھلے دنوں سعودی عرب سے متعلق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان نے تو جیسے ایک طوفان برپا کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ وزیر خارجہ کے مزاج میں بڑا ٹھہرائو ہے۔ مجھے ذاتی علم ہے کہ ملتان والے شیریں دہن ہیں۔ شاہ محمود صاحب کے ایک پیشرو مرحوم صدیق کانجو کہا کرتے تھے کہ ہمیں پیار کے ساتھ انکار کرنا بھی آتا ہے۔ مجھے شاہ محمود قریشی کے تلخ لہجے سے خاصی حیرانی ہوئی۔ ان کی تلخی کی وجوہات سمجھ آتی ہیں‘ لیکن یہی باتیں وہ سعودی بھائیوں سے علیحدگی میں بھی کر سکتے تھے۔ کسی اور سے بھی کہلوا سکتے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ نواز شریف کے آخری عہد میں سعودی عرب کے بارے میں اچھی خاصی تنقید اِن کے ایک وزیر نے ایک سیمینار کے دوران کی تھی ‘لیکن بات کو سنبھال لیا گیا تھا کیونکہ وزیر صاحب غیر معروف تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی تلخ باتیں وزیر خارجہ کو اس انداز میں نہیں کرنی چاہئیں۔ خاص طور پر جب گلہ شکوہ خاص دوست ملک سے کرنا مقصود ہو۔
شاہ محمود قریشی کے بیان کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا میں یار لوگوں نے خوب گھوڑے دوڑائے۔ کچھ کو افسوس تھا کہ اتنے برادرانہ تعلقات میں سرد مہری ہی نہیں تلخی آ رہی ہے۔ کچھ دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے کہ پاکستان نے بالآخر سچ بول ہی دیا۔ ان کا سوال یہ تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں اندھا دھند مظالم پر عرب خاموش کیوں ہیں؟ میرا جواب یہی تھا کہ پاک سعودی رشتہ اتنا کمزور نہیں کہ ایک بیان کا وار نہ سہہ سکے۔ یہ دونوں ممالک ازل تک ایک دوسرے سے جڑے رہیں گے۔ یہ ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ مکہ مدینہ کو کوئی میلی آنکھ سے دیکھے تو پاکستانی تڑپ اٹھیں گے اور مجھے خوشی ہے کہ معاملات کو سلجھانے کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔
اور اب آتے ہیں دوسرے معاملے کی جانب جس کی وجہ سے پورے خطے میں زلزلہ سا آیا ہوا ہے اور وہ ہے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات اور متعدد شعبوں میں ممکنہ تعاون۔ اس سلسلے میں چند تجزیہ کار ذرا دور کی کوڑی لائے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ دنیا پھر سے بائی پولر بن رہی ہے ‘ امریکہ اور چین کی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے اور اب دنیا میں یہی دو بڑی قوتیں ہوں گی۔ ہر ملک کے لیے دو ہی چوائس ہوں گے کہ وہ امریکہ کا ساتھی بن جائے یا چین کا۔ اسرائیل اور یو اے ای کی دوستی کرا کے امریکہ نے چین کا اہم اور حساس خطے میں واقع ایک ووٹ توڑ لیا ہے۔
میں اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا۔ دنیا میں اس وقت چار پاور سنٹر ہیں ایک امریکہ‘ دوسرا چین‘ تیسرا روس اور چوتھا یورپی یونین اور مستقبل قریب میں صورت حال ایسی ہی رہے گی۔ امریکہ‘ اسرائیل اور عرب امارات میں قدرِ مشترک ایران سے مخاصمت ہے۔ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے بعد بھی خلیجی ممالک چین سے تجارتی رشتہ اور سیاسی روابط قائم رکھیں گے‘ وہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا خوب جانتے ہیں۔ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ آج کی دنیا ملٹی پولر ہے اور ہر ملک کے پاس کئی آپشن موجود ہیں۔
ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ عرب دوستوں کو ناراض کرنے میں پاکستان خود بھی بری الذمہ نہیں ہے مثلاً 2015ء میں ہم نے یمن فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ میں اس بات سے بھی متفق نہیں ہوں۔ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے۔ عرب اور مسلم ممالک سے قریبی رشتہ ہماری خارجہ پالیسی کا اصول ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ اصول ہے کہ اگر عرب ممالک میں آپس میں کوئی تنازعہ کھڑا ہو جائے تو پاکستان اس آگ میں نہیں کودے گا۔ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد لڑتے ہوئے دوستوں میں مصالحت کروانا ہے‘ جلتی پر تیل چھڑکنا نہیں ہے۔ یمن فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ ہماری پارلیمنٹ نے کیا تھا اور اس فیصلے پر عمل کرنا حکومتِ وقت کا فرض تھا۔ اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے اور جنرل راحیل شریف آرمی چیف‘ دونوں کو اس فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یو اے ای کے فیصلے کے ہمارے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس زاویے کے بارے میں سوچتے وقت ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسرائیل اب ہمارے خطے کی جانب آ رہا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اور انڈیا کے تعلقات میں پچھلے چند سالوں میں خاصی گرمجوشی آئی ہے۔یہودی بنیادی طور پر صدیوں سے تاجر ہیں اور اب خلیجی ممالک کی بہت بڑی مارکیٹ ان کے ہاتھ آ رہی ہے۔ قیمتی ہیرے‘ جواہرات کو کاٹ کر اور پالش کر کے اسرائیل بہت بڑی مقدار میں زر مبادلہ کماتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ دوا سازی اور مشینری کی ایکسپورٹ میں بھی وہ بہت آگے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ماڈرن قسم کا اسلحہ اور حربی ساز و سامان اسرائیل کی بڑی ایکسپورٹ ہے۔ خلیجی منڈیوں میں رسائی حاصل کر کے اسرائیلی تاجروں کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔
اس سے پہلے عرب ممالک میں مصر اور اردن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر چکے ہیں‘ لیکن خلیج میں عرب امارات بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اس کے بعد مزید کئی قطرے گریں گے اور ان میں بحرین‘ سلطنت آف عمان اور سوڈان شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اسرائیلی مال بردار جہاز ہمارے سمندری پانیوں سے عام گزرا کریں گے۔اسرائیل کے خلیجی ممالک سے تعلقات کو سکیورٹی کے زاویے سے دیکھنا بے حد ضروری ہے۔ خلیجی ممالک ایران سے خائف ہیں۔ اسرائیل اس خوف کو مزید اجاگر کرنے کی کوشش کرے گا تا کہ اس کا اسلحہ زیادہ سے زیادہ بکے۔ امریکہ کے فوجی اڈے بحرین اور قطر میں ہیں اور امریکہ ایک عرصے سے خلیج میں اپنی فوج کم کرنا چاہ رہا ہے لیکن کمبل نے اسے چھوڑا نہیں۔ اس صورتحال میں مجھے خلیج میں اسرائیل اور انڈیا دونوں کی سکیورٹی انٹری نظر آ رہی ہے جو چند سالوں میں ہو سکتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1979ء سے پہلے امریکہ نے ایران کو گلف کا پولیس مین بنایا ہوا تھا۔
ایک سوال جو ہر ٹی وی چینل پر پوچھا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے چاہئیں یا نہیں؟ مجھ سے بھی یہ سوال کیا گیا ہے۔ میرا واضح جواب ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ جنرل مشرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پُر جوش تھے‘ لیکن کچھ حلقوں کے ردِ عمل سے خائف بھی تھے؛ تاہم ہمیں اسرائیل کے سامنے یہ شرط رکھنی چاہیے کہ وہ 1967ء میں قبضہ کیے گئے علاقوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے اور یہودی بستیوں کو ضم کرنے کا ارادہ ترک کر دے۔اس طرح مسلم دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا۔
آپ پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم کریں۔ عرب بھائیوں کے لیے سرمایہ کاری کا مناسب ماحول بنائیں۔ نظریاتی فیکٹر کمزور ہو چکا۔ آج کی عالمی سیاست اقتصادی مفادات کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved