مارچ میں حکومت کی بساط لپیٹنے کا وعدہ کیا گیا تھا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مارچ میں حکومت کی بساط لپیٹنے کا وعدہ کیا گیا تھا‘‘ لیکن یہ مزید پھیلتی جا رہی ہے، اگرچہ حکومت کے جانے سے بھی مجھے کوئی فائدہ نہ پہنچتا کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں نے اب میرے پلّے کچھ نہیں چھوڑا۔ میں نے الیکشن کہاں جیتنا ہے بلکہ لوگ تو اب باقاعدہ مخول کرتے ہیں کہ آپ اچھے بھلے سر سبز درخت تھے جو اب ٹنڈ منڈ ہو کر رہ گئے ہیں ۔اور اب پھر اے پی سی کا پھوکا لارا لگایا جا رہا ہے جبکہ جیب ڈھیلی کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں اور نہ ہی بچا کھچا یہ خاکسار ان کے دام میں آنے والا ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
انتقامی سیاست سے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''انتقامی سیاست سے حکمرانوں کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا‘‘ اور چونکہ نواز لیگ والے بھی ایک طریقے سے احتساب کو انتقامی سیاست کا نام دے رہے ہیں اس لیے میں نے بھی یہ تیر چلا دیا ہے حالانکہ یہ آج تک کسی نے واضح نہیں کیا کہ یہ کارروائیاں انتقامی کیسے ہو گئیں اور حکومت اپوزیشن سے کس چیز کا انتقام لے رہی ہے جبکہ اپنے اپنے ادوار میں ان کے خلاف کسی ایسی کارروائی کا کوئی وجود ہی نہیں اور اپوزیشن ان کے خلاف کچھ کر بھی کیا سکتی تھی، حتیٰ کہ یہ بھی نہیں ہے کہ اُس وقت کی اپوزیشن نے حکومت کے خلاف کوئی احتسابی کارروائی ہی کی ہو، اس لیے اس کے بجائے کوئی اور الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے بیان جاری کر رہے تھے۔
سعودی عرب کے ساتھ غلط فہمیاں دور ہو گئیں: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''سعودی عرب کے ساتھ غلط فہمیاں دور ہو گئیں‘‘ اگرچہ کوئی ایسی خاص بات تھی بھی نہیں لیکن چونکہ مجھے ہر بات کا پہلے ہی پتا چل جاتا ہے،کیونکہ احتساب کی کارروائیوں کی پیش گوئیوں کی وجہ سے بھی میری حوصلہ افزائی ہوئی تھی لہٰذا میں جس اپوزیشن لیڈر کے بارے میں اعلان کرتا کہ وہ ایک دن پکڑا جائے گایا فلاں کے خلاف مقدمہ بنے گا یا ریفرنس دائر ہوگا تو یہ پیش گوئی پوری ہو جاتی تھی۔ اگر چہ آج بھی میں نے حسبِ معمول یہی بیان دینا تھا کہ بزدار کہیں نہیں جا رہے لیکن انہوں نے جو روزانہ بغیر پروٹوکول دورے شروع کر دیے ہیں تو شاید اس لیے کہ انہیں پروٹوکول کی عادت ہی نہ پڑ جائے۔آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
شریف خاندان میں تقسیم نہیں، سب
رائے دیتے ہیں: جاوید لطیف
نواز لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''شریف خاندان میں تقسیم نہیں، سب رائے دیتے ہیں‘‘ جو اگرچہ ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتی ہیں اور یہی جمہوریت کی جان بھی ہے جبکہ نواز لیگ شروع سے ہی جمہوریت کی علمبردار چلی آ رہی ہے، اس لیے اگر نواز لیگ کے کچھ لوگ اپنی درپردہ کارروائیوں سے کسی کی سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔لگتا یہ ہے کہ یہ سا را کچھ نواز شریف کی ہدایات کے تحت ہی ہو رہا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
لوڈ شیڈنگ نواز شریف کی حکومت نے ختم کی: رزاق دائود
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے تجارت رزاق دائود نے کہا ہے کہ ''لوڈ شیڈنگ نواز شریف کی حکومت نے ختم کی‘‘ اگرچہ اسے ختم کرنے کے دعوے ہی شہباز شریف کیا کرتے تھے اور ہر بار چیلنج کیا کرتے تھے کہ اگر فلاں تاریخ تک لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوئی تو میرا نام بدل دیا جائے چنانچہ اس بنیاد پر موصوف کا کوئی 70 بار نام تبدیل کیا گیا؛ تاہم خاکسار کی طرف سے یہ بیان اس لیے ضروری تھا کہ ہم ٹیکنیکل لوگ ہوتے ہیں اور ہر حکومت کو ہماری ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ہم کسی کے ساتھ بگاڑ کر نہیں، بلکہ سب کے ساتھ بنا کر رکھتے ہیں تا کہ ہم ہر کسی کے لیے قابلِ قبول رہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
تعمیل
ایک دولت مند شخص مرنے لگا تو اس نے اپنی بیوی کو تاکید کی کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت قبر میں میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس شخص کے مرنے کے کچھ عرصے بعد سہیلی نے بیوی سے پوچھا کہ آیا اس نے مرنے والے کی وصیت پر عملدرآمد کر دیا ہے، تو بیوی بولی: میں نے اس کی ساری دولت اپنے اکائونٹ میں جمع کرا دی تھی اور اس رقم کا چیک کاٹ کر اُس کے سرہانے رکھ دیا تھا کہ اسے جب بھی ضرورت پڑی، نکلوا لے گا!
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کے مجموعۂ کلام ''موہُوم کی مہک‘‘ میں سے یہ نظم:
گدھے سے اترتے کیوں نہیں؟
تم بھی عجیب ہو/ زندگی کی فراوانی میں بھی/ جیتے ہو، نہ جینے دیتے ہو/ دن بھر/ دیواروں کے آسیب میں/ پڑے رہتے ہو/ کانٹوں سے بھری آنکھوں کے ساتھ/ موت کی مہک اوڑھ کر/ کیوں بے سمت آوازیں لگاتے ہو/ ہموار، سیدھی سڑک پر/ ٹھوکریں کھاتے ہو/ رفتار کے اس زمانے میں/ تم اپنے گدھے سے/ اترتے کیوں نہیں؟
جو آج ہے؟ کل نہیں ہوگا/ تو آج ہی دیکھ لینے میں کیا ہے/ جگمگاتی چمکتی دنیا/ تمہارے اندر روشنی انڈیلتی ہے/ تمہارا اندھیرا جاتا کیوں نہیں؟/ ہر ہاتھ... گرم جوشی سے/ تمہاری جانب بڑھتا ہے/ گنگناتے الفاظ، رقص کرتے ہیں/ تمہارے آس پاس/ تمہاری مرجھائی آواز میں/ جان کیوں نہیں پڑتی/ چاہو تو تمکنت کے ساتھ/ کہیں بھی جا سکتے ہو/ کچھ بھی کر سکتے ہو/ نئی نئی یادوں سے/ اپنے سینے کو... بھر سکتے ہو/ اور یہ جو بارش ہوئی تھی/ چند روز پہلے/ لگاتار، موسلا دھار/ کیا دھلا نہیں سب کچھ؟/ تمہاری سانسوں میں/ مٹّی کس لیے بھرنے لگ گئی؟/ کتنے عجیب ہو/ کہتے ہو/ آدمی میلا نہ ہو تو زندہ نہیں ہوتا/ اور خود/ پوری طرح گدلے بھی نہیں/ اُجلے بھی نہیں/ تو کیا / ٹھیک سے زندہ بھی ہو؟
آج کا مطلع
شکوہ و شکر‘ نہ کچھ عرض گزاری رہے گی
غیر مشروط محبت ہے‘ یہ جاری رہے گی