تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-08-2020

کاک ٹیل

عام آدمی کو ریلیف دینے کے 
لئے ہر کام کر گزریں گے:بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عام آدمی کو ریلیف دینے کے لئے ہر کام کر گزریں گے‘‘ اگرچہ پہلے بھی کوئی کام ایسا نہیں جو ہم نے چھوڑا ہو لیکن عوام کو ریلیف نہیں ملا، اب اس میں قصور عوام کا ہے یا ریلیف کا‘ ہمارا ہرگز نہیں ہے جبکہ بعض شرپسندوں کے مطابق عوام کو ریلیف صرف میرے جانے ہی سے مل سکتا ہے اور میرے حق میں روز بیان دے دے کر شیخ رشید نے میرا معاملہ مزید مشکوک بنا دیا ہے کیونکہ جس کے نہ ہونے کا ذکر بار بار کیا جاتا ہو‘ وہ ہو کر ہی رہتا ہے حالانکہ عوام مزید 3سال تک صبر بھی کر سکتے ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے جبکہ صبر کرنا بجائے خود عوام کے لئے ایک طرح کا ریلیف ہی ہوگا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عوام کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہم عوام کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے‘‘ کیونکہ یہ جو کئی ماہ کی خاموشی تھی وہ بھی عوام ہی کے لئے اختیار کر رکھی تھی، اگرچہ عوام کے لئے جو آواز والد صاحب نے لندن میں بلند کر رکھی ہے‘ عوام کے لئے وہی کافی ہے جبکہ یہاں پر میں اور چچا جان جو کچھ کر رہے ہیں اس کا زیادہ تر مقصد ایک دوسرے کی خدمت ہی کرنا ہے حالانکہ اصولی طور پر دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اپنے مقدمات کی موجودگی میں ایک دوسرے بلکہ اپنے بارے بھی کچھ سوچنا محض وقت کا ضیاع ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ساجد میر سے گفتگو کر رہی تھیں۔
نئے موٹر وے منصوبے شروع کر رہے ہیں: مراد سعید
وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ ''نئے موٹر وے منصوبے شروع کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ پشاور میں میٹرو بس شروع ہو جانے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ انسان اگر ہمت کرے تو کیا کچھ نہیں کر سکتا اور اس پر جتنا وقت لگا ہے اور جتنا پیسہ خرچ ہوا ہے اگرچہ اس سے کافی عبرت حاصل کی جا سکتی تھی، تاہم پیسہ چونکہ خرچ کرنے کیلئے اور وقت ضائع کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے اس لئے ہمارا خیال ہے کہ اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی نکل جائے کیونکہ کسر اور کچومر میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا، اس لئے اگر دونوں ایک ساتھ نکل جائیں تو یہ ایک طرح کا دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بے بنیاد کیسز سے نہیں گھبراتا، عدالتوں 
کا احترام کرتے ہیں: زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''بے بنیاد کیسز سے نہیں گھبراتا، عدالتوں کا احترام کرتے ہیں‘‘ اور یہ کیسز بے بنیاد اس لئے بھی ہیں کہ کوئی ثبوت ہی نہیں ہے، اور اگر ہو بھی یا تو ریکارڈ گم ہو جاتا ہے یا نذرِ آتش، جسے میں ایک طرح سے غیبی امداد ہی سمجھتا ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم ناکامی کا اعتراف
کریں اور گھر جائیں: مولا بخش چانڈیو
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم ناکامی کا اعتراف کریں اور گھر جائیں‘‘ تاہم اُن کے ساتھ اتنی رعایت ضرور ہو سکتی ہے کہ وہ اگر ناکامی کا اعتراف نہ بھی کریں اورگھر چلے جائیں تو ہمارے لئے قابل قبول ہوگا بلکہ اس بات پر بھی غور ہو سکتا ہے کہ گھر نہ بھی جائیں اور اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیں تو یہ بھی کافی ہوگا، لیکن اگر وہ ان دونوں میں سے کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہ ہوں تو ان کے لئے ایک اور آپشن بھی موجود ہے کہ بیشک گھر نہ جائیں، کہیں اور چلے جائیں اور وہ بھی کافی عرصے کے لئے تاکہ میرا بھی کچھ بھرم رہ جائے بلکہ گھر جانے میں ویسے بھی کوئی ہرج نہیں ہے اور کارونا سے دُور رہنے کے لئے بھی انہیں گھر چلے جانا چاہیے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے وزیراعظم کو کچھ ہو۔ آپ اگلے روز حسین آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
متبادل
ایک شخص گھوڑے پر سوار ایک گاؤں میں کسی دوست کے پاس گیا‘ جو یہی کہتا رہا کہ شام کا وقت ہے‘ گوشت کہیں سے نہیں ملے گا جبکہ گوشت کے بغیر مہمان کی تواضع کیسے کی جا سکتی ہے۔ وہاں صحن میں ایک مرغا بھی پھر رہا تھا۔ جب میزبان نے ایک بار پھر گوشت کے نہ ہونے کا رونا رویا تو مہمان نے کہا کہ اگر مجھے گوشت کھلانا اتنا ہی ضروری ہے تو آپ لوگ میرا گھوڑا ذبح کر لیں، اس پر میزبان بولا ''وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ واپس کیسے جائیں گے‘‘، جس پر مہمان نے کہا ''کوئی بات نہیں! میں آپ کے مرغے پر بیٹھ کر چلا جاؤں گا!‘‘۔
اور اب آخر میں اقتدار جاوید کی یہ تازہ غزل:
جیسے ایک پل کے رنگوں کا دھارا بس اتنا ہی تھا
اُس سے سارا تعلق ہمارا بس اتنا ہی تھا
ساری تفصیل آنکھوں سے ہوتی نہیں منعکس
سامنے آسمانی کنارہ بس اتنا ہی تھا
میری تفہیم ساری کی ساری دھری رہ گئی
میرے جیسے پہ وہ آشکارا بس اتنا ہی تھا
میں نے سامان اپنا سمیٹا ‘یہاں آ گیا
میرے دل کا وہاں پر کھلارا بس اتنا ہی تھا
زہر کی چٹکی جیسے کسی نے زباں پر رکھی
ذکر اس کا لبوں پر دوبارہ بس اتنا ہی تھا
دفعتاً لہر وہ چاندنی ہی بہا لے گئی
عین دریا کے اوپر ستارہ بس اتنا ہی تھا
آخر کار نکلا گلِ دائمی خاک پر
اس تغارے میں موجود گارا بس اتنا ہی تھا
یہ کسک لے کے دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں
عشق جاویدؔ سارے کا سارا بس اتنا ہی تھا
آج کا مطلع
مجھ پر نگاہِ نرم تمہارا کمال تھا
تھوڑا نہیں‘ یہ سارے کا سارا کمال تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved