تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     18-08-2020

زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں

عربوں اور اسرائیل کے درمیان چپقلش کا آغاز 14اور 15 مئی 1948ء کی درمیانی شب اسرائیل کے قیام سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ پھر 1967ء میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی چھ روزہ جنگ نے مستقبل کی بہت سی راہیں متعین کر دیں۔ 5جون 1967ء کو اسرائیل کے دو سو طیاروں نے عرب دنیا کے سب سے طاقتور ملک مصر کی فضائیہ کے طیاروں کی بڑی تعداد کو زمین پر ہی تباہ کر دیا۔ محض بائیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اسرائیل نے 10لاکھ مربع کلومیٹر کا رقبہ رکھنے والے مصر کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصری قیادت نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ اُس کے ساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے۔ اِس جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر جیسے طاقتور عرب ملک کے صحرائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔ کچھ ایسا ہی سلوک شام کے ساتھ ہواجو اِس جنگ کے دوران گولان کی پہاڑیاں گنوا بیٹھا۔ 12سو مربع کلومیٹر رقبے پر محیط گولان کی پہاڑیاں شامی دارالحکومت سے صرف ساٹھ کلومیٹر دور ہیں۔ اِن پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو آج بھی حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر اِنہیں آپ نقشے پر دیکھیں تو اِن پہاڑیوں سے اسرائیل کی جانب تاحد نگاہ وسیع وعریض چٹیل میدانی علاقہ دکھائی دیتا ہے۔ گویا اگر کوئی اسرائیل کی طرف سے گولان کی پہاڑیوں پر حملہ کرے تو اُسے میلوں دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنی بہترین پوزیشن میں ہونے کے باوجود شامی افواج کو بری طرح ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں چلی گئیں۔ اب وہاں موجود اسرائیلی افوا ج کے لیے صرف ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شامی دارالحکومت دمشق پر نظر رکھنا انتہائی آسان ہے۔ 1981ء میں اسرائیل نے اِسے یکطرفہ طور پر اپنا علاقہ قرار دے دیا۔ اُس کے اِس فیصلے کو اگرچہ عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا لیکن فیصلہ کن قوت تو بہرحال اسرائیل کو ہی حاصل ہے۔ طویل عرصے سے اسرائیل نے اِس علاقے میں بستیاں بسانے کا کام بھی شروع کر رکھا ہے جہاں اندازاً 20 سے 30 ہزار افراد منتقل ہو چکے ہیں۔ رہی بات اُردن کی تو اُس کے لیے بھی یہ جنگ خوفناک خواب ثابت ہوئی۔ اِن تینوں عرب ممالک پر یہ قیامت ایک ایسے ملک نے ڈھائی جس کا رقبہ بائیس ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے اور آبادی ایک کروڑکے قریب ہے۔ اِس کے مقابلے میں برسر پیکار تینوں عرب ریاستوں کا مجموعی رقبہ تقریباً 13لاکھ مربع کلومیٹراور آبادی 13کروڑ کے لگ بھگ ہے، گویا ان کا بظاہر کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔
1973ء میں مصر اور شام ایک مرتبہ پھر اسرائیل سے اُلجھے۔ اِ س جنگ کے دوران عربوں کو کچھ ایسی کامیابیاں ضرور ملیں جن کے باعث 1967ء میں اُٹھائی جانے والی شرمندگی کی کچھ تلافی ہو گئی۔ اِس جنگ کے دوران اسرائیل کو بھاری جانی اور مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ 1967ء کی جنگ کے نتیجے میں بند پڑی نہر سوئز کو کھولنے میں کامیابی حاصل کر لی گئی۔ اِس نہر کے کھلنے سے مصر کو ایک مرتبہ پھر بڑے اقتصادی فوائد حاصل ہونے لگے۔ مصری افواج نے صحرائے سینا میں بھی پیش قدمی کی لیکن شام گولان کی پہاڑیاں آزاد کرانے میں ناکام رہا۔ اِس جنگ کے فوراً بعد ہی یہ اشارے ملنا شروع ہوگئے تھے کہ مصر، اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی طرف جا سکتا ہے۔ پھر یہی ہوا جب قریب پانچ برس بعد ہی امریکی صدر جمی کارٹر کی میزبانی میں اسرائیل اور مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اِس کے نتیجے میں مصر کو صحرائے سینا واپس مل گیا تو جواباً مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ تعلقات قائم ہونے کے بعد سے دونوں ممالک مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اگرچہ اِس معاہدے کے نتیجے میں مصری صدر انوار السادات اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن بہرحال معاہدہ قائم رہا۔ معاہدے کے بعد سے مصر اور اسرائیل‘ دونوں ہی خطے میں امریکہ کے بہترین رفیق کار ہیں۔ مصر کے ساتھ دوستی کے نتیجے میں اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ختم ہو گیا کیونکہ مصر فوجی لحاظ سے عرب دنیا کا سب سے طاقتور ملک سمجھا جاتا ہے۔ شام نے البتہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی لیکن اب طویل عرصے سے وہ خود بھی شدید ترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے، جس کے بعد عملاً اب وہ اسرائیل کے لیے کسی بھی طور خطرہ بننے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ 
کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد اب اسرائیل کو بڑی کامیابی متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدے کی صورت میں ملی ہے۔ متحدہ عرب امارات پہلا خلیجی ملک ہے جس کے ساتھ اسرائیل کا ایسا کوئی معاہدہ طے پایا ہے۔ معاہدہ طے پانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے تیز رفتار اقدامات کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مواصلاتی رابطے قائم ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے فون پر ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے صورتحال پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ جلد ہی دونوں ممالک کورونا پر مشترکہ تحقیقات شروع کرنے کا آغاز کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جلد ہی مزید عرب ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے ہونے کو ہیں۔ گویا آنے والے دنوں میں اسرائیل کے لیے بتدریج اچھی خبریں آتی چلی جائیں گی۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لیے کوئی وجہ نہیں کہ وہ اِن حالات میں خوشیاں نہ منائیں، لیکن! دوسری طرف پہلے سے مختلف کیمپوں میں بٹے اسلامی ممالک کے درمیان مزید انتشار دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مصر اور اُردن کی طرف سے امارات اسرائیل معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے تو ایران اور ترکی وغیرہ کی طرف سے اِس پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ترکی کی طرف سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ ترکی کے ردعمل کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ خود ترکی کے طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے تو اِسے عرب امارات کی جانب سے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر عالم اسلام کے اہم ترین ملک سعودی عرب کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اِس حوالے سے یہ بات حلق سے نیچے نہیں اُترتی کہ اتنی بڑی پیشرفت میں متحدہ عرب امارات کو سعودی عرب کی خاموش تائید حاصل نہ ہو۔ایران کی طرف سے امارات کے اِس فعل کو شرمناک قرار دیا گیا ہے تو بحرین نے اِس صورتحال کا خیر مقدم کیا ہے۔ اب اِس حوالے سے بحرین کا نام ہی لیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا اگلا خلیجی ملک بحرین ہو سکتا ہے۔ اُردن کا تو 1994ء سے ہی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہو چکا ہے۔ اِس معاہدے پر اُردن نے کوئی زیادہ تنقید کی ہے نہ زیادہ جوش و خروش دکھایا ہے۔ عمان اور بحرین وغیرہ تو طویل عرصے سے مختلف شعبوں میں اسرائیل سے تعاون کر رہے ہیں۔ عمان وہ پہلا خلیجی ملک ہے جس کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دوسال قبل دورہ بھی کیا تھا۔ پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک کی طرف سے امارات اسرائیل معاہدے کے حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی یا پھر معمولی ردعمل سامنے آیا۔ متعدد اسلامی ممالک تو سرے سے ہی خاموش رہے‘ گویا اُن کے نزدیک یہ دوممالک کا باہمی مسئلہ ہے۔ اِن تمام حالات کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسرائیل کے قریب واقع عرب ممالک اُسے بتدریج ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتے چلے جا رہے ہیں، اِن حالات میں ایک مرتبہ پھر سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہی اُٹھانا پڑے گا جنہیں پہلے بھی کبھی بوجوہ‘ عرب ممالک نے زیادہ درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ عرب امارات اور اسرائیل معاہدے پر فلسطین کی طرف سے شدید ترین ردعمل تو سامنے آیا ہے لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ محض احتجاج برائے احتجاج ہے۔ اب جبکہ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر کچھ دوسرے ممالک بھی امارات کی پیروی کرسکتے ہیں تو اِس پر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ (جاری (

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved