فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ اب ''ابھی یا کبھی نہیں‘‘ کے اصول کی بنیاد پر کچھ ایسا کرنا ہی پڑے گا جس کے نتیجے میں معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوں۔ کراچی کا تماشا تین عشروں سے بھی زائد مدت سے دیکھا جارہا ہے۔ ایک طرف تو یہ اُمیدوں کا مرکز ہے اور دوسری طرف دُھتکارا ہوا لاوارث بچہ بھی۔ یہ عجب تماشا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
سوال دو چار لاکھ کی آبادی کو درپیش مسائل کا نہیں۔ کراچی کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ کروڑ اور غیر سرکاری تخمینوں کے مطابق کم و بیش سوا دو کروڑ ہے۔ آبادی میں اضافے کا عمل جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں شہر کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ ''پچ رنگی‘‘ آبادی نے معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔ لوگ بھی کیا کریں؟ جب آبائی علاقوں میں معاش کے بہتر اور قابلِ اعتبار مواقع میسر نہیں ہوتے تو وہ کراچی کا رُخ کرتے ہیں۔ آبادی میں اضافے کا عمل جاری رہنے سے مسائل کی نوعیت بھی بدل رہی ہے اور شدت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ شہر کے بنیادی ڈھانچے پر پڑنے والے دباؤ کے بارے میں سوچنے کی توفیق کسی کو نصیب نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی بنیادی ڈھانچے کی چُولیں ہلاچکی ہے۔ پانی اور بجلی کا بحران نقطۂ عروج پر ہے، بلکہ یہ کیفیت کئی سال سے برقرار ہے۔ صحت و صفائی کا جو حال ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اِس سے بلند معاملات کو تو جانے ہی دیجیے۔ جس شہر کی رونقیں برقرار رہنے پر باقی ملک کے تازہ دم رہنے کا مدار ہو‘ اُسے کب تک نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟ کراچی کے معاملات تین عشروں سے بھی زائد مدت سے خراب ہیں۔ اصلاحِ احوال کی سنجیدہ کوششیں برائے نام کی گئی ہیں۔ شاید یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ شہر خود بخود چلتا رہے گا۔ نظم و نسق کے معاملے میں اِتنی لاپروائی برتی گئی کہ عام سے معاملات بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہوگئے۔ محلوں اور سڑکوں کی صفائی جیسا یومیہ معمول بھی خرابی کی نذر ہوا۔ بنیادی سہولتوں کے حوالے سے کوئی ایک معاملہ بھی درست کرلیا گیا ہوتا تو شہرِ قائد کے مکینوں کو قرار آجاتا۔ المیہ یہ ہے کہ شہریوں کو کسی بھی معاملے میں ریلیف دینے کا نہیں سوچا گیا۔ اور اب بھی نہیں سوچا جارہا۔
آج بھی کراچی کے طول و عرض میں چھوٹی بڑی تمام سڑکوں پر ایسے گڑھے موجود ہیں جنہیں بھرنا دو دن کا بھی کام نہیں۔ معمولی کارپیٹنگ اور پیچنگ کے ذریعے شہریوں کو پریشانی سے بچایا جاسکتا ہے مگر ایسا کرے کون؟ ذاتی مفادات کی سطح سے بلند ہوکر سوچا جائے تو کچھ بات بنے۔ کئی سال سے اہلِ کراچی یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ شہر کے معاملات کو درست کرنے کے لیے قدرت ہی کوئی انتظام و اہتمام کرے تو کرے۔ نام نہاد سٹیک ہولڈرز سے اُمیدیں وابستہ کرنے کا سلسلہ ترک کردیا گیا تھا۔ یہ مجبوری کا سَودا تھا۔ جو شہر پر اپنا حق جتاتے تھے اُن میں سے کوئی بھی کام نہ آیا۔ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‘ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا، لوگ منتخب کرتے ہی رہیں گے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت کراچی کو وفاق کے زیرِ انتظام رکھا جائے۔ ضلع دادو میں بارش کے پانی سے متاثرہ بند کے معائنے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا ''اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو اپنی رائے سے رجوع کرے۔ سندھ کے عوام کراچی کو انتظامی طور پر وفاق کے حوالے کرنے کی ہر کوشش ناکام بنادیں گے۔ اُنہوں نے پیپلز پارٹی کو صوبے پر حکمرانی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ کراچی تحریک انصاف حکومت کا 'کپ آف ٹی‘ نہیں۔ کراچی کو وفاق کے حوالے کرنا سیاسی اور آئینی امور کے شعور سے محروم بعض حلقوں کی خوش فہمی ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی‘‘۔ پیر کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی وزیر اعلیٰ نے کہا ''سندھ کے ایگزیکٹیو معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ وفاق میں کچھ لوگ غلط سوچ رہے ہیں۔ وفاق سے کوئی مفاہمت نہیں ہوئی، کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔ چند کمیٹیاں سیاسی جماعتوں نے سیاسی معاملات درست کرنے کے لیے ضرور بنائی ہیں۔ سندھ حکومت چند ایک مسائل حل کرنے میں ناکام ضرور ہوئی ہے مگر اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وفاق نے سندھ کے 245 ارب روپے دبا رکھے ہیں۔ کراچی میں بارش کوئی پہلی بار نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا پر پرانی تصویریں دکھاکر لوگوں کو گمراہ کیا گیا ہے۔ نالوں کی صفائی آسان معاملہ نہیں۔ ایک طرف تجاوزات راہ میں حائل ہیں اور دوسری طرف نالوں میں کچرا ڈالنے کا معاملہ بھی ہے‘‘۔ سید مراد علی شاہ کی باتیں سَر آنکھوں پر۔ انہوں نے تمام معاملات کو بارش اور نالوں پر لاکر ختم کردیا۔ کراچی سمیت اہلِ سندھ کے کون سے بنیادی مسائل حل کیے گئے ہیں؟ سندھ کے دور افتادہ اضلاع میں گورننس کا جو حال ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ لوگ پینے کے صاف پانی اور صفائی کے انتظام کو ترس رہے ہیں۔ ڈھائی تین گھنٹے کی بارش حکومتی کارکردگی کا پول کھول دیتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ کراچی کس کی مِلک ہے یا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی کراچی کو اپنا سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کراچی کے منتخب بلدیاتی نمائندے (بشمول میئر) شکوہ سنج ہیں کہ اُنہیں فنڈز دیے جاتے ہیں نہ اختیارات۔ یہ شکایات عام ہے کہ سندھ حکومت نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں جس کے باعث شہر کے لیے کچھ بھی کرنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف سندھ حکومت کہتی ہے کہ بلدیات کے منتخب نمائندوں کو کام کرنے کا اختیار بھی دیا جاچکا ہے اور فنڈز بھی۔ اب شہری کیا کریں؟ کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں؟ خراب کارکردگی کے لیے مقامی اور صوبائی حکومت کے درمیان الزام تراشی کا مقابلہ ایک زمانے سے جاری ہے۔ بارہ سال سے سندھ کے معاملات پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہیں۔ کراچی کم و بیش پانچ سال تک شدید بے امنی کی زد میں رہا۔ شہر بھر میں جرائم پیشہ افراد کے گینگز کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تھا۔ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں چھیننے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو لوٹنے کا سلسلہ ایسی شکل اختیار کرگیا تھا کہ اچھی خاصی ریاست پر صومالیہ ہونے کا گمان گزرنے لگا تھا۔ کوئی بھی صوبائی ادارہ کام کر رہا تھا نہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ کو خطرے کی سنگینی کا احساس ہوا تو ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد کی راہ لی۔ وہاں کیا کہا اور کیا سُنا‘ کچھ معلوم نہیں۔ ہاں! اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ بات بنی نہیں۔ اگر کوئی حوصلہ افزا اشارہ ملا ہوتا تو یہ کہنا نہ پڑتا کہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت کراچی کو وفاق کے ماتحت رکھا جائے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان کو بھی فکر لاحق ہوئی ہے کہ کہیں سب کچھ ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ یہی سبب ہے کہ ہفتے کی رات شہر کے سٹیک ہولڈرز نے مل کر کہا کہ شہر کے لیے مل کر کام کریں گے! اس عزم نے اہلِ شہر کو حیران کردیا۔ حیرت تو ہونی ہی ہے۔ اب کسی کے کسی بھی وعدے کا یقین کیوں آئے؟ تین عشروں سے کراچی سمیت پورے صوبے کو جی بھرکے لوٹا جارہا ہے۔ عوام کو کچھ بھی نہیں ملا۔ اُنہیں تو پینے کا پانی تک خریدنا پڑ رہا ہے۔ تعلیم و صحت کا نظام کس حال میں ہے یہ سب جانتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کو درست کرنے کی کسی کر فکر نہیں۔ صنعت کاروں اور تاجروں کو سرکاری سطح پر جو سہولتیں ملنی چاہئیں وہ اب تک عنقا ہیں، اُنہیں خریدنا پڑتی ہیں۔
کراچی کے حوالے سے سندھ حکومت اور بلدیاتی نمائندے اب تک کوئی حوصلہ افزا بات نہیں کہہ پائے۔ سوا دو کروڑ کی آبادی کے شہر کو ''عدم حکمرانی‘‘ کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔ اچھا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین سطح پر کچھ سوچا جائے، کوئی واضح فیصلہ کیا جائے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے اپنی جیبیں بھرنے کی اجازت آخر کب تک دی جاسکتی ہے، کب تک اس معاملے سے چشم پوشی برتی جاسکتی ہے؟