کسی نے درست کہا تھا‘ اتنا جھوٹ بولو کہ آپ کو خود یقین آنا شروع ہوجائے کہ آپ سچ بول رہے ہیں ۔جھوٹ کو بار بار دہرانا پڑتا ہے جبکہ سچ ایک ہی دفعہ بولا جائے تو ہزار سال بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے بندے کو اقتدار میں آ کر کیا ہوجاتا ہے؟کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہوشیار‘ چالاک ہیں؟ وہ جب چاہیں اچھے اداکار کی طرح موقع کی مناسبت سے اداکاری کرسکتے ہیں۔ وہ جب چاہیں اپنی اداکاری سے لوگوں کو رلا دیں اور اگلے سین میں ہنسا دیں ؟لوگوں کا اعتماد توڑ کر اپنا مطلب نکال لینا کیا بہت بڑا کارنامہ ہے؟ یہی لوگ جب اپوزیشن کررہے ہوتے ہیں تو لگتا ہے ان سے زیادہ قوم کا ہمدرد کوئی نہیں ‘ مگراقتدار ملتے ہی یہ لوگ بدل جاتے ہیں۔
عمران خان صاحب نے لاہور کے جلسے میں کہا تھا کہ وہ کبھی قوم سے جھوٹ نہیں بولیں گے‘ دوستوں کو اعلیٰ عہدے نہیں بانٹیں گے ‘ دس پندرہ لوگوں کی کابینہ بنائیں گے اور ہر پوسٹ پر وہی بندہ لگے گا جس کا وہ حقدار ہوگا ۔ پوری قوم نے اعتبار کر لیا‘ مگراس اعتبار کا کیا بنا؟ آج کابینہ کی تعداد ساٹھ کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں آدھے یار دوست ہیں۔ اہم ترین وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کراچی کے ایک میڈیکل ڈاکٹر کو دی گئی جبکہ صحت کی وزارت ایک ایسے بندے کے حوالے کی گئی جس کو شاید میری طرح دوائی کی چٹ پڑھنی بھی نہیں آتی ہوگی۔ بعد میں موصوف لمبا ہاتھ مار کر فارغ ہوئے اورآج کل نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔ ایسے وزیروں کی لمبی فہرست ہے۔ یوں رائٹ جگہ پر رائٹ بندہ لگانے کا دعویٰ ہواہوگیا ۔ بشیر احمد المعروف اعظم سواتی کے فراڈ پر مبنی پانچ والیمز جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں پیش کیے تو فوراً استعفیٰ دے دیا کہ کہیں تاحیات پابندی نہ لگ جائے‘مگر جونہی چیف جسٹس ریٹائر ہوئے‘ اگلے ہفتے سواتی صاحب دوبارہ وزیر بنادیے گئے اور پوری پارلیمنٹ ان کے حوالے کر دی گئی۔ علی زیدی اسلام آباد میں جس دوست کے ہاں مقیم تھے اس پر ایف آئی اے نے سترہ کروڑ روپے کے فراڈ کا مقدمہ کر رکھا تھا‘مگر اسے پشاور میٹرو میںچودہ ارب روپے کا ٹھیکہ دے دیا گیا ۔ اب پتہ چلا کہ زیدی صاحب نے حفیظ شیخ صاحب کے ساتھ مل کر ایف آئی اے کا کیس کابینہ سے ختم کرانے کی کوشش بھی کی‘ البتہ چند وزیروں کی مخالفت کی وجہ سے بات وہیں رہ گئی۔ادھر ڈیرہ غازی خان سے ایک وزیر کے لطیفے ہم روز ٹی وی پر سنتے ہیں ۔ کیایہ تھا وہ میرٹ‘ جس کا ہمیں بتایا گیا تھا ؟
ہمیں بتایا گیا تھا کہ قوم سے جھوٹ نہیں بولا جائے گا ۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھی تھی تو اسد عمر سے ارشد شریف نے پوچھا تھا کہ قیمت وزیراعظم سے پوچھ کر بڑھائی گئی ؟تو وہ بولے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم صاحب سے اجازت لیے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کر لیں۔ کچھ دن بعد وزیراعظم صاحب کی ملاقات ٹی وی اینکرز سے ہوئی تو کسی نے پوچھ لیا کہ ڈالر کی قیمت کیسے بڑھی؟ جواب تھا کہ وہ خود اس معاملے میں لاعلم ہیں۔
اب کچھ وزیروں نے ٹوئٹ کیا ہے کہ انہوں نے قوم کے اربوں روپے بچا لیے ہیں ۔ ان اربوں کی بچت کی تفصیلات مزے کی ہیں۔ فرماتے ہیں انہوں نے ترکی کے جہاز'' کار کے‘‘ کی طرف سے عالمی عدالت کے جرمانے کے سوا ارب ڈالرز بچا لیے ہیں ۔ اس کا کریڈٹ عمران خان ترکی کے صدر طیب اردوان کو دیتے ہیں ‘ حالانکہ چودہ اگست کو تین سول اور ملٹری افسران کو پاکستان کے اعلیٰ اعزازات دیے گئے ہیں کہ انہوں نے کارکے سکینڈل میں کرپشن پکڑ کر پاکستان کی خدمت کی‘ جس کی وجہ سے پاکستان سو ارب ڈالر کے جرمانے سے بچ گیا ۔ ان تین افسروں کی کمیٹی وزیراعظم نواز شریف نے قائم کی تھی عمران خان نے نہیں ۔ نواز شریف کی بنائی ہوئی اس کمیٹی میں نیب افسران کے علاوہ آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ افسر بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے دو تین برس لگا کر ترکی کی کمپنی کی کرپشن پکڑی کہ کیسے انہوں نے کرپشن سے پاکستان میں کنٹریکٹ لیا تھا۔ عالمی عدالت کے رولز ہیں کہ اگر آپ نے کرپشن سے کنٹریکٹ لیا ہو تو جرمانہ ختم ہوجاتا ہے اور آپ بلیک لسٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ اب مجھے بتائیں طیب اردوان کی وجہ سے وہ پیسے معاف ہوئے یا پاکستان کے تین سپوتوں کی وجہ سے‘ جنہوں نے کارکے جہاز کی کرپشن پکڑ کر عالمی عدالت میں پیش کی؟ جونہی چوری پکڑی گئی ترک دوست دوڑے آئے کہ جناب ہماری کمپنی بلیک لسٹ ہوجائے گی اور ہم دنیا بھر میں بدنام ہوں گے ‘ ہم نے طیب اردوان کی محبت میں سارا الزام خود پر لے لیا اوراُلٹا کہا کہ ترکوں نے پاکستان پر احسان کیا اور یہ تاثر دیا کہ طیب اردوان نے پیسے معاف کروائے ۔اگر ترک بہت سخی تھے اور پیسے معاف کیے تو پھر ان تین افسروں کو کیوں میڈل اور ایک ایک کروڑ روپے نقد انعام دیا گیا کہ انہوں نے کارکے ڈیل میں کرپشن پکڑ لی‘ جس سے سوا ارب ڈالر بچ گئے تھے؟
اور سنیں ‘ جی آئی ڈی سی سکینڈل میں ریکور ہونے والے چار سو ارب روپے کا کریڈٹ بھی وزیراعظم نے لے لیا۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے صدر عارف علوی سے راتوں رات آرڈیننس جاری کروایا کہ کاروباری دوستوں اور چندہ پارٹی کو دو سو ارب روپے سے زائد پیسہ معاف کیا جاتا ہے۔ جب میڈیا نے شور مچایا تو میڈیا کا حشر کر دیا گیا ۔ پتہ چلا کہ دو ‘تین وزیروں کی اپنی کمپنیاں تھیں جنہیں اربوں کا فائدہ ہورہا تھا ۔ عمران خان صاحب میڈیا سے ناراض ہوئے ‘ میرا اور عامر متین کا ٹی وی شو بند اور نوکریاں ختم کروائی گئیں کہ ہم جی آئی ڈی سی سکینڈل پر شوز کررہے تھے۔ جب دبائو بڑھا تو آرڈیننس واپس لے لیا‘ لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ اس کیس کے جیتنے کے امکانات کم ہیں ۔ اللہ بھلا کرے جناب جسٹس مشاہیر عالم اور جناب جسٹس فیصل عرب کا جنہوں نے وہ پورے چار سو ارب واپس کروائے۔ حکومت یہ مقدمہ ہارنے کے لیے عدالت گئی تھی تاکہ میڈیا پر الزام دھر اجا سکے کہ ان کی وجہ سے وہ دوسو ارب روپے بھی ڈوب گئے جو مل رہے تھے۔ اب ذرا تصور کریں اگر یہ مقدمہ ہار جاتے تو وزیر اعظم صاحب نے بذاتِ خود پوری کابینہ کے ساتھ بیٹھ کر لائیو پریس کانفرنس کرنی تھی کہ کیسے میڈیا ملک دشمن اور جھوٹا ہے اور اس نے قوم کے دو سو ارب روپے ڈبو دیے ۔ ان صحافیوں کو یہ ملک چھوڑنے پر مجبور کردیتے جنہوں نے جی آئی ڈی سی میں دوسو ارب روپے معافی پر سٹینڈ لیا تھا۔ اب بھاگ کر ان سب نے کریڈٹ بھی لے لیا ہے۔
بندہ ایسے ہی حکمران نہیں بن جاتا‘ بہت محنت کرنا پڑتی ہے‘ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کے لیے۔ اگر یقین نہیں آتا تو ترکی کی کمپنی کارکے کا کیس دیکھ لیں ۔ ایک طرف وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ طیب اردوان نے احسان کیا‘ دوسری طرف تین افسران کو یہ کہہ کر میڈل بھی دے دیا کہ انہوں نے ترکی کی کمپنی کی کرپشن پکڑ لی ‘ جس پر وہ اپنا کیس ہارگئے۔جی آئی ڈی سی کیس میں حکومت قانون بنا کر دو سو ارب روپے معاف کرچکی تھی اور اب یہ فرماتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے یہ پیسے واپس ملے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ آپ جب تک لوگوں کے اعتماد اور اعتبار کا خون نہیں کرتے‘ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا ہنر نہیں جانتے‘ اس وقت تک آپ اوپر نہیں پہنچ سکتے۔اگر آپ میں سے کوئی اس کرتب میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس پر زیادہ نہیں صرف بائیس برس لگتے ہیں !