سواں ڈیم کے بارے میں تمام تفصیلات پڑھنے کے بعد میرا بے ساختہ سوال تھا‘ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس سے پانچ ہزار اور اس جیسے دوسرے ڈیموں سے تین ہزار میگا واٹ تک بجلی بآسانی حاصل کی جاسکے۔ انتخابات سے پہلے جب تحریک انصاف اپنا منشور پیش کر رہی تھی‘ میں نے ان کی ٹیم کے ایک رکن انجینئر انعام الرحمان سے سوال کیا کہ اس وقت ملک کو توانائی اور پانی کے جس شدید بحران کا سامنا ہے‘ اگر تحریک انصاف حکومت بنانے کے قابل ہو جاتی ہے تو اس پر کس طرح قابو پائے گی؟ انجینئر انعام الرحمان نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا: ’’سواں ڈیم سے ایسے‘‘۔سچی بات ہے‘ ان کی اس خوش کن انداز کی چٹکی پر میرا دل کچھ دیر تک تو چٹکتا رہا لیکن پھر میں سوچنے لگا کہ اگر یہ قابل عمل ہوتا تو ملک کی توانائی کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے کسی ادارے یاشخص کی اب تک اس طرف نظر کیوں نہیں گئی؟ میری بے یقینی کے اظہار پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بہترین مقام پوٹھو ہار میں وادی سواں ہے جہاں 38 سے 48 ملین ایکڑ فٹ پانی سما سکتا ہے جو تربیلا، کالا باغ ڈیم اور دیامر بھاشا کے ذخیروں سے آٹھ گنا تک بڑا ہے۔ تلہ گنگ سے ڈھلیاں کے درمیان ڈھوک پٹھان کے قریب منگلا ڈیم جتنی بڑی سد (دیوار) تعمیر کرکے یہ ذخیرہ وجود میں لایا جا سکتا ہے جس سے پاکستان کی تقدیر بدل کر رہ جائے گی۔تربیلا سے سرنگوں اور غازی بروتھا جیسی معمولی ڈھلوان کی نہر سے پانی منتقل کیا جائے گا۔ چونکہ اس ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکل سکتی اس لیے آپ اسے تربیلا کی توسیع بھی کہہ سکتے ہیں۔جولائی تا ستمبر ہر صوبہ جتنا چاہے اپنے حصے کے پانی کا رخ تربیلا سے اس ذخیرے کی طرف موڑ لے‘ اس سے ایک طرف وادی پشاور میں سیلاب کا نکاس ممکن حد تک بہتر ہو جائے گا جبکہ زیریں پنجاب اور سندھ میں انتہائی درجے کے سیلابوں کا مسئلہ بھی ہمیشہ کیلئے حل ہو جا ئے گا۔اس طرح بلوچستان میں ناڑی بولان، خیبر پختونخوا میں وارسک سے پرے، سندھ میں بھٹ شاہ گیس فیلڈ کے قریب، دریائے ناڑا پر ساون کے مقام پر اور پنجاب میں روہتاس کے قریب ذخیرہ آب کے بڑے بڑے منصوبے بن سکتے ہیں جن میں علا قائی سیلابوں کا جمع شدہ پانی آبپاشی اور پن بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو سکے گا۔ ہائی وارسک ڈیم کی جھیل کو بارہ میل دور منڈا ڈیم سے سپل وے سرنگ کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ان ذیلی منصوبوں کا مجموعی حجم بھی چالیس ملین ایکڑ فٹ سے بآسانی بڑھ سکتا ہے۔ انجینئر انعام کی باتیں سننے کے بعد یقین سا ہونے لگا کہ شاید ملک میں آنے والی متوقع تبدیلی اسی طرح کے قومی منصوبوں کا نام ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کی حکومت آ گئی تو انعام الرحمان نے یہ کہتے ہوئے مجھے اس منصوبے کی تفصیلات پر مبنی ای میل بھیج دی کہ تحریک انصاف کا یہ منصوبہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے علاوہ ملک کے عوام کو پیش کر دیا جائے کیونکہ ہمارا مقصد سستی سیا ست کرنا نہیں بلکہ ملک اورقوم کو پانی کی کمی اور توانائی کے اذیت ناک بحران سے نکالنا ہے۔ انجینئر انعام الرحمان کا دعویٰ ہے کہ صرف چھ بلین ڈالر کی لاگت سے مجوزہ سواں ڈیم سے پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی اگلے چار سال میں حاصل ہو سکے گی۔ اس تمام منصوبے کی تفصیلات پڑھنے کے بعد میرا یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ اﷲ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے بھرپور طریقے سے نوازا ہے۔ بہترین دماغ اور صلاحیتوں کے حامل لوگوں کی کسی بھی شعبے میں کمی نہیں‘ ہاں اگر کمی ہے تو درست فیصلہ کرنے والوں کی‘ اس ملک کے وسائل کو اپنے خاندانوں کی بجائے انسانوں کے استعمال میں لانے والوں کی۔ وطن عزیز میں جس طرف نظر اٹھا کر دیکھیں‘ اﷲ کے حضور سجدہ شکرادا کرنے کے سوا اور کوئی خیال نہیں آتا کہ اس ذات پاک نے پاکستان کے محدود جغرافیے میں فطرت کے ہر رنگ اور ہر موسم کا جہان آباد کر دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تقریباً نصف پانی ہمالیہ،قراقرم اور ہندو کش کے پگھلتے برف زاروں سے حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی نصف بارشوں سے جن کا زیا دہ جوبن صرف برسات کے دنوں میں ہوتا ہے۔ سال کا تین چوتھائی پانی جولائی سے ستمبر تک ہمارے دریائوں سے گزرتا ہے اور ان آبی گزرگاہوں کی تنگ دامانی کی وجہ سے ملک کا بہت بڑا علاقہ زیر آب آ جاتا ہے۔ ہر سال آنے والے سیلابوں سے قیمتی جانیں اور مال تباہ ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے دریائوں کی طغیانی پر قابو پا لیں تو ایک طرف عوام کے جان و مال کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے اور دوسری طرف اضافی پانی ذخیرہ کر کے ملک و قوم سستی بجلی کے علاوہ زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے تربیلا کے اوپر مجوزہ نئے پن بجلی گھروں کی کار کردگی بھی بڑھ جائے گی اور تربیلا کا کردار صرف برسات میں پانی کا رُخ موڑنے‘ سیلاب روکنے اور بہتے پانی سے بجلی بنانے کا رہ جائے گا جس سے اس کی کار آمد عمر میں بھی اضافہ ہو گا جبکہ پانی ذخیرہ کرنے کی سو سال تک کی تمام ذمہ داری سواں ڈیم سنبھال لے گا۔ دریائے سندھ کے بہائو میں موجو دہ رکاوٹ بھی ختم ہو جائے گی اور تربیلا میں رکنے والی گار (سلٹ) بہائو کے ساتھ ٹھٹھہ اور بدین تک پہنچنا شروع ہو جائے گی جس سے سمندر کا رسائو اور پیش قدمی رک جائے گی۔ سندھ ڈیلٹا کیلئے چھ سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی کا مختص کوٹہ پورے سال کے دوران دستیاب ہو گا جس سے تھر کے جنگلات،بحری اور دریائی حیات اور ماحولیات کو بھر پور فائدہ پہنچنے سے سندھ خوش حالی کی طرف بڑھے گا۔ بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ سواں ڈیم ملک کے آبی خزانے کا امین ہو گا جہاں سے ہر صوبہ اپنی ضروریات کے مطابق اپنا پانی حاصل کر سکے گا۔فی الوقت پاکستان میں ربیع میں 33 سے 35 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے‘ سواں ڈیم کی موجو دگی سے ساحلی علا قوں کیلئے مختص کوٹہ کے با وجود ربیع کا پانی بڑھا کر ساٹھ ملین ایکڑ فٹ تک کیا جا سکتا ہے۔ ربیع اور گیتی خریف کیلئے وافر پانی کی سہولت سے نہ صرف غلے ، کپاس اور چارے کی پیداوار دگنی ہو سکتی ہے بلکہ گوشت، ڈیری اور پولٹری کی پیداوار بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کو بجلی، آبیانہ اور ٹیکسوں کی مد میں کھربوں روپے کی اضافی آمدنی ہو گی اور لوگوں کو نئے روزگار کے وسیع مواقع ملیں گے۔ سواں ڈیم کیلئے نئی ٹیکنالوجی بھی درکار نہیں بلکہ یہ ارزاں اور عشروں پرانی مہارت سے چار سے پانچ سال میں تعمیر ہو سکے گا۔ ہاں اس اہم قومی منصوبے کیلئے اگر کسی نئی چیز کی ضرورت ہے تو وہ مخلص اور جرأت مند قیادت کی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved