تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     19-08-2020

اندر کی سازشیں

کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے کچھ وزرا اور میڈیا سے متعلق دیگر لوگوں کے اجلاس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے معاملے پر پھٹ ہی پڑے۔ انہوں نے اسد عمر اور شبلی فراز کو مخاطب کرکے کہا ''عثمان بزدار کہیں نہیں جارہا‘ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس کا سیاسی دفاع کرنے والا کوئی نہیں‘ بس ایک فیاض الحسن چوہان ہے جو یہ کام کررہا ہے‘‘۔ یہ سن کر شبلی فراز نے صفائی پیش کی کہ وہ چند دن پہلے لاہور گئے تھے ‘ جہاں وہ خود عثمان بزدار سے مل کر آئے تھے۔ اس پر عمران خان نے کہا ''مجھے سب پتا ہے کون کون بزدار کے خلاف ہے اور کہاں کہاں اس کی شکایتیں لگاتا پھرتا ہے لیکن میں کیوں اسے ہٹاؤں‘ پوری پنجاب اسمبلی میں کون اس قابل ہے جو اس کی جگہ لے سکتا ہو‘‘۔ یہ سن کر اجلاس میں شریک کسی شخص کی جرأت نہیں ہوئی کہ مزید کچھ کہے۔ ا جلاس ختم ہوا تو اوپر سے نیچے تک موبائل فون بجنے لگے۔ اسلام آباد میں وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی وجہ سے عثمان بزدار سے شاکی تھے فوری طور پر حرکت میں آئے تو یہاں وہاں صفائیاں پیش کرنے لگے۔ اس کے بعد ہی یہ طے پایا کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اراکینِ اسمبلی کے ساتھ عثمان بزدار سے ملیں اور انہیں پارٹی کی حمایت کا یقین دلائیں۔چند دن پہلے تک جو لوگ وزیراعلیٰ پنجاب پر شراب کے لائسنس کی بنیاد پر نیب کے نوٹس اور تفتیش پر خوش ہورہے تھے‘ عمران خان کا اشارہ پاتے ہی عثمان بزدار کی حمایت کے لیے میدان میں اتر آئے۔ اور تو اور وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے بھی کہہ دیا کہ'' شراب کا لائسنس دینے پر نیب کی انکوائری وزیر اعلیٰ کے عہدے کی تضحیک ہے‘‘۔
عثمان بزدار کا مسئلہ وہی ہے جو ان سے پہلے بھٹو دور میں حنیف رامے مرحوم ‘ ملک معراج خالد مرحوم اور نواز شریف دور میں غلام حیدر وائیں کو درپیش تھا۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا تعلق بھی اس مخصوص طبقے سے نہیں جسے پنجاب میں حکومت کرنے کا اہل خیال کیا جاتا ہے۔ ایک عام آدمی ہونے کے ناتے انہیں کمزور ہدف سمجھ کر پنجاب اسمبلی کے تمام خواص ان کے خلاف کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔جہانگیر ترین اگر عدالت سے نااہل نہ ہو جاتے تو وہ یقینا تحریک انصاف کی طرف سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جاتے اور شاید وہ مسائل بھی پیدا نہ ہوتے جو اَب ہو رہے ہیں۔ ان کے بعد اپنے مضبوط خاندانی پس منظر کی بنیاد پرشاہ محمود قریشی اور فواد چودھری کے ذہن میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت سنبھالنے کی خواہش کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی کی نشست ہار کر کھیل سے باہر ہوگئے اور فواد چودھری کو عمران خان کی ہدایت پر وفاقی وزارت پر ہی اکتفا کرنا پڑا‘ حالانکہ انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے کے لیے اپنے حلقے میں خاصی جوڑ توڑ کی تھی لیکن یہ نشست انہیں چھوڑنا پڑی۔ ان دونوں کے علاوہ علیم خان بھی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار تھے لیکن وسطی پنجاب میں کم نشستیں جیتنے کی وجہ سے ان کی پوزیشن اتنی کمزور ہوگئی کہ وزارتِ اعلیٰ ان کے ہاتھ سے نکل گئی ‘ رہی سہی کسر احتساب نے نکال دی ۔ ان تین قد آور شخصیات میں سے کوئی وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بن سکے گا‘ یہ فیصلہ الیکشن کے نتائج آنے کے چند ہی گھنٹے بعد ہوچکا تھا۔ اس کے بعد تحریک انصاف کے اراکین ِاسمبلی میں شاید ہی ایسا کوئی شخص ہو جس کا نام وزارتِ اعلیٰ کے لیے نہ لیا گیا ہو اوراس نے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں نہ مارے ہوں‘ لیکن عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب کرکے سب کو حیران کردیا۔ چند دنوں بعد حیرانی تو ختم ہوگئی مگر سازشوں کا آغاز ہوگیا۔
شاہ محمود قریشی‘ فواد چودھری یا علیم خان پارٹی کے اندر سازشیں کرنے والے نہیں‘ کھلے میدان میں لڑنے والے ہیں۔ پارٹی کے اندر رہ کر سازشیں وہ کررہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عمران خان پر نامعلوم دباؤ ڈال کر انہیں اپنے حق میں ہموار کیا جاسکتا ہے۔نیب میں شراب کے لائسنس والا معاملہ بھی انہی کا اٹھایا ہوا طوفان ہے جو احتسابی عمل کی بچی کھچی ساکھ بھی تباہ کر دے گا۔ جس وعدہ معاف گواہ پر بھروسا کرکے وزیراعلیٰ کو تفتیش کی ٹکٹکی پر کسنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اسی گواہ نے کئی لوگوں کو اصل بات بھی بتا دی ہے اور اگر یہ معاملہ عدالت تک پہنچا تو یہی گواہ صفائی کا بھی گواہ ہو گا۔ سازشیوں کی سادگی کہیے یا خام خیالی کہ ان میں سے ہرایک وزارتِ اعلیٰ کے لیے اپنا اپنا امیدوار ساتھ لیے پھرتا ہے یا خود کو اس عہدے کا سزاوار سمجھتا ہے۔ ان بے چاروں کو بھی علم نہیں کہ عثمان بزدار کو ہٹانے کے بعد پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کا وزیراعلیٰ رہے گا نہ وفاقی حکومت کا دم خم باقی رہے گا۔ یہ نکتہ کوئی سمجھے نہ سمجھے ‘ عمران خان اچھی طرح سمجھتے ہیں اوران لوگوں کو سمجھانے میں بھی کامیاب ہوچکے ہیں جن سے امیدیں باندھ کر عثمان بزدار کو پھنسانے کی یہ کاوش کی گئی تھی۔ 
تحریک انصاف کی اندرونی سازشوں کی کہانیا ں محض پنجاب تک محدود نہیں بلکہ پشاور میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان بھی ایک کے بعد ایک سازش سے نمٹ رہے ہیں۔ شہرام ترا کئی اور عاطف خان نے وزیراعظم سے اپنی قربت کے زور پر تو باقاعدہ بغاوت کردی تھی لیکن انجام یہ ہوا کہ اپنی وزارتیں چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ دونوں بھی سادگی میں مار کھا گئے‘ سمجھدار ہوتے تو بہکاوے میں آنے کی بجائے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو سازش سے آگاہ کر دیتے۔ ان دونوں کو بھی یہ خواب دکھایا گیا تھا کہ جلد ہی نیب کے ذریعے محمود خان کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیا جائے گا ‘ بس ان کی تھوڑی سی مدد چاہیے۔ حکومت کا خواب دیکھتے ہوئے یہ دونوں بھلا بیٹھے کہ سازش کا مقصد وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کی بجائے انہی دونوں کو ہٹانا تھا کہ بوقتِ ضرورت ان میں سے کوئی محمود خان کا متبادل نہ بن سکے۔ ان کے نکل جانے کے بعد اجمل وزیر واحد آدمی تھے جو بطور مشیرِ اطلاعات میڈیا میں وزیراعلیٰ محمود خان اور صوبائی حکومت کا دفاع شدّ ومدّ سے کررہے تھے۔ جن لوگوں نے شہرام ترا کئی اور عاطف خان جیسے متحرک لوگوں کو بہلا پھسلا کر شکار کیا تھا‘ ان کے لیے اجمل وزیر آسان ہدف تھا۔ ان کے خلاف سازش کا بنیادی کردار ایک بیوروکریٹ تھا۔ اس نے کئی لوگوں کے بیچ بیٹھ کر اجمل وزیر اور ایک اشتہاری ایجنسی کے مالک کے درمیان ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی اور اس کے ٹکڑے اس طرح جوڑے کہ جن کے ذریعے اجمل وزیر کو رشوت کا تقاضا کرتے ہوئے ثابت کیا جاسکے۔ اس افسر نے وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھے اپنے جیسے ایک شخص کو یہ ریکارڈنگ بھجوائی تاکہ عمران خان کو یہ سنوا کر اجمل وزیر کے خلاف فیصلہ لے سکے۔ جیسے ہی وزیراعظم کو یہ آڈیو سنائی گئی‘ انہوں نے وزیراعلیٰ کو اپنا مشیر بدلنے کی ہدایت کردی۔عثمان بزدار کے خلاف شراب کے لائسنس جیسے قصے کی طر ح اجمل وزیر کے خلاف گھڑی جانے والی کہانی میں بھی صداقت نام کو نہیں لیکن سازش بہرحال کامیاب ہوئی۔ سازشی ایک بار کامیاب ہوجائیں تو ان کا اعتماد آسمان کو چھونے لگتا ہے۔ یہی صورت اس وقت پشاور میں جہاں وزیراعلیٰ محمود خان ایک بار پھر ان کے نشانے پر آنے والے ہیں۔ 
ہر سیاسی جماعت کی طرح تحریک انصاف میں بھی اندرونی رقابتیں موجود ہیں لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے باوجود بھی ان میں کمی نہیں آرہی بلکہ یہ اندرونی سازشوں کی صورت میں سامنے آرہی ہیں۔جہانگیر ترین‘ عثمان بزدا ریا اجمل وزیر ‘ دونوں اندر سے ہونے والی سازشوں کا ہی شکار ہوئے ہیں۔ عمران خان کے سوا پارٹی کے اندر ہونے والی سازشوں کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کے لیے انہیں اپنے اردگرد موجود لوگوں کی چھانٹی کرنا ہوگی‘ وہ جتنی جلدی یہ کرلیں ‘ اتنا ہی اچھا ہے‘ زیادہ تاخیر خود ان کے خلاف کسی سازش کو جنم دے سکتی ہے۔ اور ہاں یہ ہر سازش میں احتسابی ادارے کا نام کیوں آجاتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved