عثمان بزدار جا رہے ہیں... آج جا رہے ہیں... کل جا رہے ہیں... اب گئے کہ تب گئے... اس بار تو بس گئے... یہ وہ افواہیں ہیں جو روزِ اوّل سے ان کے ساتھ جڑ کر رہ گئی ہیں۔ ان کا متبادل بن کر وزارتِ اعلیٰ کے کئی اُمیدوار ناکام و نامراد ہونے کے باوجود اسی دُھن میں بس بھاگے چلے جا رہے ہیں اور وزیر اعظم کے ہر دورہ لاہور پر اُن کے آگے پیچھے گھوم کر خود کو ان کی نظرِ انتخاب کا مرکز بنانے کے چکر میں نجانے کون کون سے چکر چلائے چلے جا رہے ہیں۔ کئی ایک تو چکر کاٹتے کاٹتے ہلکان ہو کر خود چکرا چکے‘ لیکن وزیر اعظم ہر بار عثمان بزدار سے منسوب تمام تر افواہوں اور سکینڈلز کی پروا کیے بغیر اپنا سارا وزن ان کے پلڑے میں ڈال کر ان پر اظہار اعتماد کر کے اُن امیدواروں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے ساتھ ساتھ کھلی آنکھ سے دیکھے خوابوں کو بھی چکنا چور کر جاتے ہیں۔ اس دوران نجانے کتنے سکینڈلز کے تانے بانے بزدار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش بدستور جاری ہے۔ اس بار نیب میں ان کی طلبی پر بغلیں بجانے والے کافی پراُمید نظر آتے ہیں کہ اب ان کی دلی مراد ضرور پوری ہو گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ اب وہ فرنٹ فٹ پر ہی کھیلیں گے۔ پنجاب کے ارکانِ اسمبلی سمیت قومی اسمبلی کے ارکان نے بھی اُن پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ اسد قیصر کی قیادت میں اُن سے ملنے والے ارکانِ قومی اسمبلی نے انہیں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے اُن پر کھلے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ان حالات میں بغلیں بجانے والے ہوں یا ان کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والے سبھی کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملنے والا۔ گلشن کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا اور عثمان بزدار دن بدن مزید متحرک ہوتے دِکھائی دیں گے۔ کئی بیریئر وہ پہلے ہی توڑ چکے ہیں۔ لیگ ورک کے ساتھ ساتھ انتظامی فیصلوں میں اپنا اختیار استعمال کرنے کا ہنر بھی خوب سیکھ چکے ہیں۔ اس دلچسپ صورتحال میں مجھے نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے ابتدائی ایّام بے اختیار یاد آرہے ہیں جو حالات کی عکاسی کے لیے بطور استعارہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
جنرل ضیاالحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کروائے تو پنجاب کی وزارت عُلیا کے لیے بڑے بڑے نامی گرامی، حسب نسب والے اور انتہائی قد آور سیاستدان امیدوار تھے۔ اس دور کی پنجاب اسمبلی پر ایک نظر ڈالی جائے تو فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا کہ کس کو کس پر فوقیت دی جائے۔ ایک سے بڑھ کر ایک امیدوار غیر معمولی سماجی حیثیت اور سیاسی اثرورسوخ کا مالک تھا‘ لیکن جب قرعہ نواز شریف کے نام نکلا تو ارکان اسمبلی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کے لیے انتہائی مشکل اور کٹھن مرحلہ تھاکہ ان کے سیاسی اور سماجی قد کاٹھ کو نظرانداز کرکے ایک ''بابو ٹائپ‘‘ ایم پی اے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا تھا جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہ صورتحال پوری پنجاب اسمبلی کے لیے سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔ اونچے شملے والی سیاسی قدآور شخصیات اکٹھی ہو گئیں کہ وزارت اعلیٰ کے لیے ہم نہ سہی‘ لیکن کوئی ہم سا تو ہو‘ اور یہ بابو ٹائپ نواز شریف تو ہرگز نہیں۔
نواز شریف کو بطور وزیر اعلیٰ قبول کرنا ارکان اسمبلی کے لیے مشکل مرحلہ تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جنرل غلام جیلانی کی آنکھ کا تارا‘ راج دُلارا نواز شریف نہ صرف وزیر اعلیٰ بنا بلکہ ارکان اسمبلی نے اسے اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔ واقفان حال یہ بھی جانتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ کی تقریبِ حلف برداری کے دوران گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے چائے کی ٹرے اٹھائے لے جاتے ہوئے ویٹر (بیرے) کو آواز دے کر بلایا اور اس کے سر سے کلاہ اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دی۔ حاضرین محفل کیلئے یہ ایک کھلا پیغام تھا کہ بیرا ہو یا نواز شریف‘ جادو کی چھڑی بہرحال ان کے ہاتھ میں ہے‘ کسی کو خاک بنا دے‘ کسی کو زردار کر دے۔
پنجاب حکومت کے قیام کے باوجود اپنی خو سے مجبور اکثر ارکان اسمبلی نواز شریف کو دِل سے وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کر پا رہے تھے اور اکثر پنجاب اسمبلی ڈیڈ لاک کا شکار رہتی۔ اس صورتحال کے پیش نظر ضیاالحق کو لاہور آنا پڑا۔ انہوں نے ارکان اسمبلی پر واضح کر دیاکہ وزیر اعلیٰ نواز شریف ہی رہیں گے۔ ان کی تبدیلی اور متبادل قیادت کی کوشش کرنے والے سن لیں کہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی ہرگز نہیں ہو گی‘ انہیں ہرصورت نواز شریف سے ہی تعاون کرنا ہوگا۔ جنرل ضیاالحق کے اس دورہ لاہور کے بعد وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کی کوششیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں‘ بالمقابل‘ بالآخر بغل گیر ہو گئے اور پھر نواز شریف کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ ضیاالحق نے ایک موقع پر یہ بھی کہہ ڈالا ''میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے‘‘۔ ضیاالحق کے ان دعائیہ کلمات کے بعد ان کی زندگی نے زیادہ وفا نہ کی۔ وہ ایک فضائی حادثے کا شکار ہو گئے اور ان کی دعا ایسی لگی کہ پھر نواز شریف نے کسی کو ساتھ نہیں لگنے دیا۔
یہ واقعہ دُہرانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ صبح شام وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کا راگ الاپنے والے ناصرف زمینی حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں بلکہ وہ کوئے سیاست کے اسرارورموز سے بھی ناواقف دِکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی بلوغت سے محروم ان چیمپئنز کو یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کئی مرتبہ ناصرف عزتِ نفس پر سمجھوتہ کرنا پڑا بلکہ تقریبِ حلف برداری میں تو جنرل غلام جیلانی نے انہیں اور ویٹر (بیرے) کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا تھا‘ لیکن بزدار صاحب کا کیس یکسر مختلف ہے۔ نہ کبھی ان کی عزت نفس مجروح ہوئی اور نہ ہی توہینِ آدمیت کا کوئی اشارہ ملا۔ وزیر اعظم سے ملاقات وفاقی دارالحکومت میں ہو یا صوبائی دارالحکومت میں‘ ہر بار مینڈیٹ اور اعتماد اضافے کے ساتھ ہی ملا۔ یہ حالات عثمان بزدار کو نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے ابتدائی ایام سے نہ صرف ممتاز کرتے ہیں بلکہ وہ کسی گورنر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے چاپلوسی پر بھی مجبور نہیں ہوئے۔
میری نظر میں بزدار سے جڑے سکینڈلز یا افواہوں کی حیثیت اس بھینس چوری کے مقدمے سے مختلف ہرگز نہیں جو چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف درج کروایا گیا تھا۔ عثمان بزدار گورننس کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے خود سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکاری بابوؤں کا قبلہ کب تک درست کر پائیں گے‘ جو نجانے کہاں کہاں سجدے کیے چلے جا رہے ہیں۔ یاد رہے‘ نواز شریف دور میں لگائی گئی انتظامی پنیری آج مضبوط جنگلی بیل بن کر سسٹم کو نہ صرف لپیٹے ہوئے ہے بلکہ گورننس پر اُٹھنے والے سوالات کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اس جنگلی بیل کی تراش خراش کے بغیر مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن دِکھائی نہیں دیتا؛ البتہ عثمان بزدار عام آدمی سے جڑے جن چھوٹے چھوٹے کاموں پر توجہ دے رہے ہیں‘ اگر ان کا انبار اسی طرح لگتا رہا تو یہ ایک دن یقینا کارکردگی کا پہاڑ بن سکتا ہے۔
کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ اخبارات کے ڈھیر میں ایک خبر پر نظر اَٹک کر رہ گئی کہ نیب نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کے خلاف بھی انکوائری کا آغاز کر دیا ہے اور ان کے اہلِ خانہ کے نام پراپرٹی، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات اور دیگر ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر ملتان کو پابند کیا گیا ہے کہ مطلوبہ ریکارڈ کی فراہمی یقینی بنائیں۔ گویا محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کے سربراہ گوہر ثابت ہوئے اور نا ہی نفیس نکلے، حکومت نجانے کیوں گوہر نفیس سے بے تحاشا توقعات وابستہ کیے ہوئے تھی۔ ایسے اداروں کے سربراہ لگاتے وقت انتہائی احتیاط اور ہوش مندی کی ضرورت ہے۔ جب احتساب کرنے والوں کی دیانت اور اہلیت پر سوال آجائے تو پھر کیسا احتساب اور کہاں کی گورننس۔ حکومت کو چاہیے کہ انکوائری مکمل ہونے تک انہیں اس اہم عہدے سے علیحدہ کرکے غیر جانبدار انکوائری کو یقینی بنایا جائے اور گوہر نفیس کو بھی انکوائری مکمل ہونے تک اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے خود معذرت کر لینی چاہیے۔ مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے؟