مولانا کو آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''مولانا کو آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا‘‘ کیونکہ خود میری ملک میں واپسی کے انتظامات کو آخری شکل دی جا رہی ہے اور اب عدالت نے بھی یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ میں ضمانت پر ہوں یا مفرور، اور دوسری بات یہ کہ اب خود مجھے مولانا کی ضرورت پڑنے والی ہے‘ اس لیے میں کوشش کروں گا کہ مولانا کو شکایت کا موقع نہ ہی ملے۔ اگرچہ میں اصل شکایت دُور کرنے کی پوزیشن میں خود بھی نہیں ہوں کیونکہ مجھ سے زیادہ مفلوک الحال شخص پاکستان میں شاید ہی کوئی موجود ہو۔ آپ اگلے روز لندن سے فون کر رہے تھے۔
حکومت اور کورونا کی بیماری
میں کوئی فرق نہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت اور کورونا کی بیماری میں کوئی فرق نہیں‘‘ کیونکہ ٹیسٹ کرائے بغیر اس کا بھی پتا نہیں چلتا کہ لاحق ہو چکی ہے یا نہیں؛ تاہم احتیاط بیحد ضروری ہے اور میں اپنے رفیق دوستوں سے گزارش کروں گا کہ حکومت کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرتے وقت ماسک ضرور استعمال کریں اور احتیاطاً اپنے اپنے گھروں میں قرنطینہ کا بھی انتظام کر چھوڑیں،جبکہ احتسابی ادارے سے خاص طور پر پرہیز کرنے کی ضرورت ہے جو ٹیسٹ پازیٹیو آنے کے بغیر بھی پکڑ کر لے جا سکتا ہے اور اس کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین بھی تیار نہیں ہو سکی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نیب نے مجھے ملزم نہیں بطور گواہ بلایا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''نیب نے مجھے ملزم نہیں بطور گواہ بلایا‘‘ تا کہ میں اپنے اور اپنے عزیزوں کے نام پر خریدی ہوئی زمینوں اور پیسوں کے ضمن میں گواہی دے سکوں اور مجھے چونکہ تفصیلات کا علم نہ تھا اس لیے میں نے ہر سوال کے جواب میں کہہ دیا کہ مجھے کچھ پتا نہیں جبکہ سیکرٹری ایکسائز پر دبائو ڈال کر خلافِ قانون مے فروشی کا لائسنس جاری کروانے کے حوالے سے تو مجھے ہرگز کچھ یاد نہیں،انہیں چاہیے تھا کہ مجھ سے وہ سوال کریں جن کے جواب مجھے یاد ہیں اور سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کو اس طرح بلانا بھی نہایت نا مناسب تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ون ونڈو سمارٹ سروس کا افتتاح کر رہے تھے۔
سیاحوں کے لیے پاکستان پُرکشش
منزل بن چکا ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''سیاحوں کے لیے پاکستان پرکشش منزل بن چکا ہے‘‘ جبکہ سب سے زیادہ پُرکشش مقام ہماری حکومت ہے کہ یہ چل کیسے رہی ہے اور جو بہت جلد دنیا کے اہم عجوبوں میں شامل ہونے والی ہے۔ علاوہ ازیں بھی یہاں ''جیہڑا بھنّو لال‘‘ ہی نظر آئے گا جبکہ سیاحوں کے ذریعے ہونے والی آمدن ہی پاکستان کا خرچہ چلانے کے لیے کافی ہوا کرے گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹ کر رہے تھے۔
وجہ؟
ایک خاتون نے طلاق کے لیے اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ جب کیس پیش ہوا تو جج نے مُدعا علیہ سے پوچھا کہ تمہاری بیوی نے اپنے دعویٰ میں الزام لگایا ہے کہ اس کے ساتھ تمہاری شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں لیکن تم نے اس دوران اس سے کبھی بات نہیں کی۔ کیا یہ درست ہے؟
اس پر مدعا علیہ نے جواب دیا کہ یہ بالکل درست ہے۔
جج نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا: جناب! یہ کبھی خاموش ہوئی ہو تو میں اس سے بات کرتا!
آواز
ایک صاحب کے فون کی گھنٹی بجی تو انہوں نے ریسیور اٹھا کر ہیلو کیا، جس کے جواب میں کہا گیا کہ ذرا زور سے بولیے۔ وہ زور سے بولے تو کہا گیا کہ ذرا اور زور سے بولیے۔ وہ اور زور سے بولے تو پھر کہا گیا کہ اور زور سے بولیے جس پر انہوں نے کہا: اگر اور زور سے بول سکتا تو پھر فون کرنے کی کیا ضرورت تھی، میں ویسے ہی بات کر لیتا!
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
خون کی باس کو مہکار سمجھ رکھا ہے
آپ نے لاشوں کو گلزار سمجھ رکھا ہے
آپ جس خواب میں زندہ ہیں بُنا تھا میں نے
آپ نے مجھ کو خریدار سمجھ رکھا ہے
آپ کے حسنِ بصارت کے میں جائوں صدقے
نیند کے شہر کو بیدار سمجھ رکھا ہے
اتنی شکلیں ہیں مری‘ کچھ تو پسند آ جائے
آپ نے ٹھیک ہی فنکار سمجھ رکھا ہے
گھر کے دروازوں کو دیوار بنایا ہوا ہے
خوف نے لوگوں کو بیمار بنایا ہوا ہے
تری بانہوں میں سما سکتی تھی دنیا ساری
تو نے گردن کا مری ہار بنایا ہوا ہے
(الیاس بابر اعوان)
وہ مرے خواب کی تعبیر میں ٹھہرا ہوا ہے
سارا ماحول ہی تنویر میں ٹھہرا ہوا ہے
خال و خد عین وہی اور جوانی بھی وہی
وقت جیسے تری تصویر میں ٹھہرا ہوا ہے
وہ کسی اور کے حصے میں کہاں جائے گا
جو ستارہ مری تقدیر میں ٹھہرا ہوا ہے
اک زمانے سے بگاڑی ہے فقط تیرے لیے
اس لیے تجھ پہ مرا سب سے زیادہ حق ہے
(حسین اختر)
آج کا مطلع
یہ جو تیرے پاس ہونے کا ہمارا خواب ہے
سر بسر اک وہم ہے‘ سارے کا سارا خواب ہے