ہم زندگی بھر ناکامی سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف کامیابی کا گراف بلند کرتے جانے کی خواہش بھی پنپتی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو کسی مقام تک پہنچانے کا عمل زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ کسی مقام پر تھک کر رُک جانے کی گنجائش نہیں۔ کامیابی یقینی بنائے رکھنے کے معاملے میں صرف محنت کا آپشن باقی رہتا ہے۔ جس نے یہ آپشن ہاتھ سے جانے دیا اُس نے سبھی کچھ کھویا۔ ذہنوں میں پنپنے اور اُنہیں الجھانے والا ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ حقیقی کامیابی کیا ہے اور اُس کے حصول سے کیا تمام معاملات درست ہو جاتے ہیں۔ اس سوال کا جواب حالات کی روشنی میں دیا جاسکتا ہے۔ ہر انسان اپنے مخصوص حالات کے دائرے میں رہتے ہوئے کامیابی کے حصول اور اُسے برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے مجموعی ماحول کو نظر انداز کرنا کسی کے لیے مکمل طور پر ممکن نہیں ہوتا۔
سب سے پہلے تو یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ کامیابی ہے کس چڑیا کا نام۔ ہر انسان کے لیے کامیابی الگ مفہوم رکھتی ہے۔ کسی کے لیے بہت زیادہ دولت کا حصول کامیابی ہے اور کسی کے لیے بھرپور شہریت کامیابی قرار پاتی ہے۔ کوئی زندگی بھر سیر و تفریح کی گنجائش نکالنے ہی کو کامیابی قرار دے کر خوش ہو رہتا ہے۔ بہر حال، کامیابی کا مفہوم سب کو انفرادی سطح پر طے کرنا ہی پڑتا ہے۔ اگر اِس مرحلے سے نہ گزرا جائے تو بہت کچھ پاکر بھی ادھورے پن کا احساس باقی رہتا ہے۔
اگر باقی دنیا کو چھوڑ کر صرف اپنے ماحول کا جائزہ لیں تب بھی ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے جو اپنی خواہشات کے مطابق بہت کچھ پاچکے ہیں اور سب کی نظر میں کامیاب ہیں مگر زندگی سے خوش نہیں۔ اُن کے گِلے شکوے ختم نہیں ہوئے۔ بہت کچھ پانے کے بعد بھی وہ بے چین ہیں اور دن رات یہی رونا روتے رہتے ہیں کہ زندگی نے اُنہیں کچھ نہیں دیا یا انہیں کچھ نہیں ملا۔ اگر انسان طے کرلے کہ اپنی کامیابی کو کامیابی سمجھنا ہی نہیں تو پھر اُسے کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ زندگی بھر محنت کرنے اور اُس کے نتیجے میں بہت کچھ پانے والے بھی روتے پائے گئے ہیں۔ یہ رونا اِس لیے ہے کہ اُنہوں نے کامیابی کے مفہوم کو سمجھے بغیر اُس کے حصول کی تمنا کی اور محنت کے ذریعے اُسے حاصل بھی کرلیا۔ اب چونکہ وہ کامیابی کے بارے میں واضح ذہن نہیں رکھتے اس لیے قدم قدم پر الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ کبھی وہ دولت میں کامیابی ڈھونڈتے ہیں اور کبھی شہرت میں۔ جو معمولی وسائل میں بھی اچھی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے خوش دکھائی دیتے ہیں اُنہیں دیکھ کر ایسے لوگ اور بھی دُکھی ہوتے ہیں جو ڈھیروں دولت پاکر بھی سکونِ دل کی منزل سے بہت دور ہیں۔
کامیابی محض دولت یا شہرت کے حصول کا نام نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کوئی دُکھی نہ ہوتا۔ انسان کامیابی کے حوالے سے ہمیشہ ذہنی الجھن کا شکار رہا ہے۔ وہ زندگی بھر محنت بھی کرتا ہے مگر اپنے آپ سے‘ اپنی کامیابیوں سے خوش بھی نہیں ہو پاتا۔ کامیابی محض اس بات کا نام نہیں کہ انسان اپنی تجوری بھرلے۔ اور کامیابی یہ بھی نہیں کہ لوگ پہچانیں‘ سراہیں۔ یہ سب کچھ کامیابی کا حصہ ہے۔ حقیقی مفہوم میں کامیابی یہ ہے کہ انسان اپنے زندگی کا کوئی مقصد طے کرے اور اُس کے حصول میں کامیاب بھی ہو۔ زندگی اُسی وقت مفہوم سے آشنا ہوتی ہے جب اُس کا کوئی واضح مقصد ہو۔ دولت اور شہرت صرف سنگ ہائے میل ہیں۔ یہ سب کچھ تو کامیابی کے سفر میں ملتا ہی ہے۔ اِسے کامیابی سمجھ کر خوش ہو رہنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
ڈیوڈ میکیولو جونیئر نے کیا پتے کی بات کہی ہے کہ آپ پہاڑ کی چوٹی تک اس لیے نہیں پہنچتے کہ لوگ آپ کو دیکھیں۔ چوٹی تک پہنچنے کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ آپ دنیا کو اچھی طرح دیکھ سکیں‘ درست اندازے قائم کرسکیں‘ سب کی اصلیت سے واقف ہوسکیں‘ معاملات کو سمجھ سکیں۔ ڈیوڈ میکیولو جونیئر کی بات میں دم ہے۔ کامیابی صرف اِس بات کا نام نہیں کہ ہم اپنی جیب بھرلیں‘ مادّی وسائل سے غیر معمولی حد تک ہم کنار ہوکر کاہلی و تن آسانی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ جو لوگ دولت کو کامیابی سمجھتے ہیں وہ اپنے وجود کو گھن لگالیتے ہیں۔ پھر وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ تجوری بھرتی جائے۔ تجوری بھرنا نہ تو کوئی بہت بڑا مقصد ہے اور نہ ہی زندگی کے تمام مسائل کا حل۔ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے والے کو سب دیکھتے ہیں۔ یہ کامیابی انسان کو بڑا سکون دیتی ہے۔ اچھی بات ہے مگر چوٹی تک پہنچنے پر سب کی نظر میں آنا‘ سب کو دکھائی دینا کوئی بہت بڑا مقصد نہیں۔
قدرت ہمارے لیے بہت سے معاملات میں کامیابی کا اہتمام اس لیے کرتی ہے کہ ہم زندگی کو بہتر انداز سے سمجھ سکیں، اِس کے مسائل کا اندازہ لگاسکیں اور پھر اُن مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہوں۔ دولت اور شہرت پاکر مطمئن ہو رہنے اور دوسروں کے معاملات سے مکمل چشم پوشی برتنے کی صورت میں زندگی محض الجھتی ہے، کامیابی حاصل ہوکر بھی حاصل نہیں ہوتی۔ قدرت ہمیں جو کچھ بھی دیتی ہے اُس میں دوسروں کا کردار ہی نہیں‘ حصہ بھی ہوتا ہے۔ ہم صرف اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی محنت اور توجہ کے نتیجے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسے میں لازم ٹھہرتا ہے کہ کامیابی کے ثمرات میں دوسروں کو شریک کریں۔ جو شخص غیر معمولی محنت کے نتیجے میں پہاڑ کی چوٹی تک پہنچتا ہے وہ سب کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ایسے میں سوچنا تو بنتا ہے کہ اگر کوئی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ بھی گیا ہے تو اِس میں دوسروں کے لیے کیا ہے۔ چوٹی تک پہنچنے والے کو محض اس کامیابی کی بنیاد پر کوئی کیوں سراہے؟ یہ تو اس کا ذاتی معاملہ ہوا۔ وہ اگر چوٹی تک پہنچا ہے تو اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے۔ اس عمل سے باقی دنیا کو کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں۔
کامیابی غیر معمولی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِسے کامیابی کی قیمت سمجھیے۔ حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کی دو قیمتیں ہوتی ہیں۔ ایک قیمت اُس کے حصول کی اور دوسری قیمت وہ ہے جو کامیابی کے حصول کے بعد ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ دوسری قیمت ادا کرنا اگرچہ بہت آسان لگتا ہے مگر یہی انسان کی اصل آزمائش ہے۔ کامیاب ہونے والوں میں کم ہی ہیں جو یہ قیمت ادا کر پاتے ہیں۔
کسی بھی کامیاب انسان کو حقیقی مسرّت اُسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب وہ اپنی کامیابی سے دوسروں کو بھی فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کرے۔ کوئی بھی انسان جب کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تب، کامیابی کے حصول کے لیے کی جانے والی محنت کی بدولت‘ اُسے دوسروں کے مسائل کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے۔ کامیابی یقینی نہ بنائی جاسکے تب بھی مسائل کا اندازہ ہو پانا کچھ مشکل ہے نہ حیرت انگیز۔ ہر انسان مرتے دم تک گوناگوں مسائل ہی کا تو شکار رہتا ہے۔ ایسے میں کامیابی یقینی بنائے جانے کی صورت میں اُسے دوسروں کے حقوق کا بھی احساس لازمی طور پر ہونا چاہیے۔ کامیابی اصل لطف اُسی وقت دیتی ہے جب اِس کے ثمرات سے متعلقین کو محروم نہ رکھا جائے۔ اپنی کامیابی میں دوسروں کو شریک ہونے کا موقع دینے والے ہمیشہ غیر معمولی مسرت سے ہم کنار پائے گئے ہیں۔
کامیاب شخصیات معاشرے کے لیے مقناطیس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ عوام کو تیزی سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ایسے میں اس بات کی غیر معمولی اہمیت ہے کہ کامیاب شخصیات بھی اپنے حصے کا کام کریں، معاشرے کو بہتر بنانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ غیر معمولی طرزِ رہائش یقینی بنانے کے لیے درکار وسائل سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہو اُس میں دوسروں کو شریک کیا جائے۔ براہِ راست مالی امداد کے ساتھ ساتھ کامیاب شخصیات دوسروں کو بھرپور کامیابی کی تحریک دے کر بھی اُن کی مدد کرسکتی ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوتا ہے کہ دل بڑا ہو، نظر وسیع ہو۔ دنیا بھر میں حقیقی کامیاب انسان وہی ہیں جو چوٹی پر پہنچنے کے بعد صرف اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ دنیا اُنہیں دیکھ رہی ہے بلکہ وہ بھی سب کو دیکھ کر، اُن کے مسائل سے آگاہ ہوکر اپنے کردار کا سوچتے ہیں۔